***٤***
وصایاۓ مبارکہ اعلی حضرت قدس سرہ کی ایمان افروز شرح
از- حضور مظہر اعلی حضرت شیر بیشۂ اہلسنت مولانا حشمت علی خان قادری رضوی علیہ الرحمہ
فرزند دینی و یقینی حاجی احمد قادری رضوی انجاکم رب المنن و ایانامن الہموم و الغموم و الشرور و المحن آمین برحمة حبيبه دافع البليان والفتن عليه و على آله وصحبه و ابنه الغوث العظم و حزبه و الصلاة بعددمافى الليل والنهار وعلیکم السلام و رحمتہ و برکاتہ۔خط ملا حالات سے آگاہی ہوئی۔
حضور مرشد برحق امامِ اہل سنت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہ بھی ایک زبردست کرامت جمیلہ ہے کے بفضلہ تعالی و بکرم حبیبہ صلی تعالیٰ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے وصال اقدس کے بیس پچیس برس بعد آج کے رونما ہونے والے واقعات عالم کو اسی وقت ۱۳۴۰ھ کے محرم و صفر ہی میں ملاحظہ فرما کر سنی مسلمانوں کو ان کی خبر دے کر ان کے اسلام و سنیت کی حفاظت کا اہتمام و انتظام فرما رہے تھے۔
صاف فرما دیا کہ "میں پونے چودہ سو برس کی عمر سے یہی بتارہا اور اب پھر یہی عرض کرتا ہوں" یعنی ہر محبوب چیز سے بڑھ کر اور ہر عظمت والی ہستی سے زائد اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ وسلم کی سچی محبت کامل تعظیم اور اللہ و رسول ہی کے لیے اُن کے دوستوں سے دوستی و الفت اور اللہ و رسول ہی کے لیے ان کے دشمنوں جملہ بدمذہبوں گمراہوں مرتدوں بیدینوں سے جدائی و نفرت کا مدار ایمان و اسلام ہونا یہی حضور اعلیٰ حضرت قبلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری عمر شریف بھر کے جملہ نصائح مقدسہ و مواعظ قدسیہ و تقریرات مبارکہ و تصنیفات متبرکہ کا عطر و خلاصہ ہے۔ جس نے اس پر عمل کیا اس نے حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جمیع تصانیف مقدسہ و ارشادات متبرکہ پر بتوفیق تعالیٰ عمل کر لیا۔اور جس نے اس سے منہ پھیرا اس نے حضور اعلیٰ حضرت قبلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تمام تحریرات شریفہ اور تقریرات منیفہ کو عیاذباللہ تعالیٰ ٹھکرا دیا۔
یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالی ضرور اپنے دین کی حمایت کے لئے کسی بندے کو کھڑا کر دےگا مگر نہیں معلوم میرے بعد جو آئے کیسا ہو اور تمہیں کیا بتائے اس لیے ان باتوں کو خوب سن لو یعنی اللہ عزوجل اپنے پیارے دین اسلام کی نصرت و حمایت و خدمت و حفاظت کی تو ضرور اپنے کسی نہ کسی بندے کو توفیق عطا فرمائے گا۔لیکن تم کو نہیں معلوم کے میرے بعد آنے والے میرے اخلاف کیسے ہوگے اور تمہیں کیا بتائے گے۔لہٰذا میری ان باتوں کو جو اس وقت فرما رہا ہوں خوب سن لو اچھی طرح یاد رکھو انہیں پر عمل کرتے رہو میرے بعد آنے والے میرے اخلاف اگر ان باتوں کے خلاف تمہیں کچھ بتائے تو اس وقت ہرگز یہ خیال نہ کرنا کے یہ تو اعلیٰ حضرت کے اخلاف ہے جو کچھ بھی بتا رہے ہیں اگرچہ اعلیٰ حضرت کے ارشادات کے خلاف ہے لیکن اعلیٰ حضرت ہی کے اخلاف کی تو تعلیم و تلقین ہے۔لاؤ اس پر بھی عمل کر لے بلکہ میرے بعد آنے والا یعنی میرا خلف کہلانے والا کوئی بھی شخص بھی میری جن باتوں کے خلاف کچھ بھی بتائے تو اسے ہرگز نہ سننا،اس کو ہرگز قبول نہیں کرنا۔ یہ بھی فرما دیا کہ "حجۃاللہ قائم ہو چکی"۔یعنی میرے ان ارشادات مبارکہ و وصایائے مقدسہ کے خلاف میرے بعد آنے والا میرا خلف کہلانے والا کچھ بتائیں اور کچھ مسلمانان اہلسنت کہلانے والے اسی کو مان لیں،اسی پر عمل پیرا ہو جائے تو وہ اللہ جل وعلا کے حضور چھوڑ نہیں دیے جائیں گے۔قیامت کے دن اُن کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ ہم نے تو اعلیٰ حضرت ہی کے اخلاف کے بتانے پر عمل کر کے اعلیٰ حضرت کے ان وصایائے مقدسہ و نصائح قدسیہ سے منہ موڑا تھا محشر کے روز یہ حیلہ نہیں چلے گا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مقدّس خاندانِ رضوی کے اخلاف اور مبارک سلسلہ رضوی کے خلفاء کہلانے والے اُن بڑے بڑے حضرات علماء کو جن کی روش ان ارشاداتِ ربانیہ کے خلاف تھی غلطی پر کیوں کر مان لیں۔نہیں نہیں اللہ واحد قہار جل جلالہ کی حجت تم پر تام ہو چکی میرے ان وصایائے حقانیہ کا جس کسی کو بھی جس قدر بھی مخالف پاؤ اس کو اسی قدر حق سے جدا سمجھ کر اتنا ہی اس سے تم بھی جدا ہو جاؤ۔
یہ بھی فرما دیا کہ "اب میں قبر سے اٹھ کر تمہیں بتانے نہ آؤں گا"۔یعنی میری عمر شریف کی یہ آخری مجلس واعظ ہے آج کے بعد سے قبر میں میرے تشریف لے جانے کے وقت تک پھر تمہیں کسی جلسے میں اس طرح میرے مواعظ طیبہ سننے کا موقع نہیں ملے گا۔دیکھو ہرگز میرے ان ارشاداتِ ایمانیہ سے کبھی روگردانی نہ کرنا۔میرے اخلاف بھی اگر میرے ان نصائح دینیہ کے خلاف کچھ بتائے تو اس وقت یہ خیال ہرگز نہ کرنا کے اعلیٰ حضرت کے اخلاف کے خلاف ہم کیسے کریں۔یہ تو اعلیٰ حضرت کے اخلاف ہیں۔اور ہم تو اعلیٰ حضرت کے حلقہ بگوشان سرکار و گدایان دربار ہی ہیں پھر ہم کو اعلیٰ حضرت کے ان اخلاف کے خلاف کچھ کہنے سننے کرنے کا کیا حق ہے کسی اور کے سمجھانے سے ہم کیسے سمجھیں کہ اعلیٰ حضرت کے ان اخلاف کی یہ باتیں خلاف ہیں۔سن لو دنیا میں بالکل آخری مرتبہ تم کو یہ وصایائے ایمانیہ فرما رہا ہوں۔دیکھو میرے بعد ہرگز یہ نہ کہنا کہ اعلیٰ حضرت کے اخلاف تو یہ بتا رہے ہیں اور اعلیٰ حضرت کا ایک گنہگار سگ دربار گدائے سرکار اُن کے خلاف یہ کہہ رہا ہے کہ اعلیٰ حضرت ہی کے ارشادات پر عمل کرو کسی ایسے ویسے کے کہنے سے ہم اعلیٰ حضرت کے اخلاف کے خلاف کیونکر عمل کریں ہاں اگر اعلیٰ حضرت خود ہی اپنی قبر اقدس سے اٹھ کر تشریف لائیں اور یہ ارشادات خود اپنی ہی زبان مبارک سے پھر ہم کو سنائیں تو ضرور ہم اعلیٰ حضرت کے فرمان پر اپنا سر تسلیم جھکائیں۔یاد رکھو دنیا میں یہ میرا آخری دربارِ عام ہے۔آئندہ میرے ان ارشاداتِ ایمانيہ پر عمل کرنے کے لیے قبر انور سے خود میرے اٹھ کر تشریف لانے اور بتانے کا ہرگز انتظار نہ کرنا۔
یہ بھی فرما دیا کہ"میرا دین مذہب جو میری کتب سے ظاہر ہے اس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔"یہ نہیں فرمایا کے میرا دین و مذہب میرے خلفاء سے پوچھ لینا۔یہ بھی نہیں فرمایا کہ میرا دین و مذہب میرے اخلاف سے دریافت کر لینا۔یہ بھی نہیں فرمایا کہ میرا دین و مذہب جو میری کتب میں ہیں میرے خلفاء یا اخلاف سے سمجھ لینا۔کسی سنی کسی رضوی کے لئے آج یہ کہنے کا موقع نہیں چھوڑا کہ اعلیٰ حضرت کا دین و مذہب جو اعلیٰ حضرت کی کتابوں میں ہے اس کو اعلیٰ حضرت کے خلفاء و اخلاف سے زیادہ بلکہ ان کے برابر بھی کون سمجھ سکتا ہے۔کسی سنی بننے والے کسی رضوی کہلانے والے کے لئے یوں کہنے کی گنجائش باقی نہیں رکھی کہ یہ علماء تو اعلیٰ حضرت کے خلفاء و اخلاف ہیں۔کیا یہ اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ان کے اقوال و افعال اعلیٰ حضرت کے دین و مذہب کے خلاف ہیں بلکہ صاف ارشاد فرما دیا کہ (اگرچہ جو تحقیقات کلامیہ و تدقیقات فقہیہ و معارک علمیہ اعلیٰ حضرت کی کتابوں میں ہیں ان کو کماحقہا سمجھنا تو آج کل کے اکثر و بیشتر علماء و فضلاء کہلانے والوں کا بھی کام نہیں لیکن)عقائد دینیہ و ضروریہ مذہب اہلِ سنت میری کتابوں سے صاف ظاہر ہے ان کا سمجھنا میرے خلفاء یا اخلاف کے سمجھانے ہی پر ہرگز موقوف نہیں بس انہیں پر مضبوطی و پختگی و تصلب کے ساتھ ثابت و مستقیم رہنا ہر فرض سے بڑھ کر اہم و اعظم فرض ہے۔فرضی اللہ تعالٰی عنک و جزاک احسن الجزاء عناوعن الامة المحمديه على نبيها و آله و عليهاالصلاة والسلام والتحية.
محمد ظہور ،گل محمد محبوبی،محمد طفیل بھاوپوری،عثمان عبد الغنی گونڈلی و جملہ اراکین بزم قادری رضوی سلمہم ربہم کو خصوصاً سلام مسنون مع دعائے خلوص مشہون۔فقط
والسلام فقیر عبید الرضا غفرلہ۔
(مکتوبات مظہر اعلی حضرت،جلد دوم، صفحہ ١٣١)