***٨***
حضرت مشاہد ملت ذات بابرکات جامع کمالات
از: جامع معقول و منقول منبع علم و حکمت حضرت علامہ
الحاج الشاہ مفتی شبیر حسن صاحب قبلہ رضوی علیہ الرحمہ
شیخ الحدیث الجامعۃ اسلامیہ قصبہ روناہی ،ضلع فیض آباد
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔اما بعد
بعض افراد انسان ایسے ہوتے ہیں جو فکر و نظر کے تاجور ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے واقعات و حادثات سے ایسے ایسے نتائج کا استخراج کرلیتے ہیں جو غیروں کے لئے بھی درس عبرت مشعل راہ ہوتے ہیں اور بعض افراد انسان اس وصف سے خالی ہوتے ہیں،ان کے سامنے بڑے سے بڑا واقعہ رونما ہوجاتا ہے مگر اس سے نتیجہ برآمد کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ایسے ہی بعض افراد انسان ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور بعض اس وصف سے خالی و عاری ہوتے ہیں اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائیں گی کہ در حقیقت انسان وہی ہے،انسانیت اسی کو زیب دیتی ہے جس کی زندگی کا کچھ حصہ قوم و ملت اور سماج کی فلاح و بہبود کے لیے صرف ہوتا ہے،جس کا ہر ہر لمحہ قوم و ملت کو عروج و ارتقاء و عزت و کامرانی و سعادت جاودانی کی لازوال دولت سے مالامال کرنے کے لیے وقف ہو،جس کے عمر عزیز کا ہر لمحہ و ہر ساعت قوم و ملت کے گیسو سنوارنے کے لیے آشفتگی اور حیرانی و پریشانی میں گزر رہی ہو، جو خود حیران و پریشان رہ کر اپنی قوم کو پرشکوہ و پروقار زندگی دلانے کا خواہاں ہو اور حوصلہ بلند رکھتا ہو کے جس کے کوہ شکن حوصلہ سے ہمالیہ پہاڑ لرزا ہو،جس کی خدادا طاقت و قوت کا اکثر و بیشتر حصہ بندگان خدا کی خدمات اور ان کے لیل و نہار کو پر وقار بنانے میں صرف ہوتا ہو جو اپنی جدوجہد سعی پیہم سے انسانیت کو عظمت و برتری،سربلندی و سرفرازی عطا کر سکتا ہو جو اپنے اخلاق و کردار،رفتار و گفتار،اقوال و افعال میں یکسانیت رکھتا ہو۔
الحمدللہ! قاطع فتنہ نجدیت وہابیت مظہر مظہر اعلی حضرت حضرت عظیم البرکت علیہم الرحمۃ والرضوان شہزادے حضور شیر بیشہ سنت رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ اپنے والد گرامی کے فرزند ارجمند اپنے وقت کے ممتاز عالم دین و شریعت تھے علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، علم و حکمت و شریعت و طریقت کے جامع تھے،اپنے والد گرامی علیہ الرحمہ کے نقوش قدم پر چلنے والے اپنے وقت کے زبردست مناظر اعظم تھے اور 'الولد سر لابیہ'کے صحیح مصداق تھے۔ اور ان کے سچے جانشین تھے پوری زندگی مسلک اعلی حضرت کی نشرواشاعت کے لیے وقف تھی، حق گوئی ان کا شیوہ تھا،پورے درس نظامی پر قدرت و اقتدار رکھتے تھے۔ فقیر جس زمانے میں نانپارہ عزیزالعلوم میں خدمت تدریس کے فرائض انجام دے رہا تھا اس وقت وہاں تشریف لایا کرتے تھے اور حضرت بلبل ہندالشاہ مفتی رجب علی صاحب رضی المولی تعالی عنہ سے بہت اچھے مراسم تھے ان کے آپس میں علمی مذاکرے بھی ہوتے تھے فقیر سے حضرت مشاہد ملت نے دریافت فرمایا کہ مولانا! یہ عربی کونسا مہینہ ہے؟فقیر نے عرض کیا کے حضور! جمادی الاولی یا جمادی الاخری ہے۔چونکہ عموماً لوگ جمادی الاول و جمادی الاخر بول دیا کرتے ہیں جو درست نہیں ہیں اس لیے فوراً حضرت میرا منہ دیکھنے لگے اور بہت خوش ہوئے اور کلماتِ دعائیہ فرمایا اور جب بھی وہاں تشریف لاتے فقیر سے محبت فرماتے رہے اور کبھی نحوی و منطقی مسائل پر بھی گفتگو فرماتے زید ضرب کی نحوی ترکیب میں وہ فرماتے کہ جب زید حقیقتاً فاعل ہے تو اسے فاعل مقدم کہنے میں کیا حرج ہے؟ اور نحویوں کا فاعل کی تعریف میں اس طرح کہنا کے فاعل ہر وہ اسم ہے کہ جس سے پہلے فعل و شبہ فعل وغیرہ الی آخرہ،یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے۔اور بہت سے مسائل نحویہ و منطقیہ پر گفتگو فرماتے جن سے ان کی جلالت علمی کا اندازہ ہوتا ہے کہ پورے درس نظامیہ پر اقتدار کے ساتھ استخسار بھی رکھتے تھے۔
مظہر مظہر اعلیٰ حضرت علامہ الحاج مشاہد ملت حضرت مفتی مشاہد رضا خاں صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی رفیع زندگی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا سے جامع کمالات نظر آتی ہے آپ کی زندگی کا ہر لمحہ قوم و ملت کے زلف پریشاں اور گیسوئے پیچاں کو سنوارنے اور قوم و ملت کو عشق و محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا درس دینے اور انہیں اس دولت لازوال سے مالامال کرنے میں مصروف نظر آتا ہے،آپ علم و حکمت،ذہانت و فطانت،بصیرت و تدبیر،بلند سیرت،حسن عمل کے پیکر جمیل تھے تمام تر علوم متداولہ میں ایسی دستگاہ اور قدرت حاصل تھی کہ ماہرین علوم و فنون جب آپ کی نقطۂ آفرینی کو دیکھتے یا سنتے تو ورطہ حیرت میں پڑ جاتے وہ بڑے ہی نقطہ سنج اور دقیقہ رس تھے ہیں جن مسائل پر توجہ فرماتے تحقیقات انيقہ رشیقہ کا حق ادا کر دیتے۔مسائل شرعیہ پر ان کی گہری نظر تھی ان کے مجموعہ فتاویٰ سے حضرت موصوف کی فقہی بصیرت و بصارت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے فقیر کی معلومات کے مطابق حضرت مشاہد ملت علیہ الرحمہ نے اپنے دارالعلوم حشمت الرضا حشمت نگر،پیلی بھیت شریف کے علاوہ کہیں کسی دارالعلوم و مدرسہ میں درس و تدریس کا کام شاید انجام نہیں دیا چونکہ والد گرامی شیر بیشہ اہل سنت مظہر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہم کی طرح امام عشق و محبت اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت ہی گہری و سچی و والہانہ عقیدت تھی اس لیے اپنے والد گرامی کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے اور انہیں کی روش و طرز عمل کو اپناتے ہوئے پوری زندگی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت رضی اللہ عنہ کے عشق و محبت میں ڈوبے ہوئے پیغامات کو ملک کے گوشے گوشے میں عام فرمانے کی کوشش فرمائی،ان کے پیغامات و محبت کو عام کرنا اور انہیں کی تبلیغ و ترویج و اشاعت کرنا ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔وہ فرمایا کرتے تھے کے امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ رحمۃ والرضوان نے کتاب و سنت،اجماع صحابہ،اقوال ائمہ،صوفیائے کرام اور علمائے حق کے اقوال اور معمولات کی روشنی میں جو مذہب حق کی وضاحت فرمائی ہے کافی ہے،فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے اس قول (مذہب حق وہی ہے جو کچھ میری کتابوں سے ظاہر ہے)پر سختی سے کاربند تھے ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی کتابوں میں کیا کچھ نہیں ہے شرعی اصول و فروع کے علاوہ کون سے وہ دینی مباحث ہیں جن پر قلم حق رقم نہ چلا ہو مسلک اہل سنت وجماعت کے اکابرعلماء نے انہیں کے دینی افکار و نظریات کی تشہیر فرمائی۔ان اکابر علماء کرام کے اسماء گرامی بھی بیان فرماتے تھے۔مولیٰ تعالیٰ حضرت موصوف علیہ الرحمہ کی قبر مبارک پر رحمت و انوار کی بارش نازل فرمائے اور ان کے روحانی فیوض و برکات سے ہم جماعت اہل سنت کو مستفیض و مستنیز فرمائے۔آمین بجاہ حبیه الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔
فقط
محتاج دعاو گدائے باب رضا
شبیر حسن رضوی غفرله القدیر القوی
بجاہ حبیبه النبی صلی علیه المولیٰ العلی
(ماخوذ از-اتحاد باطل کی بیخ کنی)