اموات زائرین کو جانتی پہچانتی ہے
از-مفسر اعظم ہند حضور ابراہیم رضا خان رضوی رضی المولیٰ عنہ
حضرت عائشہ سے مشکوۃ شریف میں روایت ہے، میں داخل ہوتی تھی اپنے گھر میں جس میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ابو بکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مدفون تھے۔ اور اپنی چادر اتار دیا کرتی تھی میں کہتی کہ یہ میرے شوہر ہیں۔ یہ میرے باپ ہیں۔ (ان سے کیا حجاب ہے،) پھر جب مدفون ہوئے عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تو قسم خدا کی نہیں داخل ہوتی ہیں۔ مگر اپنے کپڑے خوب اوڑھ کر۔ روایت کیا اس کو احمد نے۔ حضرت شیخ نے اس کی شرح میں لکھا کہ اس حدیث میں کھلی ہوئی دلیل ہے۔ میت کی حیات پر اور اس کے علم پر اور جو کچھ کہ واجب ہے میت کا احترام اس کے زیارت کے وقت (بلکل ایسا ہی معاملہ جیسا اس کی حیات ظاہری میں کیا جاتا تھا) خصوصاً صالحین کو مدد بلیغ ہے، زیارت کنندگان کے لئے۔ حضرت ابو سعید سے حدیث ہے کہ فرمایا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کہ جبکہ رکھا جاتا ہے جنازہ اور اٹھاتے ہیں، اس کو لوگ اپنی گردنوں پر تو اگر صالح ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے جلدی لے چلو (حضرت شیخ نے لکھا کہ اسناد قول کی جنازہ کی طرف مجازی ہے اور قائل روح ہے) اور اگر بو تا ہے غیر صالح تو کہتا ہے اپنے گھر والوں سے ارے خرابی ہو کہاں لیے جا رہے ہو۔ سنتی ہے اس کی آواز کو ہر چیز، مگر انسان۔اگر انسان سنے تو ہلاک ہو جائے۔ روایت کیا اس کو بُخاری نے روایت کیا ہے ابن سندہ نے ابو نصر نیشا پوری سے اور وہ صالح و پرہیزگار تھے، کھودی میں نے ایک قبر ناگاہ وہاں قبر تھی تو میں نے دیکھا اس میں جوان خوبرو ،خوشبو ،خوش جامہ اس کی گود میں قرآن شریف رکھا ہوا خط سبز سے لکھا ہوا۔ اس نے پوچھا کیا قیامت برپا ہو چکی، میں نے کہا کہ نہیں۔ تو کہا کہ قبر کو ایسے ہی بند کردو۔ اشعتہ اللمعات شرح مشکوۃ باب زیارت القبور کی عبارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیارت قبور مستحب ہے، بالاتفاق اور مدد چاہنا اہلِ قبور سے سوائے نبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے۔ اس کا انکار کیا ہے،بعض فقہاء نے اور کہتے ہیں کہ نہیں ہے، زیارت مگر دعائے مولی تعالیٰ کے لیے اور استغفار کے لئے اور نفع پہنچانے کے لئے ان کو تلاوت قرآن سے اور دعاواستغفار سے اور بعض فقہا نے اور مشائخ و صوفیا نے کہ (عارفان اسرارحقیقت ہیں) اس کو ثابت کیا ہے اور یہ بات محقق و مقدر ہے۔ اہل کشف و کمال کے نزدیک ان میں سے بہت سوں کو فیوض و فتوح ارواح سے پہنچا ہے۔ ان کو اصطلاح میں اویسی کہتے ہیں۔ امام شافعی نے کہا ہے کہ قبر موسیٰ کاظم تریاق مجرب ہے۔ قبولیت دعا کے لئے اور حجتہ الاسلام امام غزالی نے کہا ہے کہ جس سے مدد چاہی جاتی ہے۔ حیات ظاہری میں اسی سے مدد چاہی جاتی ہے بعد اس کے انتقال کے اور مشائخ عظام میں سے ایک نے کہا ہے کہ میں نے چار مشائخ کو دیکھا کہ اپنی قبور میں ایسے تصرفات کر رہے ہیں، جیسے اپنی حیات میں کیا کرتے تھے یا اس سے بھی زائد۔ شیخ معروف کرخی۔ شیخ عبد القادر جیلی رضی اللہ تعالٰی عنہما اور دو اور اولیاء کرام میں سے اور یہاں مقصود حصر نہیں اور سیدی احمد بن مرزوق کہ اعاظم فقہاء و علماء و مشائخ دیار مغرب سے ہیں نے کہا ہے کہ مجھ سے شیخ ابن العباس حضرمی نے دریافت کیا کہ امداد حی قوی تر ہے یا امدامیت کہا لوگ کہتے ہیں امداد حی قوی تر ہے اور میں کہتا ہوں امدادمیت قوی تر ہے ، تو شیخ نے کہا بے شک اس لیے کہ وہ حضور حق تعالیٰ میں ہے اور منقول اس بارے میں ان صاحبان سے اس قدر ہے کہ جس کا شمار نہیں ہو سکتا اور کتاب و سنت و اقوالِ سلف میں کوئی چیز اس کے خلاف نہیں جو اس کا رد و انکار ہو تو اسکا رد و انکار بدعت مخترعہ محدثہ ہے) اور آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ روح باقی ہے اور اس کو احوال زائران کا شعور ہوتا ہے اور ارواح کاملان کو قرب حضرت حق سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حیاتِ ظاہری میں تھا، یا اس سے بھی زائد اور اولیائے کرام کو کرامات و تصرفات میں حاصل ہے اور یہ نہیں ہے ، مگر ان کی ارواح کے لیے اور متصرف حقیقی نہیں ہے ، مگر خدا عزوجل اور یہ سب کچھ اس کی قدرت سے ہے اور یہ جماعت فانی ہے۔ جلال حق میں اپنی حیات و ممات میں پس اگر کسی کو کچھ ملے ان کی وساطت سے بوجہ ان کی دوستی کے اور مرتبہ کے جو ان کو حضرت حق جل جلالہ میں ہے یہ کچھ دور نہیں نہ بعید از فہم ہے مگر (مگر آنانکہ فہم ندارند ) جیسا کہ حالت حیات ظاہری میں تھا اور نہیں ہے حقیقۃً فعل و تصرف مگر حق تعالی کا اور دونوں حالت میں یکساں ہیں اور تفریق پر کوئی دلیل نہیں (ختم ہوئی عبارتِ شیخ عبد الحق محث دہلوی رحمۃ اللّٰه تعالی علیہ) بعض بے عقل اپنی طرف سے دونوں حالتوں میں فرق کرتے ہیں ایک کو جائز اور دوسری کو بدعت و شرک قرار دیتے ہیں ، حالانکہ جو چیز غیر خدا کے لیے نہیں اس میں حی و میت و غائب و حاظر یکساں ہے۔)
کیمیائے سعادت میں ہے ، امام غزالی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا۔ محال نہ جانو کہ ہمیں ان کی خبر ہو اور انہیں ہماری جیسا خواب میں دیکھتے ہو اور خواب میں اموات کو دیکھا جانا ۔ اچھے اور برے حال سے یہ دلیل عظیم ہے ۔ ان کی زندگی اخروی پر نعمت میں ہیں یا عذاب میں اور بالکل فنا و نیست نہیں ہوتے ہیں۔ جیسا کہ یہ آیۂ کریما : وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتًۢا ۚ بَلْ أَحْيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ
تفسیر عزیزی میں ہے۔ جاننا چاہیے کہ استعانت غیر اللّٰه سے اس طور پر کہ اس کو مستقل بالذات جانیں اور مظہر عون الٰہی نہ جانیں، سخت حرام ہے اور اگر التفات و توجہ صرف حق ہی کی طرف ہے اور اولیاء کو مظہر عون الٰہی اور نظر کارخانہ اسباب پر کریں یعنی سبب حصول عون جانیں (کہ یہ یکساں ہے ، حی و میت میں) تو معرفت سے دور نہ ہوگا اور شرعاً بھی جائز و روا۔ انبیاء و اولیاء نے یہی استعانت بغیر کی ہے اور یہ استعانت بغیر نہیں ، بلکہ استعانت باللّٰه ہی ہے۔
اسی میں ہے روح کا علاقہ بدن سے نظر و عنایت کے ساتھ باقی رہتا ہے اور توجہ روح کی زائرین و مستانسین و مستفیدین سے بسہولت ہوتی ہے کہ بسبب مکان مقرر ہونے کے (یعنی قبر) جگہ روح کی متعین ہے اور اس عالم سے فاتحہ و صدقات و تلاوت قرآن جہاں اس کا مدفن ہے ، بسہولت نفع بخش ہوتی ہے ۔ اور بدن کا جلا دینا(جیسا کہ غیر مسلم کرتے ہیں) گویا روح کو بغیر مکان کے کر دینا ہے اور دفن کرنا روح کا مسکن بنانا ہے اس لیے اولیاء اللّٰه سے صلحاء مومنین سے انتفاع و استفادہ جاری ہے اور ان کو بھی(فاتحہ و ایصالِ ثواب) فائدہ متصور و معلوم (تفسیر عزیزی)
امام رازی رحمۃ الله علیہ نے فرمایا، جب زائر قبر پر آتا ہے ۔ اس کے نفس کو قبر سے ایک تعلق خاص حاصل ہوتا ہے جیسا صاحبِ قبر کو ہے ، قبر سے۔ اس اشتراک کی وجہ سے دونوں نفوس کو ایک تعلق معنوی حاصل ہوتا ہے اور علاقہ مخصوص باہم ، تو اگر نفس زائر قوی ہے۔ (ولی و صالح ہے ) تو صاحب قبر کو نفع ہوتا ہے(فاتحہ و صدقات دعا و استغفار سے(اور اگر اس کا عکس ہوتا ہے، تو فائدہ ہوتا ہے زائر کو ، تو یہ بات قابلِ غور ہے اور سمجھنے لائق ہے) اور شرح مقاصد میں ذکر کیا گیا ۔ نفع حاصل ہوتا ہے زیارت قبور سے اور استعانت سے ۔ نفوس اخیار سے جو انتقال کر چکے ہیں۔ اس قبر کی وساطت سے جس سے دونوں نفوس کو تعلق ہے۔ علامۃً ۔ ایسا ہی ہے۔ کشف العظا میں اور زاداللبیب فی سرالحبیب میں ۔
(زیارت قبور)