async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Tuesday, June 7, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (85)

 شان غوث اعظم:ایک جھلک

از- حضرت سید خیرالدین شاہ ابوالمعالی لاہوری رضی المولیٰ عنہ


شیخ عبد الرحیم شیخ تقی الدین ابو محمد عبد الغنی ابن عبد الواحد مقدسی اور محمد عبداللہ بن قوامہ اور شیخ صالح عبد الملک ابن ابی لعالی عراقی سے روایت کرتا ہے کہ ہم نے اپنے سردار شیخ محی الدین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے سنا کہ فرماتے تھے کہ بغداد میں جب اس آدمی کی نسبت پوچھا جائے کہ جس کو مجھ سے نیاز مندی کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے۔   البیضۃ لایتالف والروح لایقوم    یعنی میرے نیاز مندوں میں سے وہ نیاز مند جو ابھی وجود بشریت کے بیضے سے باہر نہیں نکلا اور حقیقی زندگی سے متصف نہیں ہوا ایک ہزار دوسرے لوگوں سے بہتر ہے اور جس آدمی کو اس کے معنی کا کچھ بھی شعور حاصل ہوا تو وہ ایک گرانبہا موتی ہے اور بلند پایہ بے  بہار گوہر ہے۔ 

شیخ ابو البرکات موصلی سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے چچا شیخ عدی بن مسافر سے سنا کہ جو شخص مشائخ کے مریدوں میں خرقہ کی آرزو کرے تو میں پہنا سکتا ہوں لیکن حضرت شیخ عبد القادر رضی اللّٰہ عنہ کے مریدوں کو نہیں پہنا سکتا۔ کیونکہ وہ رحمت بے نہایت اور عنایت بے غایت میں  غرق ہیں اور کسی چیز کی احتیاج نہیں رکھتے اور نہ وہ کسی کی طرف التفات کریں۔ کیونکہ سمندر کو چھوڑ کر حوض کی طرف کوئی نہیں آتا۔ 

ع ہر کہ جنت عدن است گلستاں چہ کند

شیخ عبد الرازق اور ابو الحسن سے منقول ہے کہ آنجناب فرمایا کرتے تھے کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ دیا گیا۔ جس کا طول اس قدر تھا کہ جہاں تک نگاہ کام کر سکتی ہے اور اس پر اپنے دوستوں اور مریدوں کے نام جو قیامت تک میرے ساتھ اپنی نسبت کو درست رکھیں گے لکھے ہوئے دیکھے اور حکم ہوا کہ تیری طفیل میں نے ان سب کو بخشا اور میں نے مالکِ فرشتے کو جو کہ دوزخ کا مہتمم ہے پوچھا کہ میرے دوستوں یا مریدوں میں سے کسی کا نام تیرے پاس ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ اے درویش حضرت قادریہ کے گدا گر  تو بھی خوش دل و خوش وقت ہو تو سنتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔



قطعہ

شاہ جیلانی کہ مردم را چو نور دیدہ است

من غلام او کہ مارا حق بوئے بخشیدہ است

با گدایان سر کوئش  جہنم را چہ کار

کز نہیب ہیبتش دوزخ بہم لرزیدہ است


اور راویان مذکورہ بالا سے یہ بھی روایت ہے کہ آنجناب فرمایا کرتے تھے۔ 

برندارم قدم از پیش خدا

تاروانہ نسازد دم بہ شما

جانب روضہ نعیم بہشت

پاک و پاکیزہ و عنبر سر سرشت

سوئے خلد بریں بعزوناز

باہمہ مریدان باصفا ممتاز


 یعنی مجھے اللّٰہ تعالٰی کے عزت و جلال کی قسم ہے کہ جب تک مجھ کو اور تم کو خداوند تعالٰی بہشت کی طرف روانہ نہ کرےگا۔ میں اس کے سامنے قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ 


شیخ عبد الرزاق اور عبد الوہاب سے منقول ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ 

یعنی میں اپنے مرید اور مرید کے مرید کا (اعلٰی ہذا القیاس سات مرتبہ تک) کفیل اور کارساز ہوں اور اس کے تمام کاموں اور مہموں کا ضامن ہوں اور اگر میرا مرید مشرق میں کہیں بے پردہ ہو جائے اور میں مغرب میں ہوں تو بیشک میں اس کو ڈھانپ دیتا ہوں۔ 

ہرکرا یار توئی زار نگرود ہرگز

چونتو غمخوارے وخود خوار نگرود ہرگز


شیخ عمران سے منقول ہے کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت قادریہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں عرض کی کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آنحصرت کا مرید بتائے اور آپ کے ہاتھ بیعت نہ کی ہو اور خرقہ آپ سے نہ پہنا ہو تو وہ اصحاب عالی میں شمار کیا جائے گا یا نہیں۔ فرمایا ہاں بیشک جو کوئی اپنے آپ کو میری طرف منسوب کرے۔ اس کو حق تعالٰی قبول کر لیتا ہے اور اس کےگناہوں کو بخش دیتا ہے۔ خواہ وہ کیسے ہی ہوں اور میرے دوستوں سے ہو جاتا ہے۔ (قطعہ)

شاہ گیلانی ترا حق در وجود رحمۃ اللعالمین آوردہ است

ہر کہ آن تست مقبول خدا است گر چہ ہرناکردنی را کردہ است



شیخ ابوالنجیب سہروردی سے منقول ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے شیخ حماد کی بابت خبردی کہ لوگ ان کے ہاں سے رات کو شہد کی مکھی کی سی آواز سنا کرتے تھے اور اس بات کا ذکر کسی نے حضرت شیخ محی الدین کی خدمت میں کیا مگر ابھی آنحضرت کی شہرت نہ ہوئی تھی۔ ایک دفعہ شیخ حماد کی صحبت میں تشریف لے گئے اور پوچھا (فرد) 

صحبت دباس را ایں ساز چیست

ہر زماں ایں نغمہ و آواز چیست


شیخ حماد رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ میرے بارہ ہزار مرید ہیں۔ میں ہر رات ان کو یاد کرتا ہوں اور ان کی حاجتیں خدا وند تعالٰی سے چاہتا ہوں اور جو کوئی ان سے گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔ تو میں اللّٰہ تعالٰی سے درخواست کرتا ہوں کہ اسے اسی مہینہ میں توبہ دے یا اسے جہان فانی سے اٹھا لے۔ تاکہ دیر تک گناہوں میں مبتلا نہ رہے۔ پس شیخ عبد القادر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اگر خداوند تعالٰی مجھ کو اپنی بارگاہ میں مرتبہ دے تو میں اس بات کی درخواست کرتا ہوں کہ میرے مرید قیامت تک بغیر توبہ کے نہ مریں اور میں انکا ضامن ہوں گا۔ شیخ حماد رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ خدا وند تعالٰی نے مجھے اس بات کا مشاہدہ کرایا ہے۔ (فرد)

آنچہ او از رب خود درخواست کرد

از کرم او را ہماندم راست کرد


شیخ ابو محمد عبدالجبار بن شیخ الاسلام محی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ شیخ صاحب نے فرمایا کہ جب میری والدہ ماجدہ اندھیری جگہ میں جاتیں تو وہاں ایک شمع روشن ہو جاتی۔ ایک دن میرے والد آئے اور جب اس شمع کو دیکھا تو فوراً بجھ گئی۔ تب میرے والد نے میری والدہ کو فرمایا کہ یہ نور جس کو تم دیکھتی ہو شیطان ہے جو تمہاری خدمت کرتا ہے۔ میں نے اس کو تجھ سے دور کر دیا ہے اور اس کے عوض نور رحمانی تیرے نامزد کیا ہے اور جو کوئی مجھ سے علاقہ رکھتا ہے یا مجھے اس پر عنایت ہے۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد جب میری والدہ صاحبہ تاریک مقام میں داخل ہوتی تو چاند جیسا نور دیکھتی جو اس مقام کے اطراف و جوانب کو روشن کر دیتا تھا۔ 


شیخ ابو القاسم عمر بزاز سے منقول ہے کہ حضرت شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے کہ جب حسین منصور نے(ظاہری) لغرش کھائی تو اس زمانے میں اس کی دستگیری کرنے والا کوئی نہ تھا لیکن اگر میں اس زمانہ میں ہوتا تو ضرور اس کی دستگیری کرتا اور میں قیامت تک اپنے بھولے بھٹکے مریدوں اور دوستوں کی دستگیری کروں گا۔ 


شیخ عبد الرزاق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ ایک رات میرے والد ماجد حضرت شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ام یحییٰ کو چاول پکانے کیلئے حکم دیا۔ اس نے حکم کی تعمیل کی اور اٹھ کر چاول پکائے اور دستر خوان پر رکھ دیا۔ جب آدھی کے قریب رات گزر گئی تو دیوار پھٹ گئی اور ایک مرد آیا اور ان چاولوں کو ناشتہ کرکے چلا گیا۔ میرے والد صاحب نے مجھے حکم دیا کہ جا اس آدمی کو ڈھونڈ اور اس سے مل کر اپنے لئے دعا کی التجا کر۔ میں نے اس کو ڈھونڈ کر اپنے لئے دعا کی درخواست کی اس نے کہا سبحان اللہ! میں تو تیرے والد بزرگوار کی دعا اور ان کے خرقہ کی برکت سے اس مرتبہ تک پہنچا ہوں۔ ان سے دعا کے لئے التماس کرنی چاہیے نہ کہ مجھ سے۔ 

چو کس را بود بحرو کاں پیش در

چہ محتاج از بہر لولو و زر


جب صبح ہوئی تو میں نے رات والا ماجرا شیخ علی بن ہیئتی سے بیان کیا۔ تو انہوں میں فرمایا کہ میں نے آپ کے والد بزرگوار کے خرقہ اور عمامے سے زیادہ کوئی برکت دینے والا یا سرفرازی بخشنے والا خرقہ اور عمامہ نہیں دیکھا اور جہاں تک مجھے علم ہے آنخضرت نے ستّر آدمیوں کو فتح عظیم دی ہے اور اسی شام کا ذکر ہے کہ آنجناب نے ان کو خرقہ پہنایا اور دست مبارک کی برکت سے ان کو عطائے جزیل سے بہرہ ور فرمایا اور جس دن میں آپکے والد ماجد کی زیارت سے مشرف ہوتا ہوں۔ اس دن سے زیادہ برکت والا دن اپنے حق میں نہیں دیکھتا۔ (قطعہ)

اے تو یوسف بمصر محبوبی سر بسز درملاحت و خوبی

بوے پیراہنت بہر کہ رسید دید یعقوب وار آنچہ پدید


چوں بامداد بینمت اے ماہ دلفروز

در عیش و خورمی گذرانم تمام روز


شیخ عمر کرمانی سے منقول ہے کہ حضرت شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی مجلس میں ایمان لانے والے یہودی اور نصاریٰ اور توبہ کرنے والے راہزن اور اعتقاد باطل سے باز نہ آنے ولے رافضی ہر وقت موجود رہتے اور آنحضرت ہر ایک کو راہ راست پر لاتے۔ ایک دفعہ چند آدمیوں کا گروہ ایمان لیا اور بیان کیا کہ ہم مغرب کے رہنے والے ہیں اور ہمیں اسلام قبول کرنے کی خواہش ہوئی تو غیب سے آواز آئی کہ اے طائفۂ اہل فلاح! تم بغداد میں جاؤ اور حضرت شیخ عبد القادر کے رو برو ایمان لاو۔ کیونکہ ان کی برکت سے اسلام تمہارے دلوں کو ایسا شیریں معلوم ہوگا کہ اور کسی سے نہ ہوگا۔ 


اور نیز راوی مذکورہ بالا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک راہب آپ کی مجلس میں آیا اور مشرف با اسلام ہوا۔ اور بیان کیا کہ میں یمن کا رہنے والا ہوں اور میرے دل میں جب اسلام اختیار کرنے کا خیال پیدا ہوا تو میں نے ارادہ کیا کہ یمن والوں  میں سے جو سب سے اچھا ہوگا اس کے سامنے ایمان لاؤ گا۔ میں ابھی انہی خیالات میں تھا کہ نیند مجھ پر غالب آئی اور میں سو گیا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مجھے فرماتے ہیں کہ جا بغداد میں شیخ عبد القادر کے رو برو ایمان لا کہ وہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بہتر ہے۔  

شیخ عبد اللہ حیالی رحمتہ اللّٰہ علیہ سے منقول ہے کہ حضرت شیخ محی الدین عبد القادر فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ جنگلوں اور بیابانوں میں بسر کروں۔ لیکن خدا وند تعالٰی نے اپنی خلقت کی نفع رسانی مجھ سے وابستہ کی ہے۔ اس سبب سے کہ پانچ سو سے زیادہ یہود اور نصاریٰ میرے سامنے اسلام لئے اور ایک لاکھ سے زیادہ کے قریب عیاروں اور راہزنوں نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔ 


یحییٰ بن نجاح ادیب رحمتہ اللّٰہ علیہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ارادہ کیا کہ دیھکیں۔ حضرت شیخ محی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وعظ کی مجلس میں کتنے آدمیوں کے بال کاٹتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ایک دھاگا لیتے گئے اور جب شیخ صاحب بال کاٹتے تو وہ کپڑے میں پوشیدہ طور پر اس دھاگے میں ایک گرہ لگاتے۔ اس طرح کہ کوئی نہ دیکھ سکے اور دور بیٹھے ہوئے تھے تو کیا سنا کہ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ میں کھولتا ہوں اور تو باندھتا ہے۔ 

شیخ ابو الحسن علی بن محمد بن احمد بغدادی نقل کرتے ہیں۔ میں نے لڑکپن کے زمانے میں ۵۵۳ھ کو خواب میں دیکھا کہ نہر عیسٰی کا پانی خون اور ریم ہو گیا ہے اور مچھلیوں اور حشرات الارض سے پر ہو کر بڑھتا جاتا ہے۔ میں وہاں سے بھاگ کر گھر آیا تو مجھے ایک آدمی نے گھر کے دریچہ سے پنکھا دیا اور کہا اس کو مضبوط پکڑ لے۔ میں نے کہا کہ یہ مجھے نہیں اٹھا سکے گا۔ اس نے کہا کہ تیرا ایمان تجھ کو اٹھائے گا۔ میں نے اس پنکھے کا کنارہ پکڑ لیا اور اپنے آپ کو اس شخص کے نزدیک پایا اور میرا خواب جاتا رہا۔ میں نے کہا کہ خدا کی قسم تو نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ آپ فرما دیں کہ آپ کون ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا پیغمبر حضرت محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہوں۔ میں ان کی ہیبت کے مارے کاپنے لگا اور میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم! دعا کیجیے کہ خدا میرا خاتمہ آپ کی کتاب و سنت پر کرے۔ انہوں نے فرمایا ہاں تیرا شیخ، شیخ عبد القادر ہے۔ تین دفعہ میں نے عرض کی اور تین ہی دفعہ انہوں نے یہی فرمایا۔ جب میں بیدار ہوا تو اس خواب کا ذکر میں نے والد بزرگوار سے کیا۔ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر مجھے شیخ عبد القادر کی خدمت میں کے گئے۔ اس وقت آنحضرت وعظ میں مشغول تھے اور انکے نزدیک جاکر بیٹھنا بہت دشوار تھا۔ لہٰذا ہم دور بیٹھ گئے۔ شیخ صاحب نے فوراً قطع کلام فرما کر حکم دیا کہ ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لے آؤ۔ ہم کو لوگ منبر کے پاس لے گئے شیخ صاحب نے منبر پر ہم کو طلب کیا اور میرے والد آگے تھے اور میں انکے پیچھے تب آنجناب نے فرمایا۔ تم تو راہبر کے بغیر نہیں آئے اور پیراہن میرے والد کو پہنایا اور عمامہ میرے سر پر رکھا اور ہم منبر سے اتر آئے اور لوگوں میں بیٹھ گئے۔ دیکھا کہ وہ پیراہن الٹا پہنا ہوا ہے۔ میرے والد نے چاہا کہ سیدھا کرکے پہنے۔ آنجناب نے فرمایا کہ صبر کر پھر شیخ صاحب منبر سے اترے پھر والد صاحب نے سیدھا کرنا چاہا تو کیا دیکھتے ہیں کہ پیراہن خود پہلے ہی سیدھا ہے۔ وہ فوراً بےہوش ہو گئے اور لوگ مضطرب ہو گئے۔ شیخ صاحب نے فرمایا: اس کو میرے پاس لے آؤ۔ جب رباط سے قبۂ اولیاء میں تشریف لائے تو ہم کو انکی خدمت میں حاضر کر دیا۔ قبۂ اولیاء اس جگہ کو اس واسطے کہتے ہیں کہ وہاں پر اکثر اولیاء اور مردانِ غیب ہی آنحضرت کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے تو میرے والد کو آنجناب نے فرمایا کہ جس کا راہبر پیغمبر خدا ہو۔ اور شیخ، شیخ عبد القادر تو پھر کسی طرح اس کو کرامت نہ ہو پھر کاغذ اور دوات منگا کر اسنادِ خرقہ کو لکھ کر ہمیں دیا۔


ہاں اے درویش! اس جگہ ایک لطیفہ ہے اس کو یاد رکھ کہ اگر کوئی شخص اسنادِ خرقہ کا منکر ہو۔ جیسا کہ ظاہر بین لوگوں کی عادت ہے تو اس کو کہو یہ امور حضرت غوث الثقلین سے باسناد صحیح درست ہیں اور تیرا علم شریعت و طریقت آنحضرت سے جو کہ نائب و وارث رسول الثقلین تھے بڑھ کر نہیں ہوگا کہ تیرے انکار سے اس کام سے متنفر ہوں۔


(تحفۃ القادریہ شریف، صفحہ ٤٧)