غوث الاعظم محبوب سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی
از- حضرت شیخ عبد الرحمن چشتی قدس سرہ العزیز
آں محقق و متصرف بہ ہمہ مقامات، غوث وقت، محبوب سبحانی، پیشوائے عالم شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی قدس سرہ بن ابی صالح موسیٰ بن ولی عبد اللہ بن زاہد بن محمد سیف اللہ بن داؤد بن موسیٰ بن عبد اللہ بن موسیٰ بن عبد اللہ محض، بن حسن مثنی بن امام حسن بن علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔ آپ کی والدہ ماجدہ ام الخیر فاطمہ بنت شیخ عبد اللہ صو معی تھیں۔ آپ مقتدائے مشائخ گیلان میں سے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ گیلانی کہتے ہیں۔ لیکن آپ کا حقیقی مسکین قصبۂ جیال تھا اور تاریخ یافعی میں لکھا ہے کہ اس قصبہ کا نال جیل تھا جو نہایت پر فیض مقام ہے۔ یہ قصبہ کوہ جودی کے دامن میں واقع ہے۔ جودی وہ پہاڑ جس پر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جا ٹھہری تھی۔ چنانچہ قرآن مجید میں حق تعالٰی فرماتا ہیں واستورت علی الجودی "اور (کشتئ نوح نے)، جودی پر قرار پکڑا" جیل یا جیال بغداد سے ہفت روزہ مسافت ہے۔ اسی نسبت سے آپ کو جیلی یا جیلانی کہتے ہیں آپ کو خرقہ خلافت تین بزرگوں سے حاصل ہوا۔ ایک اپنے والد بزرگوار کی طرف سے دوم حضرت شیخ ابو سعید مخذومی رحمتہ اللّٰہ تعالٰی علیہ سے جن کی نسبت خرقہ پانچ واسطوں سے سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی تک جا پہنچتی ہے۔ ایک خرقۂ خلافت آپ کو تاج العارفین شیخ ابو الوفا بغدادی سے بھی ملا ہے۔ ابتدائے حال میں آپ نے حضرت خضر علیہ السلام سے بھی تربیت حاصل کی۔ تو کل اور تجرید میں جس قدر مجاہدات اور ریاضت آپ نے کیے ہیں کسی اور بزرگ نے نہیں کیے۔ اسی طرح جس قدر تصرفات اور کرامات کا ظہور آپ سے ہوا کسی سے نہیں ہوا۔ آپ غوثی قبطی مقامات سے ترقی کرتے ہوئے مقام محبوبی تک پہنچ گئے۔ اس مقام سے بلند کوئی مقام نہیں ہے۔ آپ کی محی الدین اس لیے کہتے ہیں کہ ایک دن ایک سفر سے بغداد واپس آرہے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ راستے میں ایک بیمار آدمی پڑا ہے۔ جس کا جسم ننگا تھا۔ رنگ زرد اور جسم نہایت کمزور تھا۔ اس نے کہا اے عبد القادر میرے نزدیک آؤ۔ آپ اس کے قریب تشریف لے گئے۔ اس نے کہا مجھے اٹھاؤ۔ جب آپ نے اسے اٹھایا تو اس کا جسم ترو تازہ ہو گیا اور اپنی اصلی صورتِ پر واپس آگیا۔ اس نے کہا میں دين اسلام ہوں میری حالت زار ہو گئی تھی۔ لیکن حق تعالٰی نے مجھے تمہاری بدولت دو بارہ زندہ فرمایا ہے انت محی الدین (تو دین کو زندہ کر نے والا ہے) اسی دن سے آپ جہاں تشریف لے جاتے تھے لوگ آپ کو محی الدین کے نام سے پکار تھے تھے۔
صاحب نفحات آپ کی والدہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب سے میرا لڑکا عبد القادر پیدا ہوا ہے۔ ماہ رمضان میں ہرگز دودھ نہیں پیتا۔ ایک دن بادل کی وجہ سے چاند نظر نہ آیا۔ لوگوں نے آپ کی والدہ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آج میرے لڑکے نے دودھ نہیں پیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس دن روزہ تھا۔ آپ کی ولادت ٤٧١ھ میں اور بقول دیگر ٤٧٥ ھ میں ہوئی۔ نفحات میں لکھا ہے کہ شیخ عبد القادر فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا۔ عرفہ(حج) کے دن میں صحرا میں گیا اور ایک گائے کے پیچھے ہو لیا۔ گائے نے مڑ کر کہا اے عبد القادر آپ کسی کسب (کاروبار) کے لیے پیدا نہیں ہوے اور نہ جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے پیدا ہوا ہے۔یہ سن کر میرے دل میں ڈر پیدا ہوا اور میں واپس جا کر گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ وہاں سے مجھے میدان عرفات میں حاجی لوگ نظر آئے۔ میں نے اپنی والدہ کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ مجھے راہ حق تعالٰی پر چلنے کی اجازت دیں تاکہ بغداد جاکر علم حاصل کروں اور مشائخ کی زیارت کروں۔ انہوں نے اس کا سبب پوچھا۔ میں نے ان کو سارا ماجرا سنایا۔ آپ روئیں اور چالیس دینار میرے کپڑوں میں سی کر مجھے سفر پر روانہ کر دیا۔ جاتے وقت آپ نے مجھے نصیحت کی جھوٹ نہ بولنا۔ میں ایک قافلے کے ہمراہ بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب ہمدان سے قافلہ گزر چکا تو ساٹھ سوار جنگل میں نمودار ہوئے اور انہوں نے سارے قافلے کو لوٹ لیا۔ لیکن کسی نے مجھ سے مزاحمت نہ کی۔ ناگاہ ان میں سے ایک ڈاکو نے میرے پاس آکر پوچھا اے فقیر تیرے پاس کیا ہے۔ میں نے کہا چالیس دینار میرے کپڑوں میں سلے ہوئے ہیں۔ لیکن اسے یقین نہ آیا۔ وہ چلا گیا اور ایک اور ڈاکو نے مجھ سے وہی سوال کیا اور میں نے وہی جواب دیا۔ دونوں نے اپنے سردار کے پاس جا کر سارا ماجرا بیان کیا۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلا کر پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے میں نے کہا چالیس دینار میرے کپڑوں میں سلے ہوئے ہیں۔ جب انہوں نے میرے کپڑا پھاڑ کر دیکھا تو چالیس دینار دینار برآمد ہوئے۔ اس نے کہا تم نے اپنے دینار کیوں ظاہر کر دیئے ہیں آپ نے جواب دیا کہ میری والدہ ماجدہ نے فرمایا تھا کہ جھوٹ نہ بولنا۔ لہٰذا میں نے جو عہد ان سے کیا اسے پورا کر دیا۔ یہ سن کر چوروں کا سردار رویا اور کہنے لگا کہ میں نے اتنے سال پروردگار کے عہد میں خیانت کی ہے۔ پس اس نے میرے ہاتھ پر توبہ کر لی۔ اس کے دوست بھی تائب ہوئے اور جو کچھ قافلے سے چھینا تھا واپس دے دیا۔ یہ تھے وہ لوگ جنہوں نے سب سے پہلے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔
آپ ٤٨٨ھ میں اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد پہنچے اور نہایت شدو مد کے ساتھ تحصیل علم میں مشغول ہو گئے۔ پہلے آپ نے قرأت سیکھی۔ اس کے بعد علم فقہ، حدیث و ادب وغیرہ میں نہایت قلیل عرصہ میں کمال حاصل کر لیا اور اپنے ہم درسوں پر فوقیت لے گئے۔ تکمیل علوم کے بعد آپ نے ریاضت و مجاہدہ میں قدم رکھا۔ چنانچہ تکلم میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میں نے پچیس سال تجرید و سیاحت میں گزارے اور چالیس سال تک صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی۔ پندرہ سال تک عشاء کی نماز کے بعد تلاوت قرآن میں مشغول ہو جاتا تھا۔ حتٰی کہ قرآن ختم ہو جاتا اور اکثر تین دن سے چالیس دن تک کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا۔ فرماتے ہیں کہ پندرہ سال تک میں بغداد کے ایک ہی برج میں بیٹھا رہا اور حق تعالٰی سے عہد کر لیا تھا کہ مجھے کچھ نہ کچھ کھلائیں۔ ایک دفعہ چالیس دن گزر گئے اور میں نے کچھ نہ کھایا۔ چالیس دن کے بعد ایک آدمی آیا اور کچھ طعام میرے سامنے رکھ کر چلا گیا قریب تھا کہ میرا نفس طعام کی طرف رجوع کرتا میں نے کہا واللہ اللہ کی قسم اپنا عہد نہ ٹوڑوں گا۔ میں نے سنا کہ باطن سے کوئی بھوک بھوک کی فریاد کر رہا ہے۔ ناگاہ شیخ ابو سعید مخز و می کا مجھ پر گزر ہوا اور آپ نے وہ آواز سنی۔ آپ نے پوچھا کہ عبد القادر یہ کیا آواز ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ میرے نفس کا قلق اضطراب ہے۔ لیکن میری روح مشاہدۂ حق میں برقرار ہے۔ آپ نے فرمایا میرے گھر آجاؤ۔ یہ کہہ کر آپ چلے گئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ باہر نہیں جاؤں گا۔ ناگاہ خضر علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اٹھو اور ابو سعید کے پاس جاؤ۔ میں چلا گیا۔ شیخ ابو سعید اپنے گھر کے دروازے پر میرا انتظار کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا جو کچھ میں نے کہا کافی نہ تھا۔ خضر کے کہنے کی بھی ضرورت تھی۔ آپ مجھے گھر لے گئے جو کچھ گھر میں تھا آپ نے لاکر ایک ایک لقمہ میرے منہ میں دیا حتٰی کہ میں سیر ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے مجھے خرقہ پہنایا اور میں نے آپ کی خدمت اختیار کر لی۔ آپ تکلم میں فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے ایک دفعہ میں نے ایک بزرگ کو دیکھا۔ اس نے پوچھا صحبت کا ارادہ ہے میں نے کہا جی ہاں! فرمایا شرط یہ ہے کہ خلاف عہد نہیں کروگے۔ میں نے کہا نہیں کروں گا۔ فرمایا جب تک میں نہیں آتا یہاں بیٹھے رہو وہ ایک سال کے بعد آئے اور میں اسی جگہ پر بیٹھا رہا۔ ایک گھنٹے کے بعد اٹھ کر چلے گئے اور فرمایا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں یہاں سے نہ جانا۔ ایک اور سال گزر گئے۔ تیسری مرتبہ جب وہ واپس آئے تو اپنے ساتھ دودھ اور روٹی لائے فرمایا کہ میں خضر ہوں اور مجھے یہ حکم ملا ہے کہ تمہارے ساتھ کھانا کھاؤں۔ جب طعام سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میرے ساتھ بغداد چلو چنانچہ ہم دونوں بغداد پہنچ گئے۔ اس وقت تاج العارفین شیخ ابو القاسم ممبر پر بیٹھے وعظ کر رہے تھے۔ جب شیخ عبدالقادر قدس سرہ ان کی مجلس میں پہنچے تو وہ ممبر سے نیچے اترے۔ آپ کو گلے لگایا اور آنکھ چوم کر لوگوں سے فرمایا کہ اس اللّٰہ کے ولی کی صحبت اختیار کرو کیونکہ میں اس کے سر پر ایسا نور دیکھتا ہوں کہ جس کی روشنی مشرق اور مغرب سے تجاوز کر گئی ہے۔ بعدازاں فرمایا کہ اے عبد القادر آج کا دن تمہارے عروج کا دن ہے اور ہر مرغ جو صبح کو بانگ دے گا خاموش ہو جائے گا۔ لیکن تیرا مرغ قیامت تک بانگ دیتا رہے گا۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کو اپنا مصلی، پیراہن، تسبیح، کاسہ اور عصا عنایت کیا اور ممبر سے نیچے آکر آپ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ اے عبد القادر جب تیرا وقت آئے تو مجھے یاد کرنا۔ پس آپ مشہور ہو گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب میں بغداد کے نواح میں پھرتا تھا تو نہ میں کسی کو جانتا تھا اور نہ کوئی مجھے جانتا تھا۔ بس مردانِ غیب اور جنوں کو راہ حق میں تعلیم دیتا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس مقام پر میں گیا مجھے کچھ آرام نصیب نہ ہوا۔ حتیٰ کہ نفس اور صفات بشری محو و منسوخ ہو گئے اور غیب سے مجھے دوسرا وجود مل گیا۔ اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے حضرت رسالت پناہ علیہ الصلاۃ والسلام اور حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کی خواب میں زیارت کی۔ انہوں نے مجھے بات کرنے کا حکم فرمایا اور اپنا لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا۔ جس سے میری فصاحت و بلاغت کے دروازے کھل گئے۔
تکملہ میں لکھا ہے کہ تقریباً ستّر ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ لوگ آپ کے وعظ میں حاضر ہو تے تھے اور پوری توجہ سے آپ کا کلام سنتے تھے۔ وعظ کے دوران لوگوں پر ایسی حالت طاری ہوتی تھی کہ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔ مردانِ غیب، ارواح اور جنات ہوا میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان میں سے بعض روتے تھے اور بعض جوش میں آکر فریاد کرتے تھے۔ بعض اوقات آپ فرمایا کرتے تھے کہ میری یہ آرزو ہے کہ صحرا میں جاکر رہوں۔ اور پہلے کی طرح نہ مجھے کوئی جانے اور نہ میں کسی کو جانوں۔ لیکن حق تعالٰی نے خلقت کی ہدایت میرے ذمّہ لگائی ہے۔ کیونکہ پانچ سو یہودی اور نصاری میرے ہاتھ پر مسلمان ہوں گے اور ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں نے میرے ہاتھ پر توبہ کی ہے۔ ایک دفعہ کسی نے آپ سے کہا کہ ایک دن فلاں بزرگ سطح آب پر چل رہے تھے۔ جب میرے قریب پہنچے تو انہوں نے فرمایا کہ میں حنفی ہوں۔ شیخ عبدالقادر قدس سرہ نے مراقبہ میں سر نیچے کر لیا۔ اور تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھا کر فرمایا کہ مشرق سے مغرب تک میں نے نگاہ ڈالی ہے۔ لیکن سوائے اس بزرگ کے میں نے کوئی حنفی ولی نہیں دیکھا۔ چنانچہ تکملہ میں اس کا مفصل ذکر ہے۔
ایک دن آپ کے بیٹے شیخ عبد الرزاق نے آپ سے دریافت کیا کہ ابّا جان! آپ کو کب معلوم ہوا کہ آپ ولی اللّٰہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب میری عمر دس سال تھی تو میں اپنے شہر کے ایک مدرسے میں پڑھنے جایا کرتا تھا اور فرشتے میرے ارد گرد ہوتے تھے۔ جب میں مدرسے پہنچ جاتا تو فرشتے آواز دیتے کہ افسحو الی اللّٰہ حتی یجلس۔
ایک دفعہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا جسے میں نہیں پہچانتا تھا۔ چالیس سال کے بعد میں نے انہیں پھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ وقت کے ابدال تھے۔ وہ رجال اللہ کے سردار تھے اور تمام رجال اللہ ان کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ تکملہ میں لکھا ہے کہ ماہ جمادی الآخر ٥٦٠ھ کے آخری جمعہ کے دن ایک خوبصورت جوان حضرت شیخ کی خدمت میں آیا اور سلام کرکے کہا کہ میں ماہ رجب ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ جو کچھ خیرو برکت میرے اندر آپ کے لیے مقدر ہے اس سے آپ کو آگاہ کردوں۔ پس اس مہینے میں سب خیرو برکت کا ظہور ہوتارہا۔ جب ماہ رجب کا آخری دن یعنی سنیچر کا دن آیا تو ایک کریہہ المنظر (بد صورت) آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں ماہ شعبان ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ جو کچھ میرے اندر مقدر ہے اس سے آگاہ كرو۔ یعنی بغداد میں وبا پھیلے گی اور حجاز میں سخت بیماری اور خراسان میں سخت مصیبت ہو گی۔ اور اس ماہ میں یہ واقع ہوا۔ اسی ماہ رمضان میں حضرت شیخ کچھ عليل تھے اور اس ماہ کی انتیس تاریخ ہفتہ کے دن شیخ علی اور شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللّٰه علیہ اور دیگر مشائخ آپ کے سامنے بیٹھے تھے کہ ایک حسین و جمیل اور باوقار آدمی آیا اور حضرت شیخ رحمۃ اللّٰه علیہ کو سلام کرکے کہنے لگا کہ میں ماہ رمضان ہوں میں اس لیے آیا کہ آپ سے معافی مانگوں اس چیز سے جو میرے اندر آپ کے لیے مقدر تھا۔ اور اب میں آپ سے الوداع کہتا ہوں۔ کیوں کہ یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور حضرت شیخ نے دوسرا رمضان نہ پایا۔ یعنی آپکا وصال ہو گیا۔ آپکے فرزند عبد الوہّاب رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی ایسا مہینہ نہ آتا تھا جو پہلے انسان کی صورت میں آ کر میرے والد محترم کے سامنے حاضر ہو کر اپنے حالات کے متعلق نہ بتا جاتا۔ اگر اس مہینے میں خیر و برکت ہوتی تو خوبصورت شکل میں نظر آتا۔ اگر شر ہوتا تو بدصورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتا۔سبحان اللّٰه! حق تعالی نے کس قدر تصرفات کا آپ کو مالک بنایا تھا۔ ابتدائے حال میں حضرت شیخ رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے تھے کہ مجھے عراق کی ولایت ملی۔ لیکن بعد میں فرماتے تھے کہ مشرق سے مغرب تک تمام روئے زمین یعنی بحر و بر جنگل پہاڑ سب آپکی ولایت میں آ گئے اور کوئی ولی اللّٰه ایسا نہ تھا جو آپ کے سامنے بحیثیت قطبِ زماں کے سر تسلیم خم نہ کرتا تھا۔کیوں کہ آپ قطب کبری تھے۔ ایک دفعہ ٥٥٥ھ میں آپ کی مجلس میں دس ہزار آدمی موجود تھے۔ شیخ علی منٰی کو جو اس مجلس میں شامل تھے نیند آ گئی آپ اٹھ کر شیخ علی کے پاس گئے اور ادب سے کھڑے رہے ۔جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ خواب میں آپ کو آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ انہوں نے جواب دیا جی ہاں ! سبحان اللّٰه جو کچھ میں نے نیند میں دیکھا آپ نے بیداری میں دیکھ لیا۔ اور تکملہ کی آخری حکایت میں لکھا ہے کہ شیخ علی منٰی رحمۃ اللّٰه علیہ اور شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللّٰه علیہ سے کسی نے پوچھا کہ قطب اکبر کے صفات کیا ہیں؟ فرمایا کہ تمام کائنات اور اہل کائنات کے امور قطب اکبر کو تفویض ہوتے ہیں ۔ دریافت کیا کہ وہ کون ہیں فرمایا شیخ عبدالقادر رحمۃ اللّٰه علیہ ۔ شیخ ابو المکارم فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ عبدالقادر رحمۃ اللّٰه علیہ عارفین کے مشاہدات اور مقاماتِ وصول الی اللّٰه کے متعلق تقریر فرما رہے تھے ۔ حتٰی کہ ہر شخص کے دل میں ذوق و شوق پیدا ہو گیا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میری مراد کس طرح پوری ہو سکتی ہے حضرت شیخ نے میری طرف رخ کر کے فرمایا اے مکارم تیرے اور تیری مراد کے درمیان ایک دو قدم سے زیادہ نہیں۔ ایک قدم ترک دنیا میں ایک قدم ترک نفس میں۔ ثم ھا انت وربك(اس کے بعد تم ہوگے اور تمھارا رب) عبد الغفور نفحات کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللّٰه عنہ نے اپنی بعض تصانیف میں لکھا ہے کہ وصول الی اللّٰه کی طرف ایک قدم بلا ہے۔ جب کوئی شخص بلا میں مبتلا ہوتا ہے تو پہلے دفعیۂ بلا کے لیے خود کوشش کرتا ہے ۔ جب عاجز آتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ اس فعل کا وہ فاعل نہیں ہو سکتا تو حکام اور سلاطین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب حکام سے اس کی عقدہ کشائی نہیں ہوتی تو اللّٰه تعالی کی طرف رجوع کرتا ہے اور عجز و انکسار کے ساتھ دعا کرتا ہے۔ جب اللّٰه تعالی چاہتا ہے کہ وہ شخص اسباب سے بالکل منقطع ہو جائے اس کی دعا قبول نہیں کرتا اور مقام دعا و تفرع و توجہ میں حق تعالی اس کے قلب کی حفاظت کرتا ہے۔ حتٰی کہ وہ اسباب کے ملاحظہ سے باہر آتا ہے (یعنی اسباب بے اثر ہونے کا مشاہدہ کرتا ہے) اور "لا فاعل فی الوجود الا اللّٰه و لا نافع ولا ضارا الا ھو" (اللّٰه کے سوا کائنات میں نہ کوئی فاعل ہے نہ نفع پہچانے والا ہے۔ نہ نقصان دینے والا) کے معنی اس پر ظاہر ہوتے ہیں۔ جب یہ حقیقت اس پر واضح ہو جاتی ہے تو وصول الی اللّٰه کی حقیقت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ شیخ عبدالقادر قدس سرہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح انسانوں کے مشائخ ہوتے ہیں ملائکہ اور جنات کے بھی مشائخ ہوتے ہیں اور میں سب کا شیخ ہوں۔ شیخ ابو محمد بن عبد اللّٰه بصری رحمۃ اللّٰه علیہ کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ شیخ عبدالقادر رحمۃ اللّٰه علیہ احباب کے فرد اور اپنے زمانے کے اولیاء کے قطب ہیں صاحب نفحات لکھتے ہیں کہ شیخ عبد القادر رحمۃ اللّٰه علیہ کے ابتدائے سلوک کے زمانے میں بغداد میں ایک بزرگ رہتے تھے۔ جنھیں لوگ غوثِ وقت کہتے تھے۔ وہ کبھی لوگوں کی نظروں سے غیب ہوجاتے اور کبھی ظاہر ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ شیخ عبد القادر رحمۃ اللّٰه علیہ ابن سقا اور عبداللّٰه یہ تینوں حضرات ان کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے ۔ راستے میں ابن سقا نے کہا میں ان ایک مسئلہ دریافت کروں گا۔ جس کا جواب وہ نہیں جانتے عبداللّٰه نےکہا میں ایک مسئلہ دریافت کروں گا۔ دیکھیں اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ شیخ عبد القادر رحمۃ اللّٰه علیہ نے کہا معاذ اللّٰه! میں ان سے کوئی مسئلہ نہیں پوچھوں گا۔ صرف ان کی برکات حاصل کرنے کے لیے ان کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ جب وہاں پہنچے تو ان کو وہاں موجود نہ پایا تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ وہ اپنے مصلے پر بیٹھے ہیں۔ لیکن غصہ کی علامات ان کے چہرہ پر نمودار ہیں۔ چونکہ ابن سقا اور عبداللّٰه امتحان کی خاطر گئے تھے۔ انھوں نے ان کے حق میں بد دعا کی اور شیخ عبد القادر رحمۃ اللّٰه علیہ کو اپنے پاس بٹھا کر عزت و تکریم سے پیش آئے اور فرمایا اے عبد القادر تو نے خدا اور اس کے رسول کو خوش کیا ہے۔ کیوں کہ تم نے ادب کو ملحوظ رکھا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن تم بغداد میں بر سر ممبر یہ کہو گے۔ قدمی ھذہ علی رقبة کل ولی اللّٰه(میرا یہ قدم تمام اولیا اللّٰه کی گردن پر ہے۔ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ تمام اولیائے وقت نے اپنی گردنیں نیچی کر لی ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا میرے بعد مرتبۂ غوثی تجھے ملے گا۔ یہ کہہ کر وہ نظروں سے گم ہو گئے۔ اور اس کے بعد کسی نے ان کو نہ دیکھا۔ عرصۂ دراز کے بعد شیخ عبد القادر رحمۃ اللّٰه علیہ بغداد میں وعظ کر رہے تھے اور پچاس مشائخ وقت مثل شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللّٰه علیہ ۔ شیخ علی میتی رحمۃ اللّٰه علیہ شیخ ابو سعید قیلولی رحمۃ اللّٰه علیہ اور قصیب البیان موصلی رحمۃ اللّٰه علیہ وغیرہ موجود تھے۔ اثنائے وعظ میں آپ نے فرمایا قدمی ھذہ علی رقبة کل ولی اللّٰه یہ سنتے ہی شیخ علی میتی رحمۃ اللّٰه علیہ نے آپ کا قدم اپنی گردن پر رکھ دیا اور سب مشائخ نے اپنی گردنیں جھکا دیں۔ ابو سعید قیلولی فرماتے ہیں کہ جب شیخ عبد القادر رحمۃ اللّٰه علیہ یہ بات فرما رہے تھے تو حق تعالی نے ان کے دل میں تجلی فرمائی ۔دائیں طرف رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم تشریف فرما تھے ۔ ملائکہ مقربین کی ایک جماعت کے ساتھ اولیاء متقدمین و متاخرین بھی حاضر تھے۔ یعنی جو زندہ تھے اپنے جسموں کے ساتھ موجود تھے اور جو پردہ پوش ہو چکے تھے وہ اپنی ارواح کے ساتھ حاضر تھے ۔ سب نے خلعتیں پہنی ہوئی تھیں۔ بے شمار فرشتے گرداگرد ہوا میں صفیں بنائے کھڑے تھے ۔ اور روئے زمین پر کوئی ولی اللّٰه نہ تھا جس نے اپنی گردن نہ جھکا دی ہو۔ عجم میں جن لوگوں نے تواضع نہ کی ان کا حال خراب ہو گیا۔ اس وقت حضرت شیخ رحمۃ اللّٰه علیہ پر عجیب حال طاری تھا۔ جس پر نگاہ ڈالتے تھے اس کی کایا پلٹ جاتی تھی ۔ کسی کو یہ مجال نہ تھی کہ آنکھ اٹھا کر آپکی طرف براہ راست دیکھ سکے یا کوئی بات کہہ سکے ۔ کہتے ہیں طعام اور لباس فاخرہ میں آپکو بہت تصرف تھا۔ آپ کے لباس کے لیے ایک دینار فی گز کا کپڑا خریدا جاتا تھا۔ چونکہ آپکا مقام محبوبیت تھا اس لیے ان تصرفات پر آپ کو حق تعالی کی طرف سے کوئی مواخذہ نہ تھا۔ آپ کے کمالات اور کرامات اظہر من الشمش ہیں۔ ایک دفعہ ایک بڑھیا اپنے بیٹے کو آپ کی خدمت میں لا کر کہنے لگی کہ میرے بیٹے کا دل آپکی طرف مائل ہے ۔ آپ نے قبول کر لیا اور اسے ریاضت و مجاہدے میں ڈال دیا۔ ایک دن اس کی ماں نے دیکھا جو کی روٹی کھا رہا ہے اور نہایت کمزور اور زرد رنگ ہو گیا ہے جب وہ حضرت شیخ رحمۃ اللّٰه علیہ کی خدمت میں گئی تو دیکھا دسترخوان لگا ہوا ہے اور مرغ کا گوشت کھا کر ہڈیاں دستر خوان پر جمع رکھی ہے۔ اس نے کہا یا شیخ! آپ مرغ کا گوشت کھا رہے ہیں بیٹے کو جو کی روٹی دی ہے۔ حضرت شیخ رحمۃ اللّٰه علیہ اپنا ہاتھ ان ہڈیوں پر رکھ کر فرمایا قم باذن اللّٰه (اٹھو اللّٰه کے حکم سے) یہ سنتے ہی مرغ زندہ ہو گیا اور بانگ دینے لگا۔ اس کے بعد آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا کہ جب تیرا لڑکا ایسا ہو جائے گا جو چاہے کھائے۔ آپ کی کرامات اس قدر ہیں کہ دائرۂ تحریر سے باہر ہیں آپ کی وفات بروز پنج شنبہ بتاریخ گیارہویں ربیع الآخر 561 ھ میں ہوئی اور بغداد میں دفن ہوئے۔ آپ کے خاندان کے ایک بزرگ میر حفیظ اللّٰه رحمۃ اللّٰه علیہ نے تاریخِ ولادت اور مدحت حیات اور سن وفات ایک بیت میں ختم کی ہے۔ بیت
تاریخ ولادت و حیات و فاتش
از عشق کمال کامل و عشق عیاں۔ رضی المولیٰ عنہ
(مرآۃ الاسرار شریف،صفحہ ٥٦٢)