async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: June 2022

Saturday, June 11, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (100)

 برکاتی پیغام اہلسنت کے نام


از-حضرت سید العلماء سند الحکماء حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل مصطفیٰ صاحب قبلہ قادری برکاتی قاسمی قدس سرہ العزیز


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

اللہ اکبر ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان کہلانے والا کوئی فرد ایسا نہ تھا جو کم از کم حرارتِ ایمانی میں اتنا ہو کہ اپنے ایمانیات و مسلماتِ دینی میں کسی غیر کے دخل کو قبول کر سکے۔ خواہ شامتِ نفس اور اغوائے شیطان سے بعض اعمال میں اس کا رویہ غیر مشروع ہو مگر عقائد میں بفضلہ تعالٰی کسی قسم کی خامی کسی قیمت پر بھی گوارا نہ تھی۔ مسلمان اپنے اسلاف کرام کے مبارک ارشادات کو جو در حقیقت خلاصۂ قرآن و احادیث ہوتے تھے۔ دانتوں سے پکڑ کر رکھتا تھا۔ اور باتباعِ سنت کریمۂ سید الشہداء امام حسین علی جدہ الکریم و علیہِ الصلاۃ والسلام اپنے جان و مال بلکہ عزت و آبرو کو بھی اپنے پیارے دین و مذہب کے مقابلہ میں عزیز نہ رکھتا تھا اس کی دوستی اور دشمنی کی کسوٹی اللّٰہ و رسول (جل وعلا و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور دوستی تھی۔ خدا اور رسول کا دوست اس کا دوست اور ان کا دشمن اس کا دشمن تھا۔ مگر آہ صد آہ کہ آج شیطانی نحوستوں اور ابلیس نکبتوں نے نوبت اس حد تک پہنچا دی ہے کہ کھلے ہوئے دشمنانِ دین و اعدائے بددین مؤ ھِّنَانِ رسول (رسول کی توہین کرنے والے) (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) ہمارے دوست نہ صرف دوست بلکہ دلی رازدار بلکہ قائد اعظم بنے ہوئے ہیں۔ آج معاذ اللہ دامنِ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے۔ رشتۂ غلامئ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ٹوٹ چکا ہے۔ آج ہم نے حکومتِ شہنشاہِ کونین علیہِ وآلہ صلوات رب المشر قین و المغربین اپنی جانوں پر سے اٹھا دی۔ ایمان کی کمائی راہِ شیطان میں گنوا دی۔ غلاموں نے آقا سے منہ موڑ لیا۔ مالک کے دشمنوں سے رشتۂ مؤدت و اخلاص جوڑ لیا۔ پھر بھی دعوئ غلامی ہے۔ ادّعائے محبت ہے۔ خدا کی قسم راہِ محبت اتنی آسان نہیں جو اس طرح بآسانی طے کی جا سکے۔ قدم قدم پر خطرے ہیں، گام گام پر آفتیں ہیں، راہ پر خار ہے۔ ایک بحرذخار ہے، آتشِ عشق کا دریا حائل ہے، ڈوب کر جانا ہے، محبوب کو پانا ہے، اپنا سب کچھ دینا ہے، رضائے محبوب لینا ہے، رہزنوں کی دنیا راہ میں آباد ہے، دشمنِ قدیم سخت مکار و کیاد ہے، سنبھل اے غلامِ مصطفٰی، سنبھل! قطاع الطریق سے دامن بچا کر نکل، ایسا نہ ہو کہ متاعِ ایمان لٹ جائے۔ تیرے مذہب کا گلا خود تیرے ہاتھوں گٹ جائے۔

 

ہاں ہاں او بندۂ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم آج ابلیس کے چیلے تیری تباہی کا بیڑا اٹھا چکے ہیں، کفر و طغیان کی مسموم آندھی چلا چکے ہیں۔ بچا بچا اپنی کشتی کو گردابِ ضلالت سے بچا، ہٹا ہٹا اپنے دین و ایمان کے راستے سے ان خبیث ڈاکوؤں کو ہٹا، مصطفٰی پیارے کے گلے کی سیدھی سادی بھیڑو، ہوشیار! بھیڑئیے بکریوں کے لباس میں تمہارے ساتھ آملے ہیں تاک میں ہیں کہ کب نظریں بچیں، کب تمہیں اُچک لے جائیں۔ دیکھو دیکھو، سنو سنو، سگانِ کوچۂ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلا رہے ہیں، تم کو خوابِ غفلت سے جگا رہے ہیں۔ جو آج نہ اٹھا تو پھر کبھی نہ اٹھے گا۔ سدا موت کی نیند سوئے گا۔ سیّدنا عیسیٰ علیہِ الصلاۃ والسلام نے کنواریوں سے فرمایا۔ دولہا آنے والا ہے۔ اپنے چراغ تیل سے بھر لو۔ جس جس نے بھرے دولہا کے ساتھ تھیں۔ جس کے پاس روشنی نہ تھی دولہا نے اسے قبول نہ کیا۔ تاریکی میں گم ہو گئیں۔ محنتِ انتظار برباد گئی۔ آج بھی جن کے چراغوں میں روغن محبتِ مصطفٰی عروس مملکۃ اللہ نوشۂ بزم جنت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نہیں ہے۔ ان کو قبول نہ فرمائیں گے۔ بزمِ قرب میں نہ بلائیں گے، خسرانِ دیں و دنیا نصیب ہوگا۔ ان سے ناراض خدا و خدا کا حبیب ہوگا۔ جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے تم کو بآواز بلند کیا سناتا ہے۔ 

 قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ۔

تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں یہ چیزیں اللّٰہ اور اس کے رسول سے اور ان کی راہ میں کوشش کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ 

(سورہ توبہ پ ۱۰) 


تم نے کیا سنا، تم نے کیا سمجھا؟


سنو! اگر کوئی کافر مشرک دیوبندی، وہابی، نجدی، رافضی، تفضیلی، خارجی، نام کا اہل حدیث غیر مقلد، بنا ہوا اہل قرآن چکڑالوی، قادیانی، مرزائی، لاہوری مرزائی، بابی بہائی، مہدی جونپوری کا چیلا نام نہاد مہدوی، پیر نیچر علی گڑھی کا پیرو نیچری، مرتد اعظم مشرقی کا متبع خاکساری، قید مذہب و ایمان سے آزاد احراری، بدسیرت کمیٹی کا دلداده صلحكلی، مشرکِ اکبر کا بھگت، رافضی خوجے کا مرید مظلم لیگی، حسن نظامی کا چیلا، آغا خانی، غرض کوئی بد مذہب بد دین دشمنِ خدا اور رسول خواہ وہ (معاذ اللہ) تمہارا باپ ہو یا بیٹا بھائی ہو یا شوہر، بیوی ہو یا ماں، استاد ہو یا مرشد المرشد ہو یہ استاذ الاستاذ، دوست ہو یا محب، خیر خواہ ہو یا محسن، ہمدرد ہو یا ہمدم غرض کوئی ہو کسے باشد اگر وہ تمہارے دین و ایمان کے معاملے میں حائل ہو، تجھے تیرے حبیب تیرے محبوب محبوب پروردگار علیہِ و علیٰ آلہِ الصلوات اللّٰہ النافع الضارت الباد و الحار کی غلامی سے ہٹانے پر مائل ہو، تجھے طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جان و مال و عزت و آبرو کے ڈراؤں سے دھمکائے،نام اسلام لیکر ڈرائے، گو خود ہادم اسلام ہو، صرف مسلمانوں کا سا نام ہو تو ایسے کے مقابلے میں تیرا طریق صرف یہ ہونا چاہئے کہ تو ہر ایسے کو ٹھکرا دے، اس کو سنگِ مذلت سے ٹکرادے، اس کی چاپلوسیاں تجھ پر اثر نہ کریں، اس کی خوشامدیں تیرے دل میں گھر نہ کریں، تو اُن سے دور ہو کر ان کو اپنے سے دور کر دے، اُن کو اپنے سے نفور کر دے، اپنی آنکھیں ان کی طرف سے اندھی اور اپنے کان ان کی طرف سے بہرے کرلے۔ 


ورنہ یاد رکھ یہ دنیائے فانی آنی جانی ہے۔ نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا۔ موت سر پر کھڑی ہے۔ وہ امتحان کی بڑی کڑی گھڑی ہے۔ وہاں کوئی کام نہ آئےگا، تیرے ساتھ کوئی نہ جائے گا۔ تو ہوگا اور تیرا ایمان، تیرے اعمال۔ 

پہلی منزل میں تیرا ٹکٹ پوچھا جائے گا۔ تیرا سامان جانچا جائے گا۔ ذرّہ بھر فرق ہوا کہ بحق سرکار فرق ہوا۔ اس وقت کون بچائے گا، کون ضمانت کرےگا، کون وکالت کرے گا؟ ہاں ہاں سن لے! اس دن ذاتِ واحد مالک شفاعت ہے۔ وہی ضامن حقیقی ہے۔ وہی گنہ گاروں کا وکیل و کفیل ہے۔ اور وہ نہیں ہیں مگر سیّدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وکرم۔ ایسا نہ ہو کہ معاذاللہ تیری ضمانت سے انکار فرما دیں۔ تیری شفاعت سے اِبا کردیں۔ تو بتا خدا کے لئے بتا کہ پھر ان آج کل تیرے طواغیت میں سے کون آگے آئےگا، کون تجھے بخشوائے گا؟ وہ خود جہنم میں پڑے ہوں گے۔ دوزخ کے شب وروزان پر کڑے ہوں گے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


دعا کر کہ خدا ہم سب کو توفیق خیر دے۔ ہمارے قدم راہِ محبت سیدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ڈگمگانے نہ پائیں۔ ہمارے قلوب کو اپنی اور اپنے محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت و تعظیم سے اوراپنے حبیب علیہِ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام کے دوستوں کی اُلفت و تکریم سے بھر دے۔ اور دشمنانِ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے نفرت و عداوت ہمارے دلوں میں  مرکوز کر دے۔ آمین آمین بجاہ حبیبہ ونبیہ الامین المکین علیہ وعلی وآلہ الصلاۃ وا التسلیم الی یوم الدین۔ یہ مبارک فتویٰ اصل تقویٰ بحمدہ تعالٰی اہل فتنہ کی جان پر ضربِ کاری ہے۔ جس سے ان دشمنانِ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر غضب رب طاری ہے۔ اس فتویٰ نے ان پر اللہ کی طرف کی مصیبتیں توڑ دیں، ان کے مکر و فتن کی رگہائے گلو کاٹ کر چھوڑ دیں، سنّیوں کا دل اس سے باغ باغ ہے۔ بے دینان زمانہ کا قلبِ نا پاک داغ داغ ہے۔ مولیٰ عز وجل نافع و مفید بنائے گا۔ اس سعی کو مشکور و مقبول فرمائے گا۔ انشاء اللہ تعالٰی ثم شاء حبیبہ ونبیہہ محمد المصطفیٰ علیہِ التحیّۃ و الصلاۃ و الثناء وعلی آلہ وصحبہ الیٰ یوم الجزا۔ آمین۔ 


الفقیر الحقیر السید (الحکیم) آل مصطفٰی

المعروف بسید میان القادری البرکاتی القاسمی۔

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (99)

 برکاتی پیغام اہلسنت کے نام


از-حضرت سید العلماء سند الحکماء حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل مصطفیٰ صاحب قبلہ قادری برکاتی قاسمی قدس سرہ العزیز


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

اللہ اکبر ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان کہلانے والا کوئی فرد ایسا نہ تھا جو کم از کم حرارتِ ایمانی میں اتنا ہو کہ اپنے ایمانیات و مسلماتِ دینی میں کسی غیر کے دخل کو قبول کر سکے۔ خواہ شامتِ نفس اور اغوائے شیطان سے بعض اعمال میں اس کا رویہ غیر مشروع ہو مگر عقائد میں بفضلہ تعالٰی کسی قسم کی خامی کسی قیمت پر بھی گوارا نہ تھی۔ مسلمان اپنے اسلاف کرام کے مبارک ارشادات کو جو در حقیقت خلاصۂ قرآن و احادیث ہوتے تھے۔ دانتوں سے پکڑ کر رکھتا تھا۔ اور باتباعِ سنت کریمۂ سید الشہداء امام حسین علی جدہ الکریم و علیہِ الصلاۃ والسلام اپنے جان و مال بلکہ عزت و آبرو کو بھی اپنے پیارے دین و مذہب کے مقابلہ میں عزیز نہ رکھتا تھا اس کی دوستی اور دشمنی کی کسوٹی اللّٰہ و رسول (جل وعلا و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور دوستی تھی۔ خدا اور رسول کا دوست اس کا دوست اور ان کا دشمن اس کا دشمن تھا۔ مگر آہ صد آہ کہ آج شیطانی نحوستوں اور ابلیس نکبتوں نے نوبت اس حد تک پہنچا دی ہے کہ کھلے ہوئے دشمنانِ دین و اعدائے بددین مؤ ھِّنَانِ رسول (رسول کی توہین کرنے والے) (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) ہمارے دوست نہ صرف دوست بلکہ دلی رازدار بلکہ قائد اعظم بنے ہوئے ہیں۔ آج معاذ اللہ دامنِ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے۔ رشتۂ غلامئ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ٹوٹ چکا ہے۔ آج ہم نے حکومتِ شہنشاہِ کونین علیہِ وآلہ صلوات رب المشر قین و المغربین اپنی جانوں پر سے اٹھا دی۔ ایمان کی کمائی راہِ شیطان میں گنوا دی۔ غلاموں نے آقا سے منہ موڑ لیا۔ مالک کے دشمنوں سے رشتۂ مؤدت و اخلاص جوڑ لیا۔ پھر بھی دعوئ غلامی ہے۔ ادّعائے محبت ہے۔ خدا کی قسم راہِ محبت اتنی آسان نہیں جو اس طرح بآسانی طے کی جا سکے۔ قدم قدم پر خطرے ہیں، گام گام پر آفتیں ہیں، راہ پر خار ہے۔ ایک بحرذخار ہے، آتشِ عشق کا دریا حائل ہے، ڈوب کر جانا ہے، محبوب کو پانا ہے، اپنا سب کچھ دینا ہے، رضائے محبوب لینا ہے، رہزنوں کی دنیا راہ میں آباد ہے، دشمنِ قدیم سخت مکار و کیاد ہے، سنبھل اے غلامِ مصطفٰی، سنبھل! قطاع الطریق سے دامن بچا کر نکل، ایسا نہ ہو کہ متاعِ ایمان لٹ جائے۔ تیرے مذہب کا گلا خود تیرے ہاتھوں گٹ جائے۔

 

ہاں ہاں او بندۂ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم آج ابلیس کے چیلے تیری تباہی کا بیڑا اٹھا چکے ہیں، کفر و طغیان کی مسموم آندھی چلا چکے ہیں۔ بچا بچا اپنی کشتی کو گردابِ ضلالت سے بچا، ہٹا ہٹا اپنے دین و ایمان کے راستے سے ان خبیث ڈاکوؤں کو ہٹا، مصطفٰی پیارے کے گلے کی سیدھی سادی بھیڑو، ہوشیار! بھیڑئیے بکریوں کے لباس میں تمہارے ساتھ آملے ہیں تاک میں ہیں کہ کب نظریں بچیں، کب تمہیں اُچک لے جائیں۔ دیکھو دیکھو، سنو سنو، سگانِ کوچۂ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلا رہے ہیں، تم کو خوابِ غفلت سے جگا رہے ہیں۔ جو آج نہ اٹھا تو پھر کبھی نہ اٹھے گا۔ سدا موت کی نیند سوئے گا۔ سیّدنا عیسیٰ علیہِ الصلاۃ والسلام نے کنواریوں سے فرمایا۔ دولہا آنے والا ہے۔ اپنے چراغ تیل سے بھر لو۔ جس جس نے بھرے دولہا کے ساتھ تھیں۔ جس کے پاس روشنی نہ تھی دولہا نے اسے قبول نہ کیا۔ تاریکی میں گم ہو گئیں۔ محنتِ انتظار برباد گئی۔ آج بھی جن کے چراغوں میں روغن محبتِ مصطفٰی عروس مملکۃ اللہ نوشۂ بزم جنت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نہیں ہے۔ ان کو قبول نہ فرمائیں گے۔ بزمِ قرب میں نہ بلائیں گے، خسرانِ دیں و دنیا نصیب ہوگا۔ ان سے ناراض خدا و خدا کا حبیب ہوگا۔ جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے تم کو بآواز بلند کیا سناتا ہے۔ 

 قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ۔

تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں یہ چیزیں اللّٰہ اور اس کے رسول سے اور ان کی راہ میں کوشش کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ 

(سورہ توبہ پ ۱۰) 


تم نے کیا سنا، تم نے کیا سمجھا؟


سنو! اگر کوئی کافر مشرک دیوبندی، وہابی، نجدی، رافضی، تفضیلی، خارجی، نام کا اہل حدیث غیر مقلد، بنا ہوا اہل قرآن چکڑالوی، قادیانی، مرزائی، لاہوری مرزائی، بابی بہائی، مہدی جونپوری کا چیلا نام نہاد مہدوی، پیر نیچر علی گڑھی کا پیرو نیچری، مرتد اعظم مشرقی کا متبع خاکساری، قید مذہب و ایمان سے آزاد احراری، بدسیرت کمیٹی کا دلداده صلحكلی، مشرکِ اکبر کا بھگت، رافضی خوجے کا مرید مظلم لیگی، حسن نظامی کا چیلا، آغا خانی، غرض کوئی بد مذہب بد دین دشمنِ خدا اور رسول خواہ وہ (معاذ اللہ) تمہارا باپ ہو یا بیٹا بھائی ہو یا شوہر، بیوی ہو یا ماں، استاد ہو یا مرشد المرشد ہو یہ استاذ الاستاذ، دوست ہو یا محب، خیر خواہ ہو یا محسن، ہمدرد ہو یا ہمدم غرض کوئی ہو کسے باشد اگر وہ تمہارے دین و ایمان کے معاملے میں حائل ہو، تجھے تیرے حبیب تیرے محبوب محبوب پروردگار علیہِ و علیٰ آلہِ الصلوات اللّٰہ النافع الضارت الباد و الحار کی غلامی سے ہٹانے پر مائل ہو، تجھے طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جان و مال و عزت و آبرو کے ڈراؤں سے دھمکائے،نام اسلام لیکر ڈرائے، گو خود ہادم اسلام ہو، صرف مسلمانوں کا سا نام ہو تو ایسے کے مقابلے میں تیرا طریق صرف یہ ہونا چاہئے کہ تو ہر ایسے کو ٹھکرا دے، اس کو سنگِ مذلت سے ٹکرادے، اس کی چاپلوسیاں تجھ پر اثر نہ کریں، اس کی خوشامدیں تیرے دل میں گھر نہ کریں، تو اُن سے دور ہو کر ان کو اپنے سے دور کر دے، اُن کو اپنے سے نفور کر دے، اپنی آنکھیں ان کی طرف سے اندھی اور اپنے کان ان کی طرف سے بہرے کرلے۔ 


ورنہ یاد رکھ یہ دنیائے فانی آنی جانی ہے۔ نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا۔ موت سر پر کھڑی ہے۔ وہ امتحان کی بڑی کڑی گھڑی ہے۔ وہاں کوئی کام نہ آئےگا، تیرے ساتھ کوئی نہ جائے گا۔ تو ہوگا اور تیرا ایمان، تیرے اعمال۔ 

پہلی منزل میں تیرا ٹکٹ پوچھا جائے گا۔ تیرا سامان جانچا جائے گا۔ ذرّہ بھر فرق ہوا کہ بحق سرکار فرق ہوا۔ اس وقت کون بچائے گا، کون ضمانت کرےگا، کون وکالت کرے گا؟ ہاں ہاں سن لے! اس دن ذاتِ واحد مالک شفاعت ہے۔ وہی ضامن حقیقی ہے۔ وہی گنہ گاروں کا وکیل و کفیل ہے۔ اور وہ نہیں ہیں مگر سیّدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وکرم۔ ایسا نہ ہو کہ معاذاللہ تیری ضمانت سے انکار فرما دیں۔ تیری شفاعت سے اِبا کردیں۔ تو بتا خدا کے لئے بتا کہ پھر ان آج کل تیرے طواغیت میں سے کون آگے آئےگا، کون تجھے بخشوائے گا؟ وہ خود جہنم میں پڑے ہوں گے۔ دوزخ کے شب وروزان پر کڑے ہوں گے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


دعا کر کہ خدا ہم سب کو توفیق خیر دے۔ ہمارے قدم راہِ محبت سیدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ڈگمگانے نہ پائیں۔ ہمارے قلوب کو اپنی اور اپنے محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت و تعظیم سے اوراپنے حبیب علیہِ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام کے دوستوں کی اُلفت و تکریم سے بھر دے۔ اور دشمنانِ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے نفرت و عداوت ہمارے دلوں میں  مرکوز کر دے۔ آمین آمین بجاہ حبیبہ ونبیہ الامین المکین علیہ وعلی وآلہ الصلاۃ وا التسلیم الی یوم الدین۔ یہ مبارک فتویٰ اصل تقویٰ بحمدہ تعالٰی اہل فتنہ کی جان پر ضربِ کاری ہے۔ جس سے ان دشمنانِ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر غضب رب طاری ہے۔ اس فتویٰ نے ان پر اللہ کی طرف کی مصیبتیں توڑ دیں، ان کے مکر و فتن کی رگہائے گلو کاٹ کر چھوڑ دیں، سنّیوں کا دل اس سے باغ باغ ہے۔ بے دینان زمانہ کا قلبِ نا پاک داغ داغ ہے۔ مولیٰ عز وجل نافع و مفید بنائے گا۔ اس سعی کو مشکور و مقبول فرمائے گا۔ انشاء اللہ تعالٰی ثم شاء حبیبہ ونبیہہ محمد المصطفیٰ علیہِ التحیّۃ و الصلاۃ و الثناء وعلی آلہ وصحبہ الیٰ یوم الجزا۔ آمین۔ 


الفقیر الحقیر السید (الحکیم) آل مصطفٰی

المعروف بسید میان القادری البرکاتی القاسمی۔

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (98)

 سیرت کمیٹی کا اسلام


از-خلیفہ و مظہر اعلی حضرت شیر بیشۂ سنت قطب الاقطاب علامہ حشمت علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


پیارے نبی کی بھولی بھیڑو! گرگ ہیں چاروں طرف تمہارے،

ان سے ہمیشہ بچتے رہنا، گھات میں ہیں ایمان کی تمہارے۔ 


پیارے مسلمان سُنّی بھائیوں! السلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ تعالٰی و برکاتہ

اس زمانۂ پر فتن میں قسم قسم کے مذہب، طرح طرح کے فرقے برسات میں حشرات الارض کی طرح نکل پڑے ہیں۔ ان کفرِی جراثیم نے اپنی اعتقادی عفونت اور مذہبی نجاست سے مسلمانوں کے دل و دماغ کو پریشان کر رکھا ہے۔ اور مذہبی آب و ہوا کو مسموم کر دیا ہے۔ بھولے بھالے سُنّی بھائیوں کو اپنی ایمانی صحت کا برقرار رکھنا دشوار ہو گیا ہے۔ مذہبی حفظان صحت کے محکمے کی طرف سے ان کفری جراثیم سے پرہیز و اجتناب کرنے کے اعلان پر اعلان ہو رہے ہیں۔ مگر ہمارے سیدھے سُنّی بھائی عموماً خوابِ غفلت میں سو رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے دین و مذہب کا درد رکھنے والا ہر ایک سُنّی بکمال نیازمندی اپنے اور سارے جہان کے مالک و مولیٰ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سرکار کرم میں رو رو کے عرض کر رہا ہے۔

 

کفر کا زور ہے اسلام دبا جاتا ہے

المدد ائے شہ دیں کفر مٹانے والے


پھر  یہ دشمنانِ دین اگر کھلم کھلا جنگ کا الٹی میٹم دے کر اسلام و  سنیت کے مقابل صف آرا ہو جاتے تو ان کے حملوں سے اپنے دین و ایمان کا تحفظ سُنّی مسلمان کے لئے دشوار نہ ہوتا۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ آستین کا سانپ بن کر یعنی مسلمانوں کا لیڈر اور اسلامی پیشوائی کا دعویدار ہوتے ہوئے اسلامی ناموں کا نقاب اپنے کفری چہروں پر ڈال کر سُنّی مسلمانوں کے دین و مذہب کو مٹانے کی یہ اعدائے اسلام کوششیں کر رہے ہیں۔ 


سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے۔

سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے۔


وہابیہ، غیر مقلدین، وہابیہ دیوبندیہ، وہابیہ نجدیہ و مرزائیہ لاہوریہ و خاکسار پارٹی و کفار چکڑالویہ و مرتدّین نیچریہ و ملحدین گاندھویہ و روافض غالیہ یہ سب اسلام و سنیت کے کھلے ہوئے دشمن و بیخ كناور اسلامی ناموں اور اسلامی لباسوں میں چھپے ہوئے دولت ایمان کے رہزن ہیں۔ یہی ذکر کردہ شدہ زنادقہ و ملاحدہ اسلام و سنیت کو نقصان پہنچا نے کے لئے کیا کم تھے کہ انہیں سب کے باہمی سنگھٹن و سماگم کا نتیجہ بئیسہ "سیرت کمیٹی" کی شکل میں پیدا ہوا۔ سیرت کمیٹی کا تو دعویٰ یہ ہے کہ مسلمانوں اور کافروں سب کو سیرت نبویہ علی صاحبہا و آلہِ الصلاۃ والتحیۃ کی تبلیغ کے لئے اٹھی ہے۔ لیکن نقاب اٹھا کر اس کی اندرونی شکل دیکھئیے تو پتہ چلتا ہے کہ نام نہاد سیرت کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ سُنّی مسلمانوں کے دلوں سے اسلام و پیغمبر اسلام علیہِ و علیٰ آلہِ الصلاۃ والسلام و عقائد اسلام و اصول اسلام سب کی عظمت و محبت نکال کر پھینک دی جائے۔ اور اس کی جگہ مشرکین و کفار کے دیوتاؤں کی تعظیم و تکریم اور ادیان باطلہ کی وقعت قلوب  میں جمادی جائے۔ و العیاذ باللہ تعالٰی۔ 


اہل سنت مسلمانوں کا "ایمان مفصل" جو سنیوں کے  بچوں تک کو بھی بچپن ہی میں یاد کرا دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ 

یعنی میں ایمان لایا اللّٰہ پر اس کے سب فرشتوں پر اور اس کی تمام کتابوں پر اور اس کے جمیع رسولوں پر اور پچھلے دن (قیامت) پر اور اس پر کہ نیکی اور بدی جو کچھ دنیا میں ہوتی ہے اسی کے پیدا فرمانے سے ہوتی ہے۔ اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر اٹھنے پر۔ 


اب ذرا ٹھنڈے دل کے ساتھ ملاحظہ فرمائے کہ سیرت کمیٹی جس ایمان مفصل کی اشاعت و تبلیغ کر رہی ہے اس کی کیا تفصیل ہے۔ 


"آمنت باللہ" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:


۱) سیرت کمیٹی پٹی ضلع لاہور نے رسالۂ "نور کامل" مطبوعہ آفتاب برقی پریس امرتسر کے صفحہ ۱۲ پر لکھتی ہے کہ "گوتم بدھ نے اگرچہ دیوتاؤں کی نفی کی لیکن کسی ایک وجود کا اثبات بھی نہیں کیا" یعنی گوتم بدھ نہ تو دیوتاؤں کو مانتا تھا اور نہ کسی ایک خدا کو مانتا تھا بلکل ناستک، ادھرمی اور خدا کے وجود کا بھی قطعاً منکر تھا۔ اس کا عقیدہ یہی تھا کہ خدا کوئی چیز نہیں۔ 


اور اپنے اسی رسالے "نور کامل" کے صفحہ١٦ پر لکھتی ہے کہ:

"رہنمایانِ ہند میں رامچندرجی گوتم بدھ اور سری کرشن اور دوسرے رشی اور منی اور ہاد یان عجم میں فريدوں زر تشت اور دوسرے دخوشور وغیرہم کو مأمور من اللّٰہ مان کر اُن روایات کو جو اُن کی شان کے منافی ہیں غلط فہمی پر محمول کرنا چاہئے اور‌ سل لم‌ تقصصھم الیک کی بنا پر لا نفزق بین احدٍ من رسلہ پر ایمان لانا چاہئے"


اس عبارت میں صاف کہہ دیا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ رام چندر، کرشن، بدھ، فریدوں، زر تشت اور ہندوؤں کے رشیوں، منیوں کو اور پارسیوں کے مذہبی پیشواؤں کو رسول و نبی و پیغمبر مانیں ان سب کی پیغبری و نبوّت و رسالت پر ایمان لائیں۔ تو معلوم ہوا کہ سیرت کمیٹی کے نزدیک گوتم بدھ بھی پیغمبر و نبی و رسول ہے۔ اور سیرت کمیٹی یہ بھی مانتی ہے کہ گوتم بدھ کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا کوئی چیز نہیں اور ظاہر ہے کہ نبی و رسول کی کوئی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ کسی رسول کا کوئی عقیدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ تو ثابت ہوا کہ سیرت کمیٹی کے نزدیک خدا کو ماننا ضروری نہیں۔ بلکہ سیرت کمیٹی کے نزدیک یہ عقیدہ بھی صحیح ہے کہ خدا کوئی چیز نہیں۔ کیونکہ سیرت کمیٹی کے نزدیک ایک پیغمبر کا یہی عقیدہ ہے۔ و العیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"و ملئکته" پر سیرت کمیٹی کا ایمان: 


۲)یہی سیرت کمیٹی اپنے اسی رسالے"نور کامل" کے صفحہ ٤,٥ پر لکھتی ہے:

"قدیم مذاہب میں جن مناظر فطرت اور مظاہر قدرت کو دیوتا تسلیم کیا گیا تھا زمانہ مابعد میں وہی مناظر و مظاہر تھے جو دوسرے ناموں سے پکارے گئے۔ مثلاً ہند کے قدیم آریوں کا "ان داتا" یعنی اندرا ابر و باراں {بادل اور پانی} کا بڑا دیوتا، اہل کتاب کے حضرت میکائیل ہیں جو پانی برساتے تھے روزیاں تقسیم کرتے ہیں۔ اور اب اس دورِ سائنس میں بخارات ہیں جن پر طبعی قوانین عمل پیرا ہیں۔ اسی طرح یونانیوں کے معبود مزدا کے کارپردازوں کی نورانی جماعت نیت حکمائے یونان کے نفوس فلکیہ تھے جو اہل کتاب کے ہاں فرشتگان ملاء اعلی ہیں۔ اور اب اسی دور تہذیب میں الیکٹران ایتھر وغیرہ کے ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماء بدل گئے ہیں مگر مسمّٰی وہی ہے"۔ 


اس عبارت میں سیرت کمیٹی نے صاف کہہ دیا کہ حضرت میکائیل علیہِ الصلاۃ والسلام حقیقت میں انہیں بخارات کا نام ہے جو زمین و سمندر میں سے اٹھتے ہیں اور الکٹری کی قوت اور ایتھر ہی کا نام فرشتہ ہے۔ 

تو سیرت کمیٹی کے دھرم میں بھاپ کا نام میکائیل اور بجلی کی قوت کا نام فرشتہ ہے۔ و ضالعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"وکتبه" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:


۳)سیرت کمیٹی اپنے اسی رسالے"نور کامل" کے صفحہ ۲۰ پر لکھتی ہے: 

"ایمان والے ہوں یہودی ہوں نصاریٰ ہوں صابی ہوں کوئی ہو جو خدا اور آخرت پر ایمان لایا اور نیک کام کئے اس کے لئے خدا کے ہاں اجر ہے اس کے لئے کوئی خوف و غم نہیں۔ دیکھو مشہور مذاہب عالم کے متبعین کو کسی جامعیت کے ساتھ حصول نجات کے ارکانِ ثلثہ کی بشارت دی جاتی ہے۔ توحید کامل پر ایمان اور جزا و سزا کا یقین اور عمل صالح صرف تین الفاظ ہیں مگر راحت دائمی کے حصول کا سر چشمہ ہیں۔ اور نجات کی کلید"


اس عبارت میں سیرت کمیٹی نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہندو، پارسی، یہودی، عیسائی یا مسلمان کوئی بھی ہو جو شخص اللہ کو مانے گا جزا و سزا اور اچھے کام کرےگا بس وہی جنّتی ہے راحت دائمی کا مستحق ہے خواہ وہ رب العزۃ تبارک وتعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لائے یا نہیں۔ تو سیرت کمیٹی کے دھرم میں اللّٰہ عز وجل کی کتابوں توریت زبور و انجیل و قرآن پاک پر ایمان لانا نجات حاصل کرنے کیلئے ضروری نہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"ورسله" پر سیرت کمیٹی کا ایمان: 

٤) اوپر نمبر ایک میں سیرت کمیٹی کے رسالے "نور کامل" کے صفحہ ١٦ کی عبارت آپ حضرات ملاحظہ فرما چکے کہ سیرت کمیٹی کے دھرم میں رام چندر، کرشن، گوتم بدھ، فریدوں، زر تشت اور ہندوؤں کے رشیوں منيوں اور پارسیوں کے مذہبی پیشواؤں کو پیغمبر و‌ رسول ماننا فرض ہے۔ اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے۔ 


ابھی سیرت کمیٹی کے رسالے "نور کامل" کے صفحہ ۲۰ کی عبارت گزری کہ "توحید کامل پر ایمان اور جزا و سزا کا یقین اور عمل صالح صرف تین الفاظ ہیں مگر راحت دائمی کے حصول کا سر چشمہ ہیں اور نجات کی کلید" اس عبارت میں سیرت کمیٹی نے صاف صاف کہہ دیا کہ جو شخص خدا کے ایک ہونے پر ایمان اور جزا و سزا پر یقین رکھے اور اچھے کام کرے بس وہ جنّتی ہے ابدی راحتوں کا مستحق ہے خواہ وہ رسولوں کو مانے یا نہیں۔ تو سیرت کمیٹی کے دھرم میں نجات حاصل کرنے کے لئے رسولوں کی رسالت پر ایمان لانا بلکہ مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"والیوم الآخر" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:


۵)سیرت کمیٹی اپنے رسالے "پیغام رمضان" یکم فروری ۱۹۳۳ء مطبوعہ ثنائی برقی پریس امرتسر کے صفحہ ۳۲ پر لکھتی ہے:


"حکمائے اسلام نے جنت دوزخ اور ثواب و عذاب کی بڑی بڑی تشریحات کی ہیں۔ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان دنیا میں جو کچھ کر رہا ہے اس کے اثرات سے ہر ایک روح متاثر ہوتی ہے اور اس پر لمحہ بہ لمحہ فلم یا گراموفون کے ریکارڈ کی طرح اثرات اعمال سے نقوش کی تاریخ بنتی چلی جاتی ہے۔  روح جسم سے جدا ہوکر انہیں اثرات کے مطابق زندگی بسر کرے گی۔ اگر تم متقی ہو تو تمہاری روح بہشت کاسا آرام محسوس کرے گی اگر عفیف اور پاک دامن ہو تو اپنے کو حورانِ بہشتی سے ہم آغوش پاؤگے"۔ 

ایک بخیل مالدار کی روح جسم سے جدا ہو کر اپنے اعمال کی اسی فلم کو دیکھتی رہتی ہے۔ اگر اچھے اعمال کا منظر دیکھے گی تو روح کو خوشی ہوگی بس اسی روحانی خوشی کا نام حوروں سے ہم آغوشی اور جنت ہے اور اگر برے اعمال کی فلم دیکھے گی تو اس روح کو رنج و صدمہ ہوگا۔ بس اسی روحانی غم کا نام سانپوں کا ڈسنا اور دوزخ ہے۔ 

تو جنت کی نعمت حور، غلمان، شراب طہور اور دودھ و شہد مصفٰے اور ٹھنڈے خوش گوار پانی کی  نہریں کھجور، انار، بیر، انگور، کیلے اور ہر قسم کے میوے بڑے بڑے اونچے محل، بہشتی حُلّے، جنّتی زیور اور جہنم کی مصیبتیں، بھڑکتی ہوئی آگ، آگ کے اوڑھنے، آگ کے بھچونے، لہو، پیپ اور کھولتے ہوئے پانی کا پلایا جانا، جہنّمی تھوہڑکا کھلایا جانا، صعود پہاڑ پر چڑھا کر گرایا جانا، لوہے کے ہتھوڑوں سے سروں کا کچلا جانا، ہنر ہاتھ کی آتشی زنجیر میں جکڑا جانا وغیرہا یوم آخر کی تفصیلات جن کے بیان سے قرآن پاک کی مبارک آیات گونج رہی ہیں سیرت کمیٹی کے دھرم میں سب باتیں جھوٹ اور غلط و باطل ہیں۔ بس جنت و دوزخ کی حقیقت صرف روحانی خوشی اور روحانی صدمے کے سوا کچھ نہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"و‌القدر خیرہٖ و شرہٖ من اللہ تعالیٰ" پر سیرت کمیٹی کا ایمان

٦ ) سُنّی مسلمان تو ایمان رکھتا ہے کہ اچھے یا برے کا ارادہ بندہ کرتا ہے مگر اس کے ارادے کے مطابق اس اچھے يا برے کام کو اللّٰہ تعالٰی ہی اپنے حکم اور اپنی قدرت سے پیدا فرماتا ہے۔ اللہ عز وجل کے سوا کوئی اور کسی چیز کسی فعل کسی قول کا خالق نہیں۔ مگر پارسیوں کے مذہبی پیشوا زرتشت نے مجوسیوں کو یہ عقیدہ تعلیم کیا کہ نیکیوں کا پیدا کر نے والا یزداں اور برائیوں کو پیدا کرنے والا اہرمن ہے۔ 

اور سیرت کمیٹی اپنے رسالے "نور کامل" کے صفحہ ١٦ پر زر تشت کو بھی رسول و پیغمبر مان چکی ہے۔ اور پیغمبر کا تعلیم کیا ہوا کوئی عقیدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ تو سیرت کمیٹی کا عقیدہ بھی یہ ثابت ہوا نیکیوں کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور برائیوں کا پیدا کرنے والا شیطان ہے۔ کیونکہ سیرت کمیٹی کے دھرم میں اس عقیدہ کا تعلیم کرنے والا بھی ایک پیغمبر ہے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"و البعث بعد الموت" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:

۷) ابھی نمبر ۵ میں آپ نے سیرت کمیٹی کے رسالے "پیغام رمضان" کے صفحہ ۳۲ کی عبارت ملاحظہ فرمائی کہ جس میں جنت و دوزخ کی روحانی خوشی کا نام جنت ہے اور جسم سے الگ ہو کر روح کو اپنے اچھے کاموں کی فلم دیکھنے پر جو خوشی ہوگی بس اسی روحانی خوشی کا نام جنت ہے اور جسم سے جدا ہوکر روح کو اپنے برے کاموں کی فلم دیکھنے پر جو صدمہ ہوگا بس اسی روحانی صدمے کا نام دوزخ ہے۔ 

تو مردوں کو اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہوکر اٹھنا قیامت کے ہولناک مناظر حساب و کتاب وزن اعمال پل صراط وغیرہ واقعات جن کے بیانوں سے آیات کریمہ و احادیث مبارکہ لبریز ہیں سیرت کمیٹی کے دھرم میں سب جھوٹ اور غلط و باطل ہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


پیارے مسلمان سُنّی بھائیوں!

سیرت کمیٹی کے رسالوں میں بکثرت کُفریات شائع ہوئے ہیں۔ اس وقت بطور نمونہ صرف یہ سات باتیں پیش کردی ہیں۔ اب آپ حضرات اپنے ایمانی قلوب سے فتویٰ لیں کہ سیرت کمیٹی اسلام کی اشاعت کر رہی ہے یا کفر کا پرچار؟ سیرت کمیٹی کہ مقصد اشاعت نبویہ ہے یا تبلیغ سیرتِ کفار؟ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 

اب آپ حضرات خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ایسی کمیٹی میں آپ کا شریک ہونا ممبر بننا، اس میں چندہ دینا آپ لوگوں کے لئے جائز ہے یا نہیں؟

خدا کہ واسطے آنکھیں کھولو، دوست و دشمن کو پہچانو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور ہم کو اسی ساڑھے تیرہ سو برس والے پُرانے سچے مذہب اہلِ سنت پر ثبات و استقامت بخشے اور با طل کی حمایت اور طرف داری اور بد مذہبوں کے مکر و شر اور ہر نئے مذہب اور نئے فرقے سے محفوظ رکھے آمین۔ 


سُنّی بھائیوں کا مذہبی خدمتگار

فقیر ابو الفتح عبید الرضا محمد حشمت علی خاں

قادری رضوی مجددی لکھنوی غفرلہ ربہ العزیز القوی آمین 

جمعہ مبارکہ ۲۹ محرم الحرام ۱۳۵۶ھ مطابق یکم اپریل ۱۹۳۸۔

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (97)

 رد صلحکیت 

از-خلیفۂ اعلی حضرت ، مداح الحبیب ، حضرت علامہ مولانا مفتی الشاہ محمد جمیل الرحمٰن خانصاحب قبلہ قادری رضوی بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان


حضور پر نور ﷺ کے ان اخلاق کریمانہ و اوصاف رحیمانہ کو پیش کرکے بعض بے عقل جاہل بد مذہب صلح کل اہلسنت پر مونھ مارتے ہیں کہ حضور نے تو کفار کے ساتھ اس قدر تکلیفیں اٹھا کر اتنی زحمتیں برداشت فرما کر بھی یہ کیا اور تم کفار و مشرکین و منافقین و مرتدین کی اہانتیں اور ان کا رد کرتے ہو آہ ان جاہلوں کو کیا معلوم کہ حضور نے جہاں  وہ اخلاق برتے وہاں کفار و منافقین ناہنجار کو ان کے بدکردار کا مزا بھی چکایا انہیں قتل فرمایا۔

منافقین کے گھر جلانے کا حکم دیا اپنی مسجد شریف سے مجمع عام میں نام لےکر اُخْرُجْ یَا فَلَانُ فَاِنَّكَ مُنَافِقٌ فرماکر نہایت خزی و ذلت و رسوائی و فضیحت کے ساتھ نکال دیا اور اَللّٰھُمَّ مَزَّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ  دعائے قہر فرما کر برباد فرمادیا۔

بات یہ ہے کہ حضور نے جو کچھ فرمایا محض اللہ کے لیے فرمایا اپنے نفس شریف کے لیے کچھ نہ کیا اگر ایسی جگہ حضور انہیں قتل فرماتے یا ان کے لیے دعائے قہر و ضرر کرتے تو بد باطنوں کو اِلزام رکھ سکنے کا موقع ہوتا کہ حضور نے اپنے نفس کریم کے لئے یہ کچھ کیا۔ پھر یہ کہ جیسی مصلحت وقت ہوتی حضور مختار کلﷺ ویسا فرماتے کہ آپ دانائے غیوب واقف اسرار مطلوب ہیں آپ پر خوب ظاہر و روشن تھا کہ اس شخص کے لیے ہدایت یوں ہوگی کہ اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتی جائے تو حضور اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتتے اور جسے سختی سے ہدایت ہونا خیال فرماتے اس کے ساتھ سختی فرماتے۔ نیز یہ کہ حکیم مطلق عز جلالہ نے بھی مصالح وقت سے احکام نازل فرمائے ابتداءً بجائے دعوت و ارشاد  حق  لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ" پر عمل رہا کفار ناہنجار حبیب و محبوب پر سخت جفائیں کرتے اور حضور صبر و تحمّل فرماتے ادھر سے جو رو جفا تھی ادھر سے عفو و عطا اور یہ سب اُسی کی مرضی سے تھا کہ حضور کو صفح و اعراض درگزر اور روگردانی ہی کا حکم تھا کہ ارشاد ہوا فَاصْفَحِ الصَّفْح الْجَمِیْلَ" یعنی اچھی طرح درگزامر فرماؤ۔ اور فَصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرِضٔ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ" یعنی ظاہر کرو جس بات کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اور مشرکین سے مونھ پھیر لو۔پھر حضور کو حکم ہوا کہ سمجھانے اور خوبی کے ساتھ دلیل قائم فرمانے سے دین کی طرف بلاؤ اُدْعُ اِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّكَ بِاالْحِکْمَةِ وَلْمَوْعِظَةِالْحَسَنَةِ" یعنی اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحتوں سے بلاؤ پھر حضور کو رب العزة نے اجازت فرمائی کہ تم ابتدا بقتال نہ فرماؤ بلکہ فَاِنْ قَاتَلُوْكُمْ فَقْتُلُوْهُمْ یعنی اگر کفار و مشرکین تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرو پھر بعض اوقات ابتدائے قتال کا حکم ہوا ارشاد فرمایا گیا فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْهحُرُمُ"فَقْتُلُواالْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوْهُمْ یعنی عزت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو قتل کرو جس طرح تم ان کو پاؤ پھر سب مکانوں اور  سب زمانوں میں مطلقاً ابتدا بقتال کا حکم ہو گیا کہ فرمایا گیا وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٌ لِلّٰه" یعنی ان کفار و مشرکین کو قتل کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے اور فرمایا گیا  وَقَاتَلُو الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمَ الْاٰخِرْ" ان سے لڑو جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے یہاں تک کہ کفار و مشرکین منافقین  سب کے متعلق نہایت تصریح سے حکم فرمایا يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ" اے نبی جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں سے اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری پھرنے کی جگہ ہے۔ بہرحال پچھلے تمام احکام اوقات معینہ کے لیے رہے  مگر یہ حکم جہاد اگلے احکام کا ناسخ ہوا 

پھر تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے کفار و منافقین کے ساتھ سختی کرنے اور ان کے قتل فرمانے  میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسا کہ فتوح الشام وغیرہ سے ظاہر ہے یہاں تک کہ کفار و منافقین کے ساتھ سختی اور جہاد کا سلسلہ تابعین اور تبع تابعین ائمہ عظام و فقہائے کرام و سلاطین اسلام میں حسب استطاعت چلا آیا احکم الحاکمین نے قرآنِ مبین میں جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ فرما کر کفار و منافقین پر ہمیشہ کے لیے جہاد کا حکم دیا  اور ہر وقت وہ جہاد مسلمانوں پر فرض رہا اور ہے مگر حسب استطاعت کہ لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْساًاِلِّا وُسْعَهَا" اللہ تعالیٰ کسی کو وسعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔

جہاد کئی قسم ہے اوّل جہاد سیفی یعنی تلوار سے اگر طاقت و استطاعت ہو اور اس کے تمام شرائط پائے جائیں بلا وجود شرائط و استطاعت نام جہاد لینا  قلوب کفار سے جہاد کی ہیبت گرانا اور غریب مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے مولی تعالیٰ فرماتا ہے لَاتُلْقُوْا بِاَیديْكُمْ اِلَى التَّهْکلةِ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر زمانہ حال میں فرقہ گاندھویہ کے مصنوعی پانچ سو یا سات سو علماء نے خلافِ قرآن و حدیث بلا وجود شرائط حکومت نصارے کے ساتھ جہاد سیفی کا حکم نکالا علماء اہلِ سنت نے لاکھ سمجھایا اللہ و رسول کے احکام کا ذخیرہ دکھایا فقہائے کرام کا خزانہ پیش فرمایا مگر مشرکین کی سلامی گاندھی کی غلامی نے اُن کو ایسا اندھا بنایا کہ  ارشاداتِ اللہ و رسول کو پس پشت ڈال کر اس خبیث مشرک کو بالقوہ نبی بتایا اور اسکی ناپاک زبان کو بہتر از قرآنِ ٹھہرایا والعیاذبالله تعالٰی آخر تھوڑا وقت نہ گزرا کہ آسمان کا تھوکا خبیثوں کے مونھوں میں آیا چہرے سیاہ ہوئے  خَسِرَالدُّنْيَاوَالْاٰخِرَةِ کے مصداق بنے غریب مسلمانوں کے جانوں اور مالوں بلکہ ایمانوں کو تباہ و برباد کرادیا۔ غرض وہی ہوا جو علماء اہلِ سنت نے بتایا اور فرمایا تھا اور کیونکر اس کے خلاف ہوتا کہ انکا فرمان وہ تھا جو قرآن کریم کا ارشاد ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ"اے ایمان والوں اپنے غیروں سے کسی کو رازدار نہ بناؤ وہ تمہاری بدخواہی میں گئی نہ کرینگے ان کی دلی تمنّا ہے تمھارا مشقت میں پڑھنا دشمنی اُن کے مونهوں سے ظاہر ہو چکی ہےاور وہ جو اُن کے سینے میں دبی ہے  اور بڑی ہے بیشک ہم نے تمہارے سامنے نشانیاں صاف بیان فرمادیں اگر تمہیں عقل ہو تو کفار و  مشرکین کے ساتھ موالات و اتحاد کی ہم کو اصلا اجازت نہیں بلکہ اُن کے ساتھ عداوت و سختی کرنے کا ہم کو حکم قطعی ہے مگر اس وقت جہاد سیفی نہیں کہ اس زمانے میں مسلمانانِ ہند کی استطاعت سے باہر اور اس کے شرائط کا کہیں پتہ نہیں۔ 

دوسری قسم جہاد کی جہاد زبانی و قلمی ہے جو بحمدللہ تعالیٰ جو علمائے سنت و اہلسنت نے کیا اور کر رہے ہے اور کرتے رہیں گے اور یہاں اس زمانے میں یہ قلمی و زبانی جہاد بھی بمنزلہ جہاد سیفی ہے۔ تیسری قسم جہاد قلبی ہے یعنی کفار و مشرکین و منافقین مرتدین کو قلب سے برا جاننا اور اُن کو دل سے مبغوض رکھنا اور اُن کو کفار و بدمذہب سمجھنا۔ اور یہ ایمان کا سب سے  نیچا اور ضعیف درجہ ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : جو تم میں کسی منکر کو دیکھےاُسے چاہیے کہ اُس منکر کو اپنے ہاتھ سے مٹائے  اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو   اس پر اپنی زبان سے انکار کرے اور اگر اتنی قوت و طاقت بھی نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے اور یہ نہایت کمزور ایمان والا ہے۔ اب انسان اس سے بھی گیا گزرا تو سب سے گیا گزرا اور کمزور اور ضعیف ایمان والوں میں بھی اس کا شمار نہ رہا  حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ مسلمانوں سنو اور خوب غور سے سنو آقائے نامدار مدنی تاجدار سرکار ابد قرار ﷺ جہاں بھر کے مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیں ؛کیا فاجر کے ذکر سے بچتے ہو لوگ اسے کیونکر پہچانیں گے فاجر کا ذکر کرو اُن کے حالات و عیوب بیان کرو تاکہ لوگ اس سے بچے اور پرہیز کریں۔فاجر کے متعلق مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا منافقین زمانہ مرتدین وہابیہ نيچریہ روافض قادیانی گاندھویہ  وغیرہا  بدمذہب تو فاجر سے بدرجہا بدرجہا بدتر ہیں لہٰذا  بحکمِ رسول ﷺ تمام مسلامانوں پر ضروری ہوا کہ مساجد و مجالس میں بلکہ ہر جگہ  چند برادران اسلام جمع ہو ان بدمذہبوں مرتدوں کے کُفریات و ضلالات سے ایک دوسرے کو آگاہ خبردار کریں اور کبھی اس سے غافل نہ ہو تاکہ برادان اسلام میں سے کوئی شخص ان بدمذہبوں عياروں مکاروں کے دام فریب میں نہ پھنسے اور بھٹکے ہوئے راہِ حق پر آجائے۔ حدیثِ شریف میں ہے رسولِ پاکﷺ ارشاد فرماتے ہیں،

بیشک عرش کے آس پاس اللہ تعالیٰ کے چھ لاکھ  عالم فرشتوں سے آباد ہیں جن کا کام یہ ہے کہ ابو بکر و عمر کے دشمنوں پر لعنت کیا کرتے ہیں رضى الله تعالى عنهما

شرح مقاصد میں ہے  بیشک بدمذہب کا حکم اُس سے بغض اور اس  کی اہانت ہے بہرحال ثابت ہوا بدمذہبوں کی اہانت اور اُن سے بغض رکھنے کو اور ان کے حالات و عیوب کُفریات و ضلالات بیان کرنے کو  مطلقاً بلا قید  مکان و زمان ہم حکم فرمائے گئے اور یہی سنتِ قدیمہ ہے تو معترض جاہل بدمذہب صلح کل والے کا مونھ کالا ہوا اور بحمدللہ تعالیٰ اہلسنت کا تعمیل حکم حضور و پیروی سنت شفیع  یوالمنشور سے مونھ اجالا ہوا و اللہ الحمد۔

اب میں قدر تفصیل سے زمانہ اقدس کے بعض اُن حالات و واقعات کا مختصراً بیان کروں جن میں حضور رحمت عالمﷺ نے کفار و منافقین کے بربادی و ہلاک کی دعا فرمائی اُنہیں قتل و غارت فرمایا اُن کے خانما برباد فرمائے اُن کے اموال مسلمانوں کو تقسیم ہوئے اُنکی عورتیں بچے باندیاں غلام ٹھہرائے گئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جنگِ  بدر و حنین و غزاوات بتوک و احد وغیرہ  میں کفار واصل جہنّم کیے گئے کشتوں کے پشتے لگائے گئے نعشیں اُن کی سڑ گئی ٹھوکروں سے ٹھکراکر گڑھوں میں ڈال دی گئیں مال اُنکے لوٹے گئے اُنکی عورتیں باندیاں بنائی گئیں آخر یہ سب کس نے کیا اور کس کے حکم سے ہوا اُنہیں رحمت عالم ﷺ نے کیا اور اُنہیں کے حکم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

عینی شرح بُخاری میں ہے. 

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسولِ اللہ ﷺ نے بروز جمعہ خطبہ فرمایا تو اس میں نام لے لے کر ارشاد کیا اے فلاں نکل جا تو منافق ہے اے فلاں نکل جا کہ تو منافق ہے پھر حضور ﷺ نے بہت سے لوگوں کو رسوا و ذلیل کرکے مسجد اقدس سے نکال دیا۔


مولانا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرح شفا میں ہے 

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ جو منافقین نکالے گئے ۳۰۰ مرد اور ایک سو ستر ۱۷۰ عورتیں تھیں ۔


مسلمانوں انصاف کرو کہ ان تین سو مردوں اور ایک سو ستر عورتوں کا جو منافق تھے نام لے کر رسوائی و فضیحت و خواری کے ساتھ اپنی بھری ہوئی مجلس سے نکالنے والا کون تھا  یہی رحمت عالم ﷺ ہی تو تھے۔


ایک منافق مر گیا  فرمایا اُسے زمین قبول نہ کریگی چنانچہ لوگ اُسے بار بار زمین میں دباتے تھے اور ہر بار اس کی نعش خبیث زمین سے باہر آجاتی تھی آخر اسی طرح پڑا چھوڑا جانوروں نے کھا لیا۔ ملاحظہ کیجئے یہ فرمانے والا کہ زمین اُسے قبول نہ کریگی۔کون تھا یہی رحمت عالم ﷺ  تو تھے زمین نے کس کے ارشاد کی تعمیل کی اُنہیں رحمت عالم ﷺ کے ارشاد پاک کی۔ایک شخص مرتد ہوکر مشرکین میں جاملا اس کے لیے بھی یہی فرمایا زمین اُسے قبول نہ کریگی مرگیا تو ایسا ہی ہوا  یہاں بھی وہی بات ہے۔اہل فارس کے حق میں فرمایا۔اللھم مذکھم کلّ ممزق۔ الٰہی اُنہیں پھاڑ دے پورا پھاڑنا تھوڑے عرصے میں اُنکی سلطنت تہ و بالا ہو گئی۔ کہئیے اہل فارس کی بربادی کے لیے دعا فرمانے والا کون تھا یہی رحمت مجسّم ﷺ 

حکم بن ابی العاص نے مسخرے پن سے حضور کے رفتار شریف کی نقل کی۔آپ نے ارشاد فرمایا کذالك فكن ایسا تو ہوجا  فوراً اس کے بدن میں  سخت رعشہ ہوگیا کہ ہر وقت کودتا ہی رہتا اور اسی حالت میں واصل جہنّم ہوا۔ فرمائیے کہ وہ کذالك فكن ارشاد کرنے والا کون تھا وہ یہی رحمت والے تھے ﷺ۔ ایک روز عتبہ بن ابی لہب نے یہ کلمات ملعونہ بکے کہ (معاذ اللہ) محمد کے بعد عائشہ سے نکاح کرلےگا۔حضور والا نے فرمایا  الھم سلط علیہ کلباً من کلابك۔اے اللہ اپنے کتوں سے ایک کتا اس عتبہ پر مسلّط فرما۔ عتبہ ایک قافلے کےہمراہ گیا شب کو قافلہ منزل میں ٹھہر کر سو گیا عتبہ قافلے کے بیچ میں سوتا تھا ایک شیر آیا اور سرے سے ایک ایک کو سونگھ سونگھ کر چھوڑتا گیا جب عتبہ کو سونگھا فوراً چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ ذرا انصاف کیجئے کہ ان کلمات سے عتبہ کے لیے دعائے ہلاک کرنے والا کون تھا یہی سراپا رحمت ہی تو تھے ﷺ۔ اگرچہ ان جیسے واقعات بہت ملیں گے مگر یہاں طوالت کی ضرورت نہیں حیا دارا باانصاف کے لیے اتنا ہی بس ہے ہاں اتنا معلوم ہو گیا کہ کفار اور مدمذہبوں کا رد اور اُن کی اہانت و تذلیل  اور اُن کے لیے دعائے ہدایت اور اُن پر نفرتیں و ملامت اور اُن کے لیے دعائے بربادی  و غارت سب درست ہے۔ کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے یہی سبب ہے کہ روئے زمین پر ہر ملک اور ہر شہر کی ہر مسجد میں ہر جمعہ کو منبر پر حتٰی کہ حرمین طیّبین میں تمام خطیب اپنے خطبوں میں پڑھتے ہیں کہ الھم اھلك الكفرة والمبتدعة والمشركين اے اللہ تمام کافروں اور جملہ بدمذہبوں جیسے وہابی دیوبندی  قادیانی نیچری گاندھوی وغیرہ اور مشرکوں کو ہلاک فرما الھم دمر دیارھم اے اللہ اُن کے گھر ڈھا دے الھم فرق جمعھم اے اللہ اُن کے اجتماع کو متفرق فرما دے اُن کی جماعتوں میں  پھوٹ ڈال دے الھم خرب بلادھم  اے اللہ اُن کے شہروں کو خراب و برباد کردے۔ افسوس ہے کہ معترضین نے کبھی ادھر توجّہ نہ کی کہ خطبۂ جمعہ میں منبر پر وہ بھی ہر جمعہ کو  اور وہ بھی ہر مسجد میں کافروں اور مشرکوں اور تمام بدمذہبوں کو  کوسنا اور ان کے لئے دعائے قہر و عذاب کہاں سے ثابت ہے  خلاصہ یہ کہ  معترضین کا اعتراض تو فی النار و السقر ہو چکا اور اگر توبہ نہ کریں اپنے اسی خیال پر جمے رہیں تو پھر اُن کے لیے بھی وہی ہے کاش  وہ اب بھی توبہ کرلیں  اور کھرے سُنّی بن جائیں۔ والتوفیق  من اللہ سبحانہ تعالیٰ۔

( ملخصاً رسالہ مبارکہ کفیل بخشش حصہ دوم)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (96)

 رد صلحکیت 

از-خلیفۂ اعلی حضرت ، مداح الحبیب ، حضرت علامہ مولانا مفتی الشاہ محمد جمیل الرحمٰن خانصاحب قبلہ قادری رضوی بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان


حضور پر نور ﷺ کے ان اخلاق کریمانہ و اوصاف رحیمانہ کو پیش کرکے بعض بے عقل جاہل بد مذہب صلح کل اہلسنت پر مونھ مارتے ہیں کہ حضور نے تو کفار کے ساتھ اس قدر تکلیفیں اٹھا کر اتنی زحمتیں برداشت فرما کر بھی یہ کیا اور تم کفار و مشرکین و منافقین و مرتدین کی اہانتیں اور ان کا رد کرتے ہو آہ ان جاہلوں کو کیا معلوم کہ حضور نے جہاں  وہ اخلاق برتے وہاں کفار و منافقین ناہنجار کو ان کے بدکردار کا مزا بھی چکایا انہیں قتل فرمایا۔

منافقین کے گھر جلانے کا حکم دیا اپنی مسجد شریف سے مجمع عام میں نام لےکر اُخْرُجْ یَا فَلَانُ فَاِنَّكَ مُنَافِقٌ فرماکر نہایت خزی و ذلت و رسوائی و فضیحت کے ساتھ نکال دیا اور اَللّٰھُمَّ مَزَّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ  دعائے قہر فرما کر برباد فرمادیا۔

بات یہ ہے کہ حضور نے جو کچھ فرمایا محض اللہ کے لیے فرمایا اپنے نفس شریف کے لیے کچھ نہ کیا اگر ایسی جگہ حضور انہیں قتل فرماتے یا ان کے لیے دعائے قہر و ضرر کرتے تو بد باطنوں کو اِلزام رکھ سکنے کا موقع ہوتا کہ حضور نے اپنے نفس کریم کے لئے یہ کچھ کیا۔ پھر یہ کہ جیسی مصلحت وقت ہوتی حضور مختار کلﷺ ویسا فرماتے کہ آپ دانائے غیوب واقف اسرار مطلوب ہیں آپ پر خوب ظاہر و روشن تھا کہ اس شخص کے لیے ہدایت یوں ہوگی کہ اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتی جائے تو حضور اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتتے اور جسے سختی سے ہدایت ہونا خیال فرماتے اس کے ساتھ سختی فرماتے۔ نیز یہ کہ حکیم مطلق عز جلالہ نے بھی مصالح وقت سے احکام نازل فرمائے ابتداءً بجائے دعوت و ارشاد  حق  لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ" پر عمل رہا کفار ناہنجار حبیب و محبوب پر سخت جفائیں کرتے اور حضور صبر و تحمّل فرماتے ادھر سے جو رو جفا تھی ادھر سے عفو و عطا اور یہ سب اُسی کی مرضی سے تھا کہ حضور کو صفح و اعراض درگزر اور روگردانی ہی کا حکم تھا کہ ارشاد ہوا فَاصْفَحِ الصَّفْح الْجَمِیْلَ" یعنی اچھی طرح درگزامر فرماؤ۔ اور فَصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرِضٔ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ" یعنی ظاہر کرو جس بات کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اور مشرکین سے مونھ پھیر لو۔پھر حضور کو حکم ہوا کہ سمجھانے اور خوبی کے ساتھ دلیل قائم فرمانے سے دین کی طرف بلاؤ اُدْعُ اِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّكَ بِاالْحِکْمَةِ وَلْمَوْعِظَةِالْحَسَنَةِ" یعنی اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحتوں سے بلاؤ پھر حضور کو رب العزة نے اجازت فرمائی کہ تم ابتدا بقتال نہ فرماؤ بلکہ فَاِنْ قَاتَلُوْكُمْ فَقْتُلُوْهُمْ یعنی اگر کفار و مشرکین تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرو پھر بعض اوقات ابتدائے قتال کا حکم ہوا ارشاد فرمایا گیا فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْهحُرُمُ"فَقْتُلُواالْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوْهُمْ یعنی عزت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو قتل کرو جس طرح تم ان کو پاؤ پھر سب مکانوں اور  سب زمانوں میں مطلقاً ابتدا بقتال کا حکم ہو گیا کہ فرمایا گیا وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٌ لِلّٰه" یعنی ان کفار و مشرکین کو قتل کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے اور فرمایا گیا  وَقَاتَلُو الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمَ الْاٰخِرْ" ان سے لڑو جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے یہاں تک کہ کفار و مشرکین منافقین  سب کے متعلق نہایت تصریح سے حکم فرمایا يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ" اے نبی جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں سے اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری پھرنے کی جگہ ہے۔ بہرحال پچھلے تمام احکام اوقات معینہ کے لیے رہے  مگر یہ حکم جہاد اگلے احکام کا ناسخ ہوا 

پھر تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے کفار و منافقین کے ساتھ سختی کرنے اور ان کے قتل فرمانے  میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسا کہ فتوح الشام وغیرہ سے ظاہر ہے یہاں تک کہ کفار و منافقین کے ساتھ سختی اور جہاد کا سلسلہ تابعین اور تبع تابعین ائمہ عظام و فقہائے کرام و سلاطین اسلام میں حسب استطاعت چلا آیا احکم الحاکمین نے قرآنِ مبین میں جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ فرما کر کفار و منافقین پر ہمیشہ کے لیے جہاد کا حکم دیا  اور ہر وقت وہ جہاد مسلمانوں پر فرض رہا اور ہے مگر حسب استطاعت کہ لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْساًاِلِّا وُسْعَهَا" اللہ تعالیٰ کسی کو وسعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔

جہاد کئی قسم ہے اوّل جہاد سیفی یعنی تلوار سے اگر طاقت و استطاعت ہو اور اس کے تمام شرائط پائے جائیں بلا وجود شرائط و استطاعت نام جہاد لینا  قلوب کفار سے جہاد کی ہیبت گرانا اور غریب مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے مولی تعالیٰ فرماتا ہے لَاتُلْقُوْا بِاَیديْكُمْ اِلَى التَّهْکلةِ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر زمانہ حال میں فرقہ گاندھویہ کے مصنوعی پانچ سو یا سات سو علماء نے خلافِ قرآن و حدیث بلا وجود شرائط حکومت نصارے کے ساتھ جہاد سیفی کا حکم نکالا علماء اہلِ سنت نے لاکھ سمجھایا اللہ و رسول کے احکام کا ذخیرہ دکھایا فقہائے کرام کا خزانہ پیش فرمایا مگر مشرکین کی سلامی گاندھی کی غلامی نے اُن کو ایسا اندھا بنایا کہ  ارشاداتِ اللہ و رسول کو پس پشت ڈال کر اس خبیث مشرک کو بالقوہ نبی بتایا اور اسکی ناپاک زبان کو بہتر از قرآنِ ٹھہرایا والعیاذبالله تعالٰی آخر تھوڑا وقت نہ گزرا کہ آسمان کا تھوکا خبیثوں کے مونھوں میں آیا چہرے سیاہ ہوئے  خَسِرَالدُّنْيَاوَالْاٰخِرَةِ کے مصداق بنے غریب مسلمانوں کے جانوں اور مالوں بلکہ ایمانوں کو تباہ و برباد کرادیا۔ غرض وہی ہوا جو علماء اہلِ سنت نے بتایا اور فرمایا تھا اور کیونکر اس کے خلاف ہوتا کہ انکا فرمان وہ تھا جو قرآن کریم کا ارشاد ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ"اے ایمان والوں اپنے غیروں سے کسی کو رازدار نہ بناؤ وہ تمہاری بدخواہی میں گئی نہ کرینگے ان کی دلی تمنّا ہے تمھارا مشقت میں پڑھنا دشمنی اُن کے مونهوں سے ظاہر ہو چکی ہےاور وہ جو اُن کے سینے میں دبی ہے  اور بڑی ہے بیشک ہم نے تمہارے سامنے نشانیاں صاف بیان فرمادیں اگر تمہیں عقل ہو تو کفار و  مشرکین کے ساتھ موالات و اتحاد کی ہم کو اصلا اجازت نہیں بلکہ اُن کے ساتھ عداوت و سختی کرنے کا ہم کو حکم قطعی ہے مگر اس وقت جہاد سیفی نہیں کہ اس زمانے میں مسلمانانِ ہند کی استطاعت سے باہر اور اس کے شرائط کا کہیں پتہ نہیں۔ 

دوسری قسم جہاد کی جہاد زبانی و قلمی ہے جو بحمدللہ تعالیٰ جو علمائے سنت و اہلسنت نے کیا اور کر رہے ہے اور کرتے رہیں گے اور یہاں اس زمانے میں یہ قلمی و زبانی جہاد بھی بمنزلہ جہاد سیفی ہے۔ تیسری قسم جہاد قلبی ہے یعنی کفار و مشرکین و منافقین مرتدین کو قلب سے برا جاننا اور اُن کو دل سے مبغوض رکھنا اور اُن کو کفار و بدمذہب سمجھنا۔ اور یہ ایمان کا سب سے  نیچا اور ضعیف درجہ ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : جو تم میں کسی منکر کو دیکھےاُسے چاہیے کہ اُس منکر کو اپنے ہاتھ سے مٹائے  اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو   اس پر اپنی زبان سے انکار کرے اور اگر اتنی قوت و طاقت بھی نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے اور یہ نہایت کمزور ایمان والا ہے۔ اب انسان اس سے بھی گیا گزرا تو سب سے گیا گزرا اور کمزور اور ضعیف ایمان والوں میں بھی اس کا شمار نہ رہا  حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ مسلمانوں سنو اور خوب غور سے سنو آقائے نامدار مدنی تاجدار سرکار ابد قرار ﷺ جہاں بھر کے مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیں ؛کیا فاجر کے ذکر سے بچتے ہو لوگ اسے کیونکر پہچانیں گے فاجر کا ذکر کرو اُن کے حالات و عیوب بیان کرو تاکہ لوگ اس سے بچے اور پرہیز کریں۔فاجر کے متعلق مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا منافقین زمانہ مرتدین وہابیہ نيچریہ روافض قادیانی گاندھویہ  وغیرہا  بدمذہب تو فاجر سے بدرجہا بدرجہا بدتر ہیں لہٰذا  بحکمِ رسول ﷺ تمام مسلامانوں پر ضروری ہوا کہ مساجد و مجالس میں بلکہ ہر جگہ  چند برادران اسلام جمع ہو ان بدمذہبوں مرتدوں کے کُفریات و ضلالات سے ایک دوسرے کو آگاہ خبردار کریں اور کبھی اس سے غافل نہ ہو تاکہ برادان اسلام میں سے کوئی شخص ان بدمذہبوں عياروں مکاروں کے دام فریب میں نہ پھنسے اور بھٹکے ہوئے راہِ حق پر آجائے۔ حدیثِ شریف میں ہے رسولِ پاکﷺ ارشاد فرماتے ہیں،

بیشک عرش کے آس پاس اللہ تعالیٰ کے چھ لاکھ  عالم فرشتوں سے آباد ہیں جن کا کام یہ ہے کہ ابو بکر و عمر کے دشمنوں پر لعنت کیا کرتے ہیں رضى الله تعالى عنهما

شرح مقاصد میں ہے  بیشک بدمذہب کا حکم اُس سے بغض اور اس  کی اہانت ہے بہرحال ثابت ہوا بدمذہبوں کی اہانت اور اُن سے بغض رکھنے کو اور ان کے حالات و عیوب کُفریات و ضلالات بیان کرنے کو  مطلقاً بلا قید  مکان و زمان ہم حکم فرمائے گئے اور یہی سنتِ قدیمہ ہے تو معترض جاہل بدمذہب صلح کل والے کا مونھ کالا ہوا اور بحمدللہ تعالیٰ اہلسنت کا تعمیل حکم حضور و پیروی سنت شفیع  یوالمنشور سے مونھ اجالا ہوا و اللہ الحمد۔

اب میں قدر تفصیل سے زمانہ اقدس کے بعض اُن حالات و واقعات کا مختصراً بیان کروں جن میں حضور رحمت عالمﷺ نے کفار و منافقین کے بربادی و ہلاک کی دعا فرمائی اُنہیں قتل و غارت فرمایا اُن کے خانما برباد فرمائے اُن کے اموال مسلمانوں کو تقسیم ہوئے اُنکی عورتیں بچے باندیاں غلام ٹھہرائے گئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جنگِ  بدر و حنین و غزاوات بتوک و احد وغیرہ  میں کفار واصل جہنّم کیے گئے کشتوں کے پشتے لگائے گئے نعشیں اُن کی سڑ گئی ٹھوکروں سے ٹھکراکر گڑھوں میں ڈال دی گئیں مال اُنکے لوٹے گئے اُنکی عورتیں باندیاں بنائی گئیں آخر یہ سب کس نے کیا اور کس کے حکم سے ہوا اُنہیں رحمت عالم ﷺ نے کیا اور اُنہیں کے حکم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

عینی شرح بُخاری میں ہے. 

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسولِ اللہ ﷺ نے بروز جمعہ خطبہ فرمایا تو اس میں نام لے لے کر ارشاد کیا اے فلاں نکل جا تو منافق ہے اے فلاں نکل جا کہ تو منافق ہے پھر حضور ﷺ نے بہت سے لوگوں کو رسوا و ذلیل کرکے مسجد اقدس سے نکال دیا۔


مولانا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرح شفا میں ہے 

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ جو منافقین نکالے گئے ۳۰۰ مرد اور ایک سو ستر ۱۷۰ عورتیں تھیں ۔


مسلمانوں انصاف کرو کہ ان تین سو مردوں اور ایک سو ستر عورتوں کا جو منافق تھے نام لے کر رسوائی و فضیحت و خواری کے ساتھ اپنی بھری ہوئی مجلس سے نکالنے والا کون تھا  یہی رحمت عالم ﷺ ہی تو تھے۔


ایک منافق مر گیا  فرمایا اُسے زمین قبول نہ کریگی چنانچہ لوگ اُسے بار بار زمین میں دباتے تھے اور ہر بار اس کی نعش خبیث زمین سے باہر آجاتی تھی آخر اسی طرح پڑا چھوڑا جانوروں نے کھا لیا۔ ملاحظہ کیجئے یہ فرمانے والا کہ زمین اُسے قبول نہ کریگی۔کون تھا یہی رحمت عالم ﷺ  تو تھے زمین نے کس کے ارشاد کی تعمیل کی اُنہیں رحمت عالم ﷺ کے ارشاد پاک کی۔ایک شخص مرتد ہوکر مشرکین میں جاملا اس کے لیے بھی یہی فرمایا زمین اُسے قبول نہ کریگی مرگیا تو ایسا ہی ہوا  یہاں بھی وہی بات ہے۔اہل فارس کے حق میں فرمایا۔اللھم مذکھم کلّ ممزق۔ الٰہی اُنہیں پھاڑ دے پورا پھاڑنا تھوڑے عرصے میں اُنکی سلطنت تہ و بالا ہو گئی۔ کہئیے اہل فارس کی بربادی کے لیے دعا فرمانے والا کون تھا یہی رحمت مجسّم ﷺ 

حکم بن ابی العاص نے مسخرے پن سے حضور کے رفتار شریف کی نقل کی۔آپ نے ارشاد فرمایا کذالك فكن ایسا تو ہوجا  فوراً اس کے بدن میں  سخت رعشہ ہوگیا کہ ہر وقت کودتا ہی رہتا اور اسی حالت میں واصل جہنّم ہوا۔ فرمائیے کہ وہ کذالك فكن ارشاد کرنے والا کون تھا وہ یہی رحمت والے تھے ﷺ۔ ایک روز عتبہ بن ابی لہب نے یہ کلمات ملعونہ بکے کہ (معاذ اللہ) محمد کے بعد عائشہ سے نکاح کرلےگا۔حضور والا نے فرمایا  الھم سلط علیہ کلباً من کلابك۔اے اللہ اپنے کتوں سے ایک کتا اس عتبہ پر مسلّط فرما۔ عتبہ ایک قافلے کےہمراہ گیا شب کو قافلہ منزل میں ٹھہر کر سو گیا عتبہ قافلے کے بیچ میں سوتا تھا ایک شیر آیا اور سرے سے ایک ایک کو سونگھ سونگھ کر چھوڑتا گیا جب عتبہ کو سونگھا فوراً چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ ذرا انصاف کیجئے کہ ان کلمات سے عتبہ کے لیے دعائے ہلاک کرنے والا کون تھا یہی سراپا رحمت ہی تو تھے ﷺ۔ اگرچہ ان جیسے واقعات بہت ملیں گے مگر یہاں طوالت کی ضرورت نہیں حیا دارا باانصاف کے لیے اتنا ہی بس ہے ہاں اتنا معلوم ہو گیا کہ کفار اور مدمذہبوں کا رد اور اُن کی اہانت و تذلیل  اور اُن کے لیے دعائے ہدایت اور اُن پر نفرتیں و ملامت اور اُن کے لیے دعائے بربادی  و غارت سب درست ہے۔ کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے یہی سبب ہے کہ روئے زمین پر ہر ملک اور ہر شہر کی ہر مسجد میں ہر جمعہ کو منبر پر حتٰی کہ حرمین طیّبین میں تمام خطیب اپنے خطبوں میں پڑھتے ہیں کہ الھم اھلك الكفرة والمبتدعة والمشركين اے اللہ تمام کافروں اور جملہ بدمذہبوں جیسے وہابی دیوبندی  قادیانی نیچری گاندھوی وغیرہ اور مشرکوں کو ہلاک فرما الھم دمر دیارھم اے اللہ اُن کے گھر ڈھا دے الھم فرق جمعھم اے اللہ اُن کے اجتماع کو متفرق فرما دے اُن کی جماعتوں میں  پھوٹ ڈال دے الھم خرب بلادھم  اے اللہ اُن کے شہروں کو خراب و برباد کردے۔ افسوس ہے کہ معترضین نے کبھی ادھر توجّہ نہ کی کہ خطبۂ جمعہ میں منبر پر وہ بھی ہر جمعہ کو  اور وہ بھی ہر مسجد میں کافروں اور مشرکوں اور تمام بدمذہبوں کو  کوسنا اور ان کے لئے دعائے قہر و عذاب کہاں سے ثابت ہے  خلاصہ یہ کہ  معترضین کا اعتراض تو فی النار و السقر ہو چکا اور اگر توبہ نہ کریں اپنے اسی خیال پر جمے رہیں تو پھر اُن کے لیے بھی وہی ہے کاش  وہ اب بھی توبہ کرلیں  اور کھرے سُنّی بن جائیں۔ والتوفیق  من اللہ سبحانہ تعالیٰ۔

( ملخصاً رسالہ مبارکہ کفیل بخشش حصہ دوم)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (95)

 مختصر حالات امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ


از- سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی المولیٰ عنہ


وہ جناب فضائل مآب تاج العلماء راس الفضلاء حامی سنت ماحئ بدعت بقیۃ السلف حجت الخلف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وارضاہ و فی اعلی غرف الجنان بواہ سلخ جمادی الآخرہ یا غرۂ رجب ١٣٤٦ھ قدسیہ کو رونق افزائے دار دنیا ہوئے۔ اپنے والد ماجد حضرت مولائے اعظم جر غطمطم فضائل پناہ عارف باللہ صاحب کمالات باہرہ و کرامات ظاہرہ حضرت مولانا مولوی محمد رضا علی خاں صاحب روح اللہ روحہ و نور ضریحہ سے اکتساب علوم فرمایا۔ بحمد اللہ منصف شریف علم کا یایہ ذردۂ علیا کو پہونچایا۔ راست میگویم و یزداں نہ پسند جزراست کہ جو وقت انظار وحدت افکار و فہم صائب و رائے ثاقب حضرت حق جل و علیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ ان دیار و امصار میں اس کی نظیر نظر نہ آئی فراست صادقہ کی یہ حالت تھی کہ جس معاملہ میں جو کچھ فرمایا وہی ظہور میں آیا۔ عقل معاش و معاد دونوں کا بروجہ کمال اجتماع بہت کم سنا، یہاں آنکھوں دیکھا علاوہ بریں سخاوت و شجاعت و علوہمت و کرم و مروت و صدقات خفیہ و مبّرات جلیہ و بلندی اقبال و دبدبہ و جلال و موالات فقرا اور امر دینی میں عدم مبالات باغنیاء حکام سے عزلت رزق موروث پر قناعت و غیر ذالک فضائل جلیلہ و خصائل جمیلہ کا حال وہی کچھ جانتا ہے جس نے اس جناب کی برکت صحبت سے شرف پایا ہے۔ ایں نہ بحریست کہ درکوزۂ تحریر آید۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس ذات گرامی صفات کو خالق عز و جل نے حضرت سلطان رسالت علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی غلامی و خدمت اور حضور اقدس کے اعدا پر غلظت و شدّت کے لئے بنایا تھا۔ بحمد اللہ ان کے بازوئے ہمت و طنطنۂ صولت نے اس شہر کو فتنۂ مخالفین سے یکسر پاک کردیا کوئی  اتنا نہ رہا کہ سر اٹھائے یا آنکھ ملائے۔ یہاں تک کہ ٢٦ شعبان ۱۲۹۳ھ کو مناظرہ دینی کا عام اعلان مسمّٰی بنام تاریخی اصلاح ذاتِ بین طبع کرایا اور سوا مہر سکوت یا عار فرار و غوغائے جہال و عجز و اضطرار کے کچھ جواب نہ پایا فتنہ شش مثل کا شعلہ کہ مدت سے سر بفلک کشیدہ تھا اور تمام اقطار ہند میں اہل علم اس کے اطفا پر عرق ریز و گرویدہ اس جناب کی ادنٰی توجہ میں بحمد اللہ سارے ہندوستان سے ایسا فرو ہوا کہ جب سے کان ٹھنڈے ہیں اہل فتنہ کا بازار سرد ہے۔ خود اس کے نام سے جلتے ہیں۔ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ خدمت روز ازل سے اس جناب کیلئے ودیعت تھی۔ جبکہ تفصیل رسالہ  تنبیہ الجہال بالہام الباسط المتعال میں مطبوع ہوئی۔ تصانیف شریفہ اس جناب کی سب علوم دین میں ہیں نافع مسلمین ودافع مفسدین والحمد للہ رب العالمین۔  ازانجملہ الکلام الاوضح فی تفسیر سورۃ الم نشرح  کہ مجلد کبیر ہے علوم کثیرہ پر مشتمل۔ وسیلتہ النجاۃ جس کا موضوع ذکرحالالت  سید کائنات ہے ﷺ مجلدوسیط سرورالقلوب فی ذکر المحبوب کی مطبع نولکشور میں چھپی۔ جواہرالبیان فی اسرارالارکان  جس کی خوبی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ذوق ایں  مے تشناسی بخدا تانہ چشی۔ فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ نے صرف اس کے ڈھائی صفحوں کی شرح میں  ایک رسالہ مسمیٰ بہ زواہرالجنان من جواہرالبیان ملقب بنام تاریخی سلطنتہ المصطفیٰ  فی ملکوت کل الوری تالیف کیا۔اصول الرشاد لقمع  مہاتی الفساد جس میں وہ قواعد ایضاح و اثبات فرمائے جن کے بعد نہیں مگر سنت کو قوت اور بدعت نجدیہ کو موت حسرت ہدایتہ البریہ الی الشریعتہ الا احمدیہ کہ دس فرقوں کا رد ہے۔ یہ کتابیں مطبع صبح صادق سیتاپور میں طبع ہوئیں۔ اذاقة الاثام لمانعى عمل المولود والقيام کہ اپنی شان میں اپنا نظیر نہیں رکھتی اور انشاء اللہ العزیز عنقریب شائع ہوگی۔ فضل العلم و العلماء ایک مختصر رسالہ کہ بریلی میں طبع ہوا۔ازالةالاوہام رد نجدیہ تزکیتہ ایقان رد تقویتہ الایمان کہ یہ عشرۂ کاملہ زمانۂ حضرت مصنف قدس سرہ میں تبيیض پاچکا۔الکواکب الزہراء  فی فضائل العلم و آداب العلماء جس کی تخریج احادیث میں فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ نے رسالہ النجوم الثواقب فی تخریج احادیث الکواکب لکھا۔ الروایتہ فی الاخلاق  النبویہ النقادہ التقویہ فی الخصاںٔص النبویہ، لمعتہ النیراس فی آداب الاکل واللباس و التمکن  فی تحقیق مسائل التزین۔احسن الوعاء الآداب الدعاء خیر المخاطبہ  فی المحا سبتہ و المراقبہ ہدایتہ المشتاق الی سیرالانفس والآفاق۔ارشاد الاحباب الی آداب الاحتساب اجمل الفکر  فی مباحث  الذکر۔عین المشاہدہ لحسن المجاہدہ تشوق الادّاةالی طرق حجۃاللہ۔نہایتہ السعادہ فی تحقیق الہمہ والارادہ۔ اقوی الذریعہ الی تحقیق الطریقۃ و الشریعہ ترویج الارواح  فی تفسیرالانشراح ان پندرہ رسائل مابین و جزيرو وسیط کے مسودات موجود ہیں جن کی تبییض کی فرصت حضرت مصنف قدس سرہ نے نہ پائی فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ کا قصد ہے کہ اُنھیں صاف کرکے ایک مجلد میں طبع کرائے۔ انشاء اللہ سبحانہ تعالی کہ حلوا بہ تنہا نہ باليست خورد۔ ان کے سوا اور تصانیف شریفہ کے مسودے بستوں میں ملتے ہیں مگر منتشر جن کے اجزا اول آخر یا وسط سے گم ہیں۔ان کے بارے میں حسرت و مجبوری ہے غرض عمر اس جناب کی ترویج دین و ہدایت مسلمین و نکات اعداء حمایت مصطفیٰ ﷺ میں گزری جزاهُ الله من الاسلام والمسلمين خيراجزاء آمین۔ پنجم جمادی الاولی ۱۲۹۴ ہجری کو مارہرہ مطہرہ میں دست حق پرست حضرت آقائے نعمت دریائے رحمت سید الواصلین سند الکاملین قطب ادانہ وامام  زمانہ حضور پُرنور سیدنا و مرشدنا مولانا وماوانا ذخرتی لیومی و غدی حضرت سیدنا سید شاہ آل رسول احمدی تاجدارِ مسند مارہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ وافاض علینا من برکاتہ ونعماہ پر شرفِ بیعت حاصل فرمایا۔ حضور پیر و مرشد برحق نے مثال خلافت و اجازت جمیع سلاسل و سند حدیث عطا فرمائی۔یہ غلام ناکارہ بھی اسی جلسہ میں اس جناب کے طفیل ان برکات سے شرفیاب ہوا۔ ولحمدللہ رب العالمین ۲۶ شوّال ۱۲۹۵ ہجری کو باوجود شدت علالت و قوت ضعف  خود حضور اقدس ﷺ کے خاص طور پر بلانے سے کہ من رانی فی المنام فقُل رانی عزم زیارت و حج مصمم فرمایا یہ غلام اور چند اصحاب و خدام ہمراہ رکاب تھے۔ ہر چند احباب نے عرض کی کہ یہ حالت ہے آئندہ سال پر ملتوی فرمائیے ارشاد کیا مدینہ طیبہ کے قصد سے قدم دروازہ سے باہر رکھ لوں۔ پھر چاہے روح اسی وقت پرواز کر جائے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ تمام مشاہد میں تندرستوں سے کسی بات میں کمی نہ فرمائی بلکہ وہ مرض ہی خود نبی ﷺ کے ایک آبخورہ میں دوا عطا فرمانے سے کہ من رانی فقد رای الحق حد منع پر نہ رہا۔ وہاں حضرت اجمل العلماء  اکمل الفضلاء حضرت مولانا سید احمد زین دحلان شیخ الحرم وغیرہ علمائے مکہ مکرمہ سے مکرر سند حدیث حاصل فرمائی۔ سلخ ذی القعدہ روز پنجشنبہ وقت ظہر ۱۲۹۷ ہجریہ قدسیہ کی اکیاون برس پانچ مہینے کی عمر میں بعارضۂ اسہال دموی شہادت پاکر شبِ جمعہ اپنے حضرت والد ماجد قدس سرہ کے کنار میں جگہ پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔


روزِ وصال نمازِ صبح پڑھ لی تھی  اور ہنوز وقت ظہر باقی تھا کہ انتقال فرمایا۔ نزاع میں سب حاضرین نے دیکھا کہ آنکھیں بند کئے متواتر سلام فرماتے تھے جب چند انفاس باقی رہے ہاتھوں کو اعضائے وضو پر یوں پھیرا گویا وضو فرماتے ہیں یہاں تک کہ استنشاق بھی فرمایا  سبحان اللہ۔ وہ اپنے طور پر حالتِ بے ہوشی میں نمازِ ظہر بھی ادا فرماگئے جس وقت روح پر فتوح نے جدائی فرمائی۔فقیر سرہانے حاضر تھا۔واللہ العظیم۔ایک نور ملیح علانیہ نظر آیا کہ سينہ سے اٹھکر برق  تابندہ کی طرح چہرہ پر چمکا اور جس طرح لمعان خورشید آئینہ میں جنبش کرتا ہے۔ یہ حالت ہوکر غائب ہو گیا۔  اس کے ساتھ ہی روح بدن میں نہ تھی  پچھلا کلمہ کہ زبان فیض ترجمان سے نکلا لفظ اللہ تھا و بس اور اخیر تحریر کہ دست مبارک سے ہوئی۔ بِسمِ اللہ الرحمٰن الرحیم تھی کہ انتقال سے دو روز پہلے ایک کاغذ پر لکھی تھی بعدہ فقیر نے حضور پیر و مرشد برحق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رویا میں دیکھا کہ حضرت والد  قدس سرہ الماجد کے مرقد پر تشریف لائے غلام نے عرض کی یہاں کہاں۔  ادلفطا ھذا معناہ فرمایا آج سے یا فرمایا اب  سے ہم یہی رہا کرینگے۔ رحمهما الله تعالى رحمۃ واسعة.

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (94)

 ایمان فی الابوین کریمین پر شاندار استدلال

از- علامہ جلال الدین سیوطی رضی المولیٰ عنہ



پہلا مقدمہ یہ کہ احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہے کہ حُضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول میں سے ہر اصل سیدنا آدم علیہ اسلام سے آپ کے والد ماجد سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تک اپنے اپنے زمانہ میں سب سے بہتر و افضل رہے ہیں اور ہر ایک کے زمانہ میں کوئی دوسرا ان سے بہتر اور افضل نہ تھا۔


دوسرا مقدمہ یہ کہ احادیث و آثار دلالت کرتی ہیں کے روئے مین پر حضرت نوح یا آدم علیہم السلام  کے عہد سے حُضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ تک ،پھر قیام قیامت تک ہمیشہ کچھ لوگ دین فطرت پر رہے اور رہینگے ،تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے توحید کو مانے  اور نمازیں پڑھیں ،انہیں کی وجہ سے زمین قائم ہے،اور اگر وہ نہ ہوتے ،تو زمین بھی ہلاک ہو جاتی ،اور اس پر رہنے والے بھی ہلاک ہو جاتے۔


جب ان دونوں مقدموں کو ملایا جائے ،تو قطعی طور پر نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ تھا ۔اسلئے کے یہ بات ہر ایک کہ لیے ثابت ہے کہ وہ زمانہ میں سب سے بہتر رہا ہے۔لہٰذا وہ حضرات جو دین فطرت پر رہے ہیں،اگر وہ آپ کے اجداد ہیں؟تو یہی ہماری مراد ہے،اور اگر انکے سوا لوگ ہیں،اور (معاذاللہ) وہ اجداد و آباء شرک پر ہیں؟ تو دو باتوں میں ایک بات ضرور لازم آتی ہے۔(۱)یا تو مشرک مسلمان سے بہتر ہوگا حالانکہ یہ بالاجماع باطل ہے۔(۲) یا یہ کے وہ غیران آباء و اجداد  سے بہتر ہونگے حالانکہ یہ بھی احادیث صحیحہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔لہٰذا قطعی طور پر واجب ہے کہ ان آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ ہو ،تاکہ روئے زمین پر ہر زمانہ میں وہی سب سے افضل ہوں۔


پہلے مقدمہ کے دلائل:- امام بخاری نے اپنی صحیح میں سیدنا ابوھریرہ رضی المولیٰ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہر زمانہ میں بہتر لوگوں میں میں منتقل کیا جاتا رہا یہا نتک کہ مجھے اس زمانے میں مبعوث فرمایا گیا،جس میں میں ہوں۔

اور امام بیہقی نے "دلائل النبوۃ"میں حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیشہ لوگوں کے دو گروہ رہے اللہ تعالی نے مجھے ان میں سے بہتر میں رکھا، پھر مجھے والدین کریمین سے تولد کیا گیا لہذا زمانۂ جاہلیت کی کوئی چیز مجھ تک نہ پہنچی۔اور حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے ماں باپ تک نکاح سے منتقل ہوا، اور صفاح (بیحیائی) سے میں منتقل نہیں ہوا۔اس لیے میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور تمہارے والدین کے لحاظ سے بھی تم سب سے بہتر ہوں ۔


اور ابونعیم نے "دلائل النبوۃ" میں متعدد اسناد کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ،انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ہمیشہ اصلاب طاہرہ سے ارحام طیبہ میں پاک و صاف اور مہذب منتقل ہوتا رہا جب بھی دو قبیلے بنے میں ان کے بہتر میں رہا۔


اور امام مسلم و ترمذی نے صحت کے ساتھ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ،کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برگزیدہ فرمایا،اور اولاد اسماعیل علیہ السلام نے بنی کنانہ کو برگزیدہ کیا، اور بنی کنانہ میں قریش کو برگزیدہ کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو برگزیدہ کیا ،اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ فرمایا ۔


اور حافظ ابوالقاسم حمزہ بن یوسف سہمی نے "فضائل عباس" میں حضرت  واثلہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ان لفظوں کے ساتھ نقل کیا کہ بے شک اللہ تعالی نے اولاد آدم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو برگزیدہ کرکے خلیل بنایا،اور اولادِ ابراہیم میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برگزیدہ کیا،پھر اولاداسماعیل سے نزار کو برگزیدہ کیا،پھر اولاد نزار سے مضر کو برگزیدہ کیا،پھر  مضر سے کنانہ کو برگزیدہ کیا،پھر کنانہ سے قریش کو برگزیدہ کیا،پھر قریش سے بنی ہاشم کو برگزیدہ کیا،پھر بنی ہاشم سے بنی عبدالمطلب کو برگزیدہ کیا، پھر بنی عبدالمطلب سے مجھے برگزیدہ کیا۔" المحب طبری  نے "ذخائر العقبی"میں سے بیان کیا۔

اور ابن سعد نے اپنے "طبقات" میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے' عرب میں سب سے بہتر مضر ہے،اور مضر  میں بہتر اولاد عبدمناف ہے،اور بنی عبدمناف میں بنی ہاشم ہیں اور بنی ہاشم میں بہتر بنی عبدالمطلب ہیں۔خدا کی قسم جب سے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا دو گروہوں میں سے سب سے بہتر گروہ میں مجھے رکھا ۔

اور طبرانی و بیہقی اور ابونعیم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،اللہ تعالیٰ نے خلق پیدا فرمائی، اس میں حضرت آدم علیہ السلام کو پسند فرمایا ،اور اولاد آدم میں اہل عرب کو پسند فرمایا، اور اہل عرب میں مضر کو پسند فرمایا،اور مضر میں قریش کو پسند فرمایا ،اور قریش میں بنی ہاشم کو پسند فرمایا،اور بنی ہاشم میں مجھے پسند فرمایا۔لہذا میں بہتروں سے  بہتروں کی طرف منتقل ہوتا رہا۔

اور ترمذی نے نقل کرکے اسے حسن کہا، اور بیہقی نے بھی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے جسوقت مجھے پیدا فرمایا، تو مجھے اپنی تمام مخلوق سے بہتر بنایا پھر جب قبیلوں  کو پیدا کیا ،تو مجھے ان کے بہتر قبیلہ میں رکھا،اور جب جانوں کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہتر جانوں میں رکھا ،پھر جب گھروں کو پیدا کیا،تو ان کے بہتر گھروں میں مجھے رکھا۔لہذا میں گھر کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں،اور جانوں کے اعتبار سے بھی بہتر ۔

اور طبرانی و بیہقی اور ابونعیم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا انہوں نے کہا  کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ تعالی نے مخلوق کو دو قسموں میں تقسیم کیا اور مجھے ان دونوں کی بہتر قسم میں رکھا ۔پھر ان دونوں قسموں کو تین پر تقسیم کیا

تو مجھے ان تینوں کی بہتر میں رکھا،پھر جب ان تینوں کو قبائل بنایا ، تو مجھے ان کے بہتر قبیلہ میں رکھا،پھر جب قبائل کو گھر یعنی خاندان بنایا،مجھے ان کے بہتر گھر میں رکھا۔

اور ابو علی بن شاذان نے جسے المحب الطبری نے" ذخائرالعقبی " میں اور وہ مسند بزار میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ کچھ قریش کے لوگ صفیہ بنت عبدالمطلب کے گھر میں جمع ہوکر فخر کا اظہار،اور جاہلیت کی باتیں کرنے لگے اس پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو تشریف فرما ہیں۔یہ سن کر انہوں نے (بد گوئی کے انداز )میں کہا "بنجر زمین سے کھجور یا کوئی درخت نمودار ہو گیا ہے۔"پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کیا ، تو آپ جلال میں آ گئے،اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کریں پھر آپ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا، اے لوگو! میں کون ہوں ؟سب نے عرض کیا ،آپ اللہ کے رسول ہیں۔فرمایا میرا نسب بیان کرو؟ سب نے کہا آپ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں۔"آپ نے فرمایا اس قوم کا کیا حال ہے جو میری اصلیت کی تنقیص و تخفیف کرتے ہیں۔خدا کی قسم میں ان سے اصل میں بھی افضل ہوں،اور جگہ اور مقام کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔

اور حاکم نے ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تبلیغ فرمائی،تو لوگوں نے رو گردانی کی اور کہا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مثال تو ایسی ہے ،جیسے کہ بنجر زمین میں کھجور کا درخت نمودار ہو جائے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غضب کا اظہار فرمایا ،اور کہا بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا،پھر اسکے دو فرقے کیے, اور مجھے ان میں سے بہتر فرقے میں کیا۔پھر ان کے قبائل بنائے ،پھر مجھے بہتر قبیلہ  میں کیا ،پھر ان کے خاندان بنائے اور مجھے ان کے بہتر خاندان میں کیا ۔اس کے بعد فرمایا میں تم میں قبیلہ کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں اور تم سے خاندان کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔


اور طبری نے " الاوسط " میں اور بیہقی نے "الدلائل" میں سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے جبریل بیان کرتے ہیں کہ میں نے روئے زمین کے تمام مشرق و مغرب کو چھان مارا لیکن میں نے کسی کو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل نہ پایا اور نہ کسی نبی کے باپ کو بنی ہاشم سے افضل پایا۔


حضرت حافظ ابن حجر "امالیہ" میں فرماتے ہیں کہ صحت کی تابانیاں ان امتوں کی پیشانیوں پر ظاہر ہیں اور یہ امربدیہی ہیں کہ افضلیت و اسطفا و برگزیدگی اور پسندیدگی اللہ تعالی کی جانب سے ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک افضلیت شرک کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔


دوسرے مقدمہ کے دلائل

حضرت عبد الرزاق "المصنف" میں بروایت معمر ازا بن جریح،وہ ابن مسیب سے وہ سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم  نے فرمایا کہ ہر زمانہ میں روئے زمین پر ہمیشہ سات مسلمان یا زیادہ ضرور رہے ہیں اگر وہ نہ ہوتے روئے زمین ہلاک و برباد ہو جاتی اور اس پر رہنے والی بھی نہ رہتے۔اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح ہے۔اس کی مثل اس سے پہلے کسی نے نہیں کہا۔لہٰذا اس کا حکم،مرفوع کے حکم میں ہے۔اور ابن منذر نے اپنی تفسیر میں بروایت دبری (ھو اسحاق بن ابراہیم الدبری) از عبدالرزاق،اس کی تخریج کی۔

اور ابن جریر اپنی تفسیر میں شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا چودہ ۱۴ اشخاص زمین پر ایسے ضرور رہتے ہیں جن کی وجہ سے اہل زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں،اور انہیں برکت ملتی ہے،مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ کہ وہ اپنے زمانے میں تنہا تھے۔


ابن منذر نے اپنی تفسیر میں حضرت قتادہ سے اس آیت کریمہ کے تحت قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ (پ ۱- ع ۴)

ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہو۔۔۔۔

نقل کرتے ہیں کہ  قتادہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہمیشہ اولیاء کو موجود رکھا ہے،اور جب سے حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا کسی وقت بھی زمین کو شیطان کے لیے خالی نہ رکھا ۔ ہر زمانہ میں زمین میں اولیاء رہے اور اس کی طاعت میں مشغول رہے۔


اور حافظ ابو عمر بن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن قاسم نے  حضرت مالک رضی اللہ عنہما سے روایت کی انہوں نے کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہمیشہ اپنے ولی کو رکھا جب تک اس میں شیطان کا دخل ہے۔

اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "الزھد" میں اور حضرت خلال نے کتاب " کرامت الاولیاء" میں شخین کی شرط پر سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کی حدیث نقل کی کہ انہوں نے فرمایا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سات ایسے شخصوں کو موجود رکھا،جن کی بدولت اہلِ زمین سے اللہ تعالیٰ نے بلاؤں کو دور فرمایا۔" یہ حدیث بھی حکمِ مرفوع میں ہے۔


اور حضرت ازرقی (یعنی امام ابو الولید محمد بن عبدالکریم ازرقی المتوفی ۲۲۳ ھ) رحمہ اللہ نے "تاریخ مکہ" میں زہیر بن محمد سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا روئے زمین پر سات یا اس سے زیادہ مسلمان ہمیشہ رہے ہیں ،اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور اس کے رہنے والے یقیناً ہلاک ہو جاتے۔

اور جندی نے "فضائل مکہ" میں مجاہد سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا کہ ہمیشہ روئے زمین پر سات یا اس سے زیادہ مسلمان رہے ہیں،اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور اس کے رہنے والے یقیناً ہلاک ہو جاتے۔

اور حضرت امام احمد نے "الزھد" میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین میں ہمیشہ چودہ ۱۴ شخص رہے ہیں جن کی بدولت عذاب دور ہوتا رہا ہے۔

اور الخلال نے کتاب "کرامات الاولیاء " میں زاذان سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین بارہ ۱۲ يا زیادہ ایسے افراد سے کبھی خالی نہ رہی جن کی بدولت زمین والوں سے عذاب دور ہوتا رہا۔

اور ابن منذر سند صحیح کے ساتھ اپنی تفسیر میں بہ تحت آیت کریمہ :-

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ   الايه (پ۱۳- ع ۱۸)

اے رب مجھے اور میری کچھ اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔۔۔۔۔۔

حضرت ابن جریح رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا،اس دعا کی وجہ سے اولادِ سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام سے کچھ لوگ ہمیشہ فطرت پر رہے ہیں،اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔

مذکورہ اخیر کی تینوں حدیثوں میں "نوح علیہ السلام کے بعد" کی قید وارد ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے تمام انسان ہدایت پر تھے۔

بزار نے اپنی مسند میں،اور ابن جریر،ابن منذر،اور ابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے اپنی اپنی تفسیروں میں ،اور حاکم نے "المستدرک"میں  صحت کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ کے تحت 

کانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٰحِدَةً 

تمام لوگ ایک امت تھے۔

نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام کے درمیان دس قرن گزرے،وہ سب شریعت حقہ پر تھے،پھر جب اختلاف رونما ہوا ،تو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو معبوث فرمایا۔


(مسالک الحنفا لابویہ المصطفی صفحہ ٤٧)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (93)

 دشمن احمد پہ شدت کیجئے

از- سیدنا غوث الاعظم دستگیر رضی المولیٰ عنہ


صاحب عقل و بینش مومن کے لیے بہتر ہے کہ وہ اہلسنت و الجماعت کی پیروی کرے ، بدعت سے اجتناب کرے اور دین میں زیادہ غلو نہ کرے نہ زیادہ گہرائی میں جائے نہ تصنع سے کام لے تا کہ گمراہی سے بچے اور اس کے قدم کو لغزش نہ ہو جو ہلاکت کا باعث ہے۔ حضرت عبد اللّٰه بن مسعود رضی اللّٰه عنہ  کا ارشاد ہے۔" اتباع کرو اور بدعت سے بچو یہ تھمیں کافی ہے۔" حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰه  عنہ نے فرمایا " تم پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگانے سے بچو اور یہ بات مت کہو کہ یہ بات کیوں ہے؟ جب مجاہد رحمۃ اللّٰه علیہ کو حضرت معاذ رضی اللّٰه عنہ کے اس قول کی اطلاع ملی تو انھوں نے کہا ہم پہلے بعض احکام کے متعلق کہا کرتے تھے یہ کیا ہے؟ مگر اب ایسا نہیں کہیں گے ، لہٰذا ایماندار شخص پر لازم ہے کہ سنت کا اتباع اور جماعت کی پیروی کرے ۔ سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جس کو رسولِ خدا صلی اللّٰه علیہ وسلم نے شروع فرمایا اور اس پر گامزن رہے اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفائے کرام کی خلافت کے زمانے میں اصحابِ رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اتفاق کیا۔



اہلِ بدعت سے اجتناب 


دانشمند مومن پر یہ بھی لازم ہے کہ اہل بدعت سے تعلق نہ رکھے اور نہ ان کی محبت و قربت اختیار کرے ، نہ ان کو سلام کرے ، ہمارے امام احمد بن حنبل رضی اللّٰه  عنہ نے فرمایا جس نے کسی اہل بدعت کو سلام کیا گویا اس سے محبت رکھتا ہے (اس لیے کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کا ارشاد ہے  باہم سلام کی کثرت کرو تا کہ محبت بڑھے) یہ بھی لازم ہے کہ بدعتیوں کا ہم نشین نہ بنے نہ ان کے پاس جائے اور نہ ان کو عیدوں اور خوشی کے مواقع پر مبارک دے نہ ان کے جنازے کی نماز پڑھے۔ جب ان کا ذکر آجائے تو ان کے لیے دعائے رحمت بھی  نہ کرے بلکہ ان سے الگ رہے محض اللّٰه کے واسطے ان سے عداوت رکھے ۔ اہل بدعت کے باطل ہونے کا یقین رکھے اور اس پر عظیم اجر و ثواب کا یقین رکھے۔ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اہل بدعت کو محض اللّٰه کے لیے اپنا دشمن جانا اس کے دل کو اللّٰه ایمان سے بھر دیتا ہے اور جو شخص ان کو خدا کا دشمن جان کر ملامت کرے اللّٰه تعالی قیامت کے اس کو امن و امان سے رکھے گا ۔ اور جو شخص ایسے لوگوں کو ذلیل کرے اس کو بہشت میں سو درجے ملیں گے اور جو بدعتی سے کشادہ روی اور خندہ پیشانی سے ملا اس نے اس دین کی توہین کی جو اللّٰه تعالی  نے محمد مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔


ابو مغیرہ نے ابن عباس رضی اللّٰه  عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تک بدعتی بدعت ترک نہ کر دے اللّٰه تعالی اس کے نیک اعمال کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رضی اللّٰه  عنہ روایت کرتے ہیں کہ اہل بدعت کے ساتھ دوستی رکھنے والے کے نیک اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں  اور اللّٰه تعالی اس کے دل سے نور ایمان نکال دیتا ہے اور جو شخص اہل بدعت سے دشمنی رکھتا ہے  اسے اللّٰه تعالی بخش دیتا ہے خواہ اس کے نیک اعمال تھوڑے ہی کیوں نہ ہو جب تم کسی بدعتی کو راستے میں دیکھو تو دوسرا راستہ اختیار کر لو۔ حضرت فضیل بن عیاض کہتے تھے کہ میں نے خود سفیان بن عینیہ  کو کہتے سنا ہے کہ جو شخص کسی بدعتی کے جنازے کے ساتھ جاتا ہے تو وہ جب تک واپس نہیں لوٹ آتا اللّٰه کا غضب اس پر نازل ہوتا رہتا ہے۔


رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے بدعتی پر لعنت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے جس نے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللّٰه کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ، اللّٰه تعالی نہ اس کے صرف یعنی فرض کو قبول فرماتا ہے اور نہ اس کے عدل یعنی نفل کو ، حضرت ابو ایوب سجستانی نے فرمایا کہ اگر تم کسی سے رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حدیث بیان کرو اور وہ کہے کہ اس کو رہنے دو قرآن میں جو کچھ ہو اس کو بیان کرو تو سمجھ لو کہ وہ گمراہ ہے۔

(ماخوذ از غینۃ الطالبیین شریف)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (92)

 دستک

از- نبیرۂ مظہر اعلی حضرت شہزادۂ ناصر ملت فاضل کامل حضرت مولانا مفتی محمد مشارب رضا خان حشمتی دامت برکاتہم العالیہ

۷۸۶/۹۲/۵۵۵


‎تمام تعرفیں اُس اللّہ جلّا جلا لہٗ کے لئے جس نے اپنے نور سے

‎وجہ تخلیق کائنات ہم سب کے آقا و مولی جنابِ محمد رسول

‎اللّہ صلی اللّہ تعالی علیہ وعلی آلہ و اصحابہ سلم کو پیدا فرما کر تمام عالم سے کفر و ضلالت بے دینی و جہالت کی ظلمت  کو مٹایا

‎اسلام جیسا معتدل اور پاک دین عطا فرمایا

‎ الف الف درود و سلام نازل ہو غیب بتانے والے نبی صلی اللّہ تعالی علیہ وسلم پر اور آپکے آل و اصحاب پر اور سب مومنین پر 


‎اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے


‎ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار*


‎ظالمین کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی


‎غیر منقسم ہندوستان کی ہلکی سی جھلک


‎چودھوی صدی ہجری میں جب کفر و ارتداد نے وہابیت ، دیوبندیت وغیرہ کو اپنا محبوب خانہ بناکر حفظ الایمان ، تحذیر الناس ، براہینِ قاطعہ ، تقویت الایمان ، فتاویٰ رشیدیہ، جیسا  ایمان لیوا وائرس  ہندوستان میں پھیلایا تو نہ جانے کتنوں کو اس وائرس نے اپنی زد میں لے کر ہلاک کر ڈالا

‎اور کتنوں کو کُفر و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پہونچا چھوڑا

‎اپنے بد عقیدگی کے انفیکشن سے قوم کو متآثر کرنے اور سچّے پیارے دین اسلام کو لوک ڈاؤن کرنے کی ناپاک کوشیشیں کیں

‎، اور دھوکہ و فریب یوں دیا کہ  ہر سو کفر کا وائرس پھلانے کے لئے اپنے سروں پر اسلامی نام کی تختیاں نصب کر دیں


‎کہیں سچّے خدا جلّا جلا لہ کو جھوٹا کہا (معاذ اللّٰہ )

‎کہیں خدا کے پیارے محبوب کو آ پنے بڑے بھائی کی طرح سمجھا (معاذ اللّٰہ)

‎کہیں اللّٰہ کے پیارے رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مر کر مٹّی میں ملنے والا کہا ( معاذ اللّٰہ )

‎کہیں غیب داں نبی صلیٰ اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیٹھ پیچھے کا بھی علم نہیں -لکھا (معاذ اللّٰہ )

‎کہیں حضور صلیٰ اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم ما کان و ما یکون کو شیطان کے علم سے کم تر لکھا ( معاذ اللّٰہ )

‎اور نہ جانے کیسی کیسی گستاخیاں اور بے ادبیاں اللّٰہ جلّا جلا لہ و رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں کیں اور اپنی کتابوں میں چھاپیں اور آج بھی اپنی اُن گستاخیوں و بے ادبیوں کو اپنا عقیدہ رزیلہ ضالہ بنائے ہوئے ہیں ۔

‎یہ ایک ایسا وائرس ہے جو جان نہیں لیتا مگر جان کی جان یعنی ایمان لے جاتا ہے 

‎او بے فکرو ! او مدہوشو ! کیا سوچتے ہو کہ ان چوروں سے اختلاط و اتحاد میں ہمارے ایمان کو کچھ ضرر نہ ہوگا ؟

‎یقیناً نفس کے سخت دھوکے میں ہو کہ یہاں اس بلا کے چور ہیں کہ تیری آنکھ سے کاجل چرا لینگے اور تیری پلکوں کو خبر تک نہ ہوگی  ۔ ع

‎آنکھ سے کاجل صاف چُرا لیں یاں وہ چور بلا کے ہیں


‎بچا بچا اپنی آنکھ سے ایمان کے کاجل کو بچا ورنہ خدا نہ خواستہ اگر وہ کاجل گیا تو بینائی جاتی رہے گی بصارت نہ رہی تو ظاہری بصیرت کیا کام دیگی ؟ دنیا و آخرت کی رسوائی نصیب ہوگی 

‎نسأ اللہ تعالی العفو و العافیہ فی الدنیا و الآخرہ

‎اور اس کاجل کا تحفظ ان اعداء دین سے ربط و میل جول ختم کرکے ہی ہو سکتا ہے کہ اس سے جہاں ہمارے ایمانی کاجل کی حفاظت وصیانت ہوگی وہیں دعوئے محبت میں صداقت بھی ظاہر ہوگی ورنہ ۔ شعر 

‎ان کے دشمن سے تجھے ربط رہے میل رہے 

‎دعوہ بے اصل ہے جھوٹی ہے محبت تیری


‎اب ہم انکی حقیقت سے  پردہ کو ہٹاتے ہیں کہ آپ آگے اپنے ایمان کی حفاظت کر یں


‎بھائیو ! کیا کسی کو اس طرح دھوکہ دیا جا سکتا ہے کہ آئیے صاحب میں آپکو دھوکا دے رہا ہوں ؟

‎نہیں ! بلکہ دھوکہ باز پہلے ہمدردی اور محبت کی باتیں کر کے بعد میں دھوکا دیتا ہے 

‎کیا کبھی کسی نے کسی آدمی کو یہ کہہ کر زہر دیا ہے کہ لیجئے صاحب زہر پی کر میٹھی نیند سو جائیے ؟ 

‎نہیں ! بلکہ زہر دینے والا زہر کو کسی میٹھی چیز میں ملا کر دیگا 

‎اسلام میں نیا فرقہ پیدہ کرنے والا شخص کیا یہ کہہ کر فرقہ بناتا ہے کہ آئیے مسلمانوں میں اسلام میں نیا فرقہ بنانے جا رہا ہوں آپ میرا ساتھ دیجئے؟ 

‎نہیں ! بلکہ وہ شخص فرقہ بندی کی مخالفت کریگا اور اندر ہی اندر ایک نیا فرقہ بنائیگا  جب شکاری کسی پرندہ کو شکار بنانا چاہتا ہے تو وہ اُسی کی بولی بولتا ہے حالانکہ شکاری انسان ہی ہوتا ہے لیکن وہ اپنے مقصد کے لئے پرندہ کی بولی بول کر اسے دھوکہ دیتا ہے ان روز و شب کے مُشاہدات سے یہ بات ثابت ہو گئ کہ بظاہر کوئ فرد یا جماعت میٹھی میٹھی باتیں یا نیک کاموں کے لیے بلائے تو یہ ضروری تو نہیں کہ ہم بنا سوچے سمجھے اور پرکھے اُسکے ساتھ ہو لیں !بلکہ ہمیں پوری تحقیق کرکے یہ دیکھ لینا چاہیئے کہ کہیں وہ رہبر کے بھیس میں رہزن تو نہیں ہے ۔


‎کسی بھی مذہب یا تحریک کے مقصد کو معلوم کرنے کا اہم ترین طریقہ اُس تحریک کے منشور اور بانی و اکابر کی کتابوں سے ہوتا ہے

‎اب آپ وہابیت ، دیوبندیت کی ایک شاخ تبلیغی جماعت کی حقیقت انہیں کی کتابوں سے ملاحظہ کریں : 

‎تبلیغی جماعت کا بانی مولوی الیاس ہے اُسکے علاوہ مولوی یوسف ، مولوی زکرّیہ ، مولوی منظور نعمانی تبلیغی جماعت کا اہم ستون تصوّر کیا جاتا ہے ،تبلیغی جماعت کے اکابر میں مولوی اسمائیل دہلوی ، مولوی اشرفعلی تھانوی ، مولوی رشید احمد گنگوہی ، مولوی قاسم نانوتوی وغیرہ شامل ہیں 

‎یہاں ایک اور وضاحت کرتے چلیں کہ اگر کسی سُنّی صحیح العقیدہ بریلوی سے پوچھا جائے کہ آپ اپنے اکابر حضرات کے نام بتائیں  تو وہ فوراً صحابہ کرام  ، شہدائے کربلا اور حضرت امامِ حسن مجتبی و سید الشہداء حضرت امامِ حسین رضی اللہ تعالی عنھم سے لیکر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ سرکارِ غوث اعظم سرکارِ غریب نواز حضرت وارثِ پاک حضرت صابرِ پاک امامِ اہل سُنّت سرکار اعلیٰ حضرت ، سرکار مظہر اعلیٰ حضرت و دیگر بزرگانِ دین رضی اللّہ تعالیٰ عنھم اجمٰعین کے اسمائے گرامی تک بغیر کسی کشمکش کے ذکر کردیگا

‎لیکن چونکہ تبلیغی جماعت کی کتابیں رسول اکرم صلی اللّہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں سے بھری پڑیں ہیں اس لئے برائے تقیہ وہ اپنے اکابر کے نام بتانے سے شرم کرتے ہیں ، اور اپنی آئیڈینٹی چھپاتے ہیں کہ اگر پہلے پہل ہی ہماری حقیقت سے لوگ آگاہ ہو گئے تو ہمارے فریبی جال میں کون پھنسے گا 


‎اب کُھلی آنکھوں سے وہابیت ، دیوبندیت کی شاخ تبلیغی جماعت کا اصلی چہرہ دیکھئے 


‎نمبر (1) نماز میں حضرت محمّد صلی اللّہ علیہ وسلم کی طرف خیال لے جانا اپنے گدھے اور بیل کے خیال میں ڈوب جانے بدرجہ بہتر ہے 

‎(کتاب صراط مستقیم )معاذ اللّٰہ

‎نمبر (2) ہر مخلوق چھوٹا ہو یا بڑا اللّہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زادہ زلیل ہے

‎ (کتاب تقویت الایمان)معاذ اللّٰہ

‎نمبر (3) جس کا نام محمّد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مالک و مختار نہیں (کتاب تقویت الایمان )معاذ اللّٰہ

‎نمبر (4) حضور کی تعظیم بڑے بھائی کی طرح کرنا چاہئیے (کتاب تقویت الایمان)معاذ اللّٰہ

‎نمبر (5) روضہ مطہرہ کا فقط زیارت کے لئے سفر کرنا شرک ہے ( کتاب تقویت الایمان)معاذ اللّٰہ

‎نمبر (6) محرم میں ذکر شہادتے حُسین کرنا اگر چہ وہ روایت صحیحہ ہو ، سبیل لگانا ، شربت پلانا ، چندہ سبیل و شربت میں دینا ، یا دودھ پلانا ، سب نا دروست اور تشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہے (کتاب فتاویٰ رشیدیہ)

‎لیکن اُسی کے بر عکس اِسی فتاویٰ رشیدیہ میں مولوی رشید احمد گنگوہی نے لکھا ہے کہ ہندو جو پیاو لگاتے ہیں اُسکا پانی پینا جائز ہے 

‎(7) مُردے کاتیجا، دسواں ، بیسواں ، چالسواں ، کرنا عُرس میں جانا ، بُزرگوں کی منّت مانّا ، فاتحہ نیاز گیارویں شریف بارویں شریف وغیرہ متعارف طور پر کرنا ، رواج کے مواقف مولود شریف کرنا ، تبرُّکات کے لئے عُرس کا انتظام کرنا ، شبِ برات کا حلواہ پکانا ، رمضان شریف میں ختم قرآن کے موقع پر شیرینی ضرور کر کے باٹنا ، یہ سب نا جائز و حرام ہے ( کتاب قسدالسبیل)معاذ اللّٰہ

‎لگے ہاتھوں محمّد ابن عبدالوہاب نجدی کا بھی ایک عقیدہ اُسکی ہی زبانی سُن لیجئے

‎نمبر (8) حضور صلی اللّہ علیہ وسلم کے مقبرے کا دیکھنا ایسا گناہ ہے جیسے بتوں کا دیکھنا ( کتاب التوحید )

‎معاذاللّہ ثُمَّ معاذ اللّہ لعنت اللّہ و الملائکۃ و الناس اجمعین علی الکافرین و الواهبين والديوبندين والملحدين و اليهود و النصاریٰ


‎ ان وہابی دیو بندی تبلیغی جماعت جماعتِ اسلامی والوں نے جب اپنے کفر کے وائرس کو ہر سو  پھیلانا چاہا تو اپنے نام کو اسلام سے جوڑ دیا اور اسلام کی آڑ لے کر اسلام کو بدنام کرنا چاہا اسلام کے پرچم کو سرنگو کرنا چاہا طرح طرح کے حربے استعمال کیے  مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام کی حفاظت اللّہ تبارک و تعالی ہی فرماتا ہے  قران کہتا ہے

‎وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْن 

‎( اور اللّہ کو اپنا نور پورا کرنا پڑے بُرا مانیں کافر۔ کنزالایمان )


‎‫یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کے بریلویت کوئی الگ یا  نیا مذہب نہیں بلکہ یہ  ایک پہچان ہےاور حقیقی مذہب اہلِ سنّت ہی ہے۔ بنیادی طور پر مسلک کے معنیٰ "راستہ/طریقہ" کے ہیں ، اس دور میں جب برِّصغیر پاک و ہند میں دینِ اسلام  مختلف فتنوں کی زَد میں تھا اور انگریزوں کی سرپرستی میں اسلام  کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا جا رہا تھا،اللّٰہ  عزَّوجل کی شان میں گستا خیاں کی جا رہی تھیں، اور پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عزت و عصمت پہ حملے کیے جا رہے تھے،عظمت صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم پہ طعن و تشنیع کے تیر برسائے جا رہے تھے،اولیاء اللّٰہ رحمہم اللّٰہ  کے بارے میں کیا کچھ نازیبا کلمات استعمال نہ کئے جا رہے تھے ، حق و باطل میں فرق کرنا مشکل تھا،  الغرض ہر طرف بے چینی کا عالم تھا،مسلمانانِ اہل سنت پریشان تھے کہ آخر کوئی تو ہو جو ان باطل اور دین و ایمان کے دشمن فتنوں کے آگے بند باندھے۔‬

‎ایسے سخت فتنوں کے دور  میں دین اسلام کی حفاظت کرے تو کون کرے ، الکفر ملۃ واحدۃ کے پیش نظر ، کفر جو اس وقت ایک ملت بن کر اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اس کا مقابلہ کرے تو کون کرے ؟

‎یکا یک اسی وعدۂ الٰہیہ کہ اللہ تعالی تو اپنے نور کو پورا فرمائے گا اگر چہ کافر جل جل کر مریں ، کی تکمیل ہوئی اور 

‎امامِ عاشقاں،قبلہِ دل و جان، اعلیٰ حضرت،عظیم البرکت،عظیم المرتبت،پروانہِ شمّعِ رسالت،حامیِ سنّت،ماحیِ بدعت،امامِ اہلِ سنّت،امامِ عشق و محبّت،مجددِ دین و ملّت،امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے اپنی خدا داد صلاحیت علم و حکمت فہم و فراست اور عشق رسالت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بنا پر  تمام فرقہائے باطلہ سے ایک ساتھ جہاد بالقلم چھیڑ کر رکھ دیا 

‎اور تنِ تنہا ان تمام بلاؤں اور وائرس کا زبردست مقابلہ کیا اور نہ صرف اُن تمام باطل فتنوں کا رد کر کے انکےکیفرکردار تک پہونچایا بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایسی شمع روشن فرمائی کہ جس کو باطل آج تک اپنی تمام تر کوشیشوں کے باوجود بجھا نہ سکا 

‎شمعِ یادِ رُخِ جاناں نہ بجھے

‎خاک ہو جائیں بھڑکنے والے 

‎آمین بجاہ النبی الامین الکریم علیہ و علی آلہ افضل الصلٰوۃ و اکرم التسلیم


‎فقیر محمد مشارب الحشمت حشمتی عفی عنہ

‎آستانہ عالیہ حشمتیہ حشمت نگر پیلی بھیت شریف

‎بروز چہار شنبہ ۶ ماہ سرور ربیع النور ۱۴۴۳ھ 

‎مطابق ۱۳ اکتوبر ۲۰۲۱ء

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (91)

 میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

از-مفسر اعظم پاکستان علامہ فیض احمد اویسی رحمہ اللہ


مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اندرایں مسئلہ کہ ایڈیٹر فاران ماہر القادری نے اپنے توحید نمبر میں"مغالطے" کے عنوان سے حسب ذیل عبارت لکھی ہے کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا شعر مذکورہ شرک آمیز عقائد پر محمول ہوتا ہے، و ھو ھذا: اہلِ بدعت کا خاصہ ہے کہ جب شرک آمیز عقائد اور بدعات پر انہیں ٹوکیئے تو وہ چراغ پا ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں کو تم اس قدر بے اختیار سمجھتے ہو۔ ان لوگوں نے مجازی محبوبوں کے انداز  پر اللّٰہ و رسول اور اولیاء اللہ کے روابط کو قیاس کیا ہے اس کا اظہار اپنے شعروں میں وہ اس طرح کر چکے ہیں:

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب 

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا


سائل - عبد الرحمن قندھاری آغاپورہ حیدرآباد


الجواب بعون الملک الوھاب اللهم ھدایۃ الحق و الصواب

منکرین کا خاصہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی کے محبوبوں کے وہ مراتب خصوصی اور بلند شانیں اور خدا کے دربار میں اُن کی عزت و وجاہت جو عام انسانوں کو نہیں ملتی بیان کی جاتی ہے تو سن کر شرک و کفر کی مشینیں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ افسوس کہ ان آیات و احادیث کی خبر نہیں جن کو اللّٰہ تعالٰی اور اس کہ رسول اعلیٰ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے محبوبان خدا کی افضلیت و منزلت میں فرمایا:


حدیث قدسی: سید المفسرین علامہ امام رازی تفسیر کبیر میں زیر آیات وللآخرۃ خیر لک من الاولی (پارہ ٣٠ آیت ٤ سورۃ الضحیٰ)  فرماتے ہیں:

لانک تفعل فی الدنیا ارید و افعل فی الآخرۃ ماترید 

 یعنی دنیا میں تم ہمارے! ارادہ کے مطابق عمل کرتے ہو اور آخرت میں جو تم کہو گے وہ ہم کریں گے۔ 


حدیث شریف: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہما فرماتی ہیں۔ ما اری ربک الا یسارع فی ھواک یعنی میں آپ کے خدا کو دیکھتی ہوں کہ وہ آپ کی خواہش پوری کرنے میں بہت جلدی کرتا ہے۔ 


تردید اعتراض: جو اعتراض کیا گیا ہے وہ بلکل ہی لغو و باطل ہے اس سے ان کی شعر فہمی اہل علم پر اچھی طرح آشکارا ہو گئی غالباً انہیں یہ خبر ہی نہیں کہ یہ شعر کس عظیم ہستی کا ہے؟ یاد رکھئے کہ یہ شعران کا ہے جو عرب و عجم کے علمائے کرام سے مجدّد کا خطاب پا چکے ہیں علمائے حرمین نے جن سے سندیں حاصل کیں ہر مسئلہ علمی جن کی تحقیق نے آفتاب سے زیادہ روشن کردیا جو علم قرآن و حدیث و فقہ وکلام میں ماہر ہیں جن پر فتاویٰ رضویہ جو بارہ ضخیم جلدوں میں ہیں اور ہر جلد تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل ہے شاہد عادل ہے جس کے کمال شاعری کا لوہا استاد داغ دہلوی نے بھی مانا جن کی شاعری گل و بلبل، شمع و پروانہ، حسن و عشق مجازی سے مبرا و منزہ تھی خدا کی حمد و نعت صاحب لولاک جن کا موضوع سخن تھا۔ 


شعر کی تشریح: سائل کا فن شاعری سے کیا واسطہ اگر فن معانی و بیان و بدیع و عروض کے چند سوالات کر لئے جائیں تو منہ دیکھنے لگیں اب اس شعر کی تفسیر و تحلیل قرآن و حدیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔ کاش کہ خشک توحید کے خشک خیالات دماغ سے نکل کر مندرجہ ذیل تشریح کا مطالعہ کریں یا کسی عربی درس گاہ کے استاد یا طالب علم سے اس شعر کی تشریح سمجھ لیں اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔ 


انا اعطینک الکوثر


ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا اعطینا از روئے قواعد صرف ثلاثی مزید فيہ ہے عطا ثلاثی مجرد فقہ میں بتایا گیا ہے کہ لفظ عطا تصدق، نحل اور ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور عقد ہبہ اس سے ایسا ہی منعقد ہوتا ہے جیسے لفظ ہبہ سے اور ہبہ مفید ملک ہے یعنی موہوب لہ موہوب کا مالک ہو جاتا ہے تو اعطینا   کا معنی اس نہج پر ہوا وھبنا اور وھبنا کا معنی ہے ملّکنا یعنی ہم نے مالک بنا دیا۔ 

ملک کی تین صورتیں: ملک کی تین صورتیں ہوتی ہیں یعنی اگر کوئی کسی چیز کا مالک ہوتا ہے تو بذریعہ خرید یا بذریعہ وراثت یا بذریعہ ہبہ یہ تینوں چیزیں مفید ملک ہیں اللّٰہ تعالٰی نے اپنی ملک  کوثر کا مالک حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو کیا ہے یہ ملک نہ بذریعہ خرید ہوئی اور نہ ہی بذریعہ وراثت کہ اللہ ہی سب کا وارث ہے مورث مرے تو وارث کو ملے اللّٰہ تعالٰی تو ازلی ابدی ہے تملیک کی دو قسمیں تو معدوم ہیں ره گیا ہبہ تو فرمایا " ہم نے ہبہ کیا" خرید و فروخت کا تعلق محبت سے نہیں دشمن سے بھی سودا لیا جاتا ہے اور وراثت کی تقسیم مورث کے اختیار میں نہیں ہے اس وجہ سے مورث کے اگر کچھ ورثاء نا فرمان اور دشمن ہوں تو پھر بھی حصہ مل جاتا ہے جبکہ ہبہ کا تعلق صرف محبت  سے ہے کہ دشمن کو ہبہ نہیں کیا جاتا ہبہ کرنے والے کو موہوب لہ سے محبت ہوتی ہے تو اسے ہبہ کر دیتا ہے۔ اب شعر کے معنی ہوئے کہ اے نبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہم نے تمہیں مالک بنا دیا کیونکہ تم ہمارے محبوب ہو اگر ذھن میں تعصب کے جراثیم نہ ہوں تو پہلے مصرعہ " میں تو  مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب" کا مطلب صاف طور پر سمجھ میں آسکتا ہے یہ مصرعہ انا اعطینک کا پورا پورا ترجمہ ہے، ملا علی قاری حنفی مکی حدیث شریف کہ و انا حبیب اللہ (الخ)    کے تحت "مرقات شریف" میں خلیل و حبیب کا فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

یعنی خلیل کا فعل اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے حبیب وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل اس کی رضا کے لئے ہے پھر اس مضمون پر ہر دو آیات قرآنی سے استدلال فرمایا جو نمایاں طور پر ثابت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی رضا چاہتا ہے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی ملکیت، اختیار اور تصرف و عطا پر ایک حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

یعنی رابعہ بن کعب اسلمی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس رات کو حاضر رہتا اور (ایک شب) حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے آب وضو وغیرہ ضروریات حاضر لایا (رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا دریائے رحمت جوش میں آیا) ارشاد فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے ہم تجھے عطا کریں میں نے عرض کیا میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطا فرمائیں فرمایا کچھ اور، میں نے عرض کی میری مراد تو صرف یہی ہے کہ حیف باشنداز وغیرا و تمناۓ یعنی


سائل ہوں تیرا مانگتا ہوں تجھ سے تجھی کو

معلوم ہے اقرار کی عادت تیری مجھ کو 


بہر حال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے۔ 

فائدہ: اس حدیث شریف میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا بلا قید و تخصیص مطلق "سل" ارشاد فرمانا یعنی مانگ کیا مانگتا ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہر قسم کی حاجت روائی فرما سکتے ہیں دنیا و آخرت کی سبھی مرادیں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے اختیار میں ہیں جب ہی تو بلا تقیید ارشاد ہوا کہ مانگ کیا مانگتا ہے؟ یعنی جو جی میں آئے مانگو کہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے علامہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ

اگر خیریت دنیا و عقبی آرزو داری

بدرگاہ ھش بیا و ھر چہ میخواہی تمنا کن


یہ تو شعر تھا اب آپ کے قلم فیض رقم سے حدیث مذکور کی محدثانہ تشریح بھی ملاحظہ فرمائیے:

اطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ تخصیص نکرد بر خاص معلوم میشود کہ کار ھمہ بدست ھمت وکرامت اوست صلی ﷲ علیہ وسلم ھر چہ خواہد و ھر کرا مخدہ باذن پرودگار خود دھد

فان من جودک الدنیا و ضرتھا

ومن علومک علم اللوح والقلم 


شاہ صاحب نے جو شعر درج فرمایا وہ امام بوصیری رحمتہ اللّٰہ تعالٰی علیہ صاحب بردہ شریف کا ہے یعنی یا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم دنیا و آخرت دونوں حضور کے خوانِ جود و کرم سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کے تمام علوم جن میں "ماکان و ما یکون" یعنی جو کچھ ہوا اور جو کچھ قیام قیامت تک ہونے والا ہے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے علوم سے ایک معمولی حصہ ہیں۔


اسی طرح علامہ علی قاری حنفی مکی رحمتہ اللّٰہ تعالٰی علیہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں کہ:


حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے مانگنے کا مطلق حکم دیا اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو عام قدرت بخشی ہے کہ اللہ کے خزانوں میں سے جو چاہیں عطا فرمادیں۔ 


فائدہ: غر ضیکہ جب حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوئے اور خدا محب اور یہ عطا و ہبہ محبت کی وجہ سے ہے تو خدا دے رہا ہے اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لے رہے ہیں خدا مالک بنا رہا ہے اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مالک ہو رہے ہیں تو ہمیں تمہیں دونوں کے درمیان کیا مداخلت؟ کہ وہ محب، وہ محبوب، ہم تم کون؟ جو مداخلت کریں اور کہیں کہ اللہ تعالٰی مالک نہیں بنا سکتا اور حضور مالک نہیں بن سکتے اس میں شرک لازم آئےگا اور توحید کے خلاف ہوجائے گا ایسے لوگوں کے لئے اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے:

أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ

یہ لوگ منع کرنے والے اور حد مقرّر کرنے والے کون؟لا مانع لمااعطیت۔


نہیں میرا تیرا: دوسرے مصرعہ "یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا میں الفاظ" نہیں میرا تیرا" خاص زباں کا محاورہ ہے جو بمعنی عدم مداخلت استعمال کیا جاتا ہے جیسے عام طور کہتے ہیں "ہم جانیں اور وہ جانیں تمہیں اس سے کیا"؟ مگر افسوس کے مسٹر ماہر، محاورات زبان اور نکات شاعری کو بھی نہیں سمجھ سکتے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک ان کا فن شاعری میں انہماک " نقشد بر آب کشیدن" سے زیادہ حثیت نہیں رکھتا۔ ماہر کو شاید اتنا بھی یاد نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں لفظ "مالک کون و مکان" وہ خود استعمال کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو "محسوسات ماھر صفحہ ٥٤ مطبوعہ حیدرآباد دکن"۔     نظم کا عنوان ہے اسیران بدر آخری شعر ملاحظہ فرمائیے۔ 


مالک کون و مکاں! بادشہ عرش سریر 

نام لیوا ہیں تیرے بند غلامی میں اسیر


فائدہ: کیا بہتر ہو کہ اپنے کہے ہوئے شعر کو ماہر صاحب یادگار جاہلیت کہہ کر نظر انداز کر دیں۔ ہمارے نظر میں تو ان کا دورندی اور عہد پارسائی دونوں ہی فریب نفس ہیں بقول جوش ملیح آبادی: وہ بھی دھوکہ تھا اور یہ بھی دھوکہ! 


ماہر  صاحب توحید نمبر کے اسی باب میں یوں بھی رقمطراز ہیں کہ "ان کو اسی میں لطف آتا ہے کہ کوئی نہ کوئی نکتہ پیدا کر کے اللّٰہ عز وجل اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک ہی سطح پر لے آئیں"۔ 


لطیفہ: ماہر صاحب کے اس نظریئے کے روشنی میں عہد صحابہ سے آج تک جن لوگوں نے فضائل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بیان کیئے محدثین، آئمہ، فقہاء صوفیاء اور علماء مفسرین جنہوں نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے اوصاف میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں وہ سب اللہ عز وجل اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک سطح پر لے آنے والے ہو گئے۔ لا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم و لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔



ھر سُنّی کا عقیدہ: سلف صالحین تو عظیم بزرگ ہستیاں ہیں کوئی ادنی مسلمان ایسی جرأت نہیں کر سکتا کہ اللہ عز وجل اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک سطح پر لے آئے مگر افسوس کہ مسٹر ماہر اتہام تراش رہے ہیں اور بڑی جرأت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔


ہر سُنّی مسلمان کا عقیدہ یہی ہے کہ:

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر!!!


اس شعر کا مصرعہ اوّل بھی خاص طور سے توجہ کے قابل ہے مصرعہ ثانی تو اکثر غیر سُنّی لوگ بھی پڑھ دیتے ہیں۔ 


حقیقت: اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے

لہ ما فی السموت وما فی الارض

یعنی جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے اس کا مالک اللّٰہ ہی ہے اس کے باوجود آج ہر شخص یہ کہتا ہے کہ اس مکان کا مالک میں ہوں اس زمین کا مالک میں ہوں، یہ کارخانہ میرا ہے دعویٰ ملکیت پر کوئی فتویٰ نہیں لگاتا تو جس خدا نے کسی کو مکان کا کسی کو دکان کا، کسی کو کارخانے کا، کسی کو بہت بڑے سامان کا، کسی کو سارے مُلک کا اور اس پر حکم و فرمان کا مالک بنا دیا ہے تو اسی خدا نے ہی محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو سارے جہان اور مکان کا مالک بنا دیا ہے اس شعر کی مزید تشریح فقیر کی شرح حدائق بخشش میں ملاحظہ ہو۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

(فتاوٰی اویسیہ شریف، جلد ١)

Tuesday, June 7, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (90)

 شیر بیشۂ اہلِ سنت ایک پیکرِ وفا


از-علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ


کیوں رضا آج گلی سونی ہے

اٹھ میرے دھوم مچانے والے


آہ.......کہ نصف صدی تک دنیائے سنیت کو جگا جگا کر ایک دن سرکارِ مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کا نقیب خاموش ہو گیا۔


معتمد روایوں کا بیان ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی قدس سرہ العزیز کی بزمِ عشق میں پہنچنے کے بعد ایک دن کائنات کا یہ مخفی راز اس کے دل پر آشکار ہو گیا کہ عرش و فرش کی وسعتوں میں رضائے الٰہی کی کلید خوشنودئ مزاج مصطفی صلی اللّٰه علیہ وسلم ہے۔ اس دن سے لے کر پیکر اجل کی آمد تک ایک وارفتہ حال دیوانے کی طرح ساری عمر وہ اسی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ شوق و طلب کی ایک بیتاب امنگ تھی جو رگ و پے میں خون کی لہروں کے ساتھ دوڑتی رہی اور عشق و اخلاص کا ایک دائم و قائم خمار تھا۔ جس نے ساری عمر عقل و ہوش کی دنیا پر فرماں روائی کی۔ عشق و اخلاص کا خمار اس وقت بھی شریک سفر تھا جب کہ سر بالیں وصال کا سفر نامہ پیک اجل لیے کھڑا تھا اور نگاہوں کی بینائی محبوب کی تجلیوں میں ڈوب رہی تھی اور بلا شبہ وہی رفیق عزیز لحد کی خوابگاہ میں آج بھی شریک بزم تنہائی ہے۔ 


عشق کے داغ سے مانوس رہا کرتا تھا 

ویسے کہنے کو شبِ قبر کی تنہائی ہے


اس پیکر وفا کے سامنے دنیائے رنگ و بو میں ہزاروں انقلاب آئے......حوادث کی مصلحتوں نے خوشامدیں کیں.......وقت کے تقاضوں نے دامن تھامے......طوفانوں نے الارم کیا......قہر و جبر نے تازیانے اٹھائے ....ننگ و ناموس نے اندیشہ دلایا.......اور یہ فتنۂ آشوب دنیا بارہا بن سنور کر آئی کہ ایک برہم دیوانے کا مزاج بدل دیا جائے......لیکن رات کے روشن سیارے اور دن کے چمکتے ذرے شاہد ہیں کہ وقت کے جبری تقاضوں پر دنیا کی ہر شئی بدل گئی.......دریاؤں کے بہتے ہوئے دھارے نشیب پا کر مخالف سمت پر لڑھک گئے.......انگاروں کی دھمک سے فولاد کا جگر پانی ہو گیا......بارہا ایسا ہوا کہ مصلحتوں نے سرگوشی کی اور اچانک ہزاروں آتش نوا خطیبوں کی زبان گنگ ہو گئی اور قلم نے سپر ڈال دیے....اور ایسا بھی ہوا کہ علم و تقویٰ کی مغرور پیشانیاں وقت کی مسند اقتدار کے آگے غبار آلود ہو گئیں......مصلحت کی آتش سے نشیمن جلے.......عشق کی آبرو لٹی.......کفر نے امان پائی اور اسلام اسیر بلا ہوا......لیکن اپنے دور کا ایک وارفتہ جگر مجاہد تھا جس نے حالات سے دوبدو کرنا قبول کر لیا مگر غیرت وفا کی قربانی دے کر کسی طرح کی مصالحت کے لیے راضی نہیں ہو سکا۔ وہ حق و باطل کے امتیاز میں کسی درمیانی راہ کا قائل نہ تھا۔ اس کی پوری زندگی اسی نظریہ کی عملی تفسیر تھی۔ ایک دامن کی پناہ حاصل کرنے کے لیے انتہائی بے دردی کے ساتھ اس نے لاکھوں دامن جھٹک دیے اور ایک چوکھٹ پر بستر جمایا تو سارے چوکھٹوں سے منہ موڑ کر گزر گیا۔ 


حق جب بھی مظلوم نظر آیا اس کی غیرت کا جلال برہم ہو گیا اور اس کے لب و لہجے کے خروش پر دریاؤں کی طغیانی ابھر آئی۔ اور جس حال میں بھی ہوا بغیر کسی لمحۂ انتظار کے حق کی حمایت کے لیے کھڑا ہوا۔ 


مشاہدات و محسوسات سے کہیں زیادہ اسے معنوی حقیقت پر یقین تھا کہ سرکار مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کے دامن سے کٹ جانے کے بعد زمین و آسمان کی وسعتوں میں کہیں امان نہیں مل سکتی۔ وہ ہر وقت اسی یقین کے اجالے میں رہتا تھا۔


اس کی حیات کے وہ لمحے انتہائی قابلِ رشک ہوتے تھے ، جب وہ عاشقوں کی انجمن میں ہوتا اور داستان عشق و ایمان کا کوئی ورق الٹ کر وہ اپنے محبوب کائنات کی یکتائی اور جلالت شان کے خطبے پڑھتا......اور اس وقت ساری فضا کیف و خمار سے معمور ہو جاتی اور فرط شوق میں کائنات کا دل جھومنے لگتا۔ 

 

اس کی خدا داد شان خطابت میں مخلص کا ولولہ....دل مبتلہ سوز....گھائل کی کراہ.....عشق کی چوٹ....فدا کار کی سرفروشی....دیوانے کا استغناء....مجاہد کا تیور ....انتقام کا جوش....نیاز مند کا ادب....اور ایک وارفتہ حال مومن کا ایمان جھلکتا تھا۔


حرمت عشق کے خلاف زبان و قلم کی کوئی ناپاک جسارت اس کے لیے کائنات کی سب سے بڑی اذیت تھی، جس کی تاب ضبط سے اس کا ضمیر ہمیشہ نا آشنا رہا۔ وہ اپنے کریم و جمیل آقا(صلی اللّٰه علیہ وسلم) کا ایسا سرشار دیوانہ تھا کہ دنیا میں کسی سے اس کی شناسائی نہیں ، بس ایک ہی چہرہ اس کے قلب و جگر کا محبوب تھا اور جہاں جہاں بھی دل رکا وہی ایک محبت درمیان میں نسبت رابط تھی۔

ذاتی طور پر نہ اس کی کسی سے دشمنی تھی اور نہ دوستی.....وہ اپنے حبیب کے دوستوں کا دوست تھا اور دشمنوں کا دشمن اور یہ اس کے ایمان کا مزاج بن چکا تھا۔

بیگانوں کے سامنے اس کی پیشانی ہمیشہ مغرور نظر آئی لیکن غبار راہ میں بھی پائے حبیب کی کوئی سنت مل گئی تو سجدۂ شوق کے لیے دل کی پوری کائنات جھک پڑی۔

اس کے محبوب آقا کی حرمت پر جس نے بھی حرف رکھنا چاہا اس کے خلاف اعلان جنگ کرنے میں اس کے جہاں کوئی لمحۂ انتظار نہ تھا اور نہ غلبہ و قوت کا کوئی قہر اور مروت و شناسائی کا کوئی عاطفہ اس کی راہ میں حائل ہو سکتا تھا۔

اس کا کام سن کا کر ایوان باطل میں زلزلے پڑ جاتے تھے اور اسی کے ساتھ اس کی ذات دنیائے سنیت کی ایک ایسی متاع بے بہا تھی کہ اس کے تذکرے سے ایمان والوں کے چہرے شاداب ہو جاتے تھے۔ اس کے قدموں کی آہٹ پر وفاداروں کی ایک دنیا دیوانہ وار سمٹ جاتی تھی۔


یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں کہ جس شان وارفتگی کے ساتھ حضور شیر بیشۂ اہل سنت نے اسلام کو داخلی فتنوں سے پاک کیا اس کی مثال دور حاضر میں نہیں ملتی۔ ہے اور یہ بھی ایک امر مسلم ہے کہ اسلام کو جتنا اندر سے نقصان پہنچا ہے باہر سے نہیں، صدر اول کا وہ فتنہ جس نے ایوان اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور آج تک اس کی دھمک محسوس ہوتی ہے ، وہ اندر ہی سے برپا ہوا تھا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ مرد مومن اپنے وقت کا بہت بڑا مجاہد ہے جو دین مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کو اندر سے پاک کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور بے مثال جرات و پا مردی کے ساتھ باطل کی بساط الٹ کر حق کو برتر و غالب کر دیا۔

اسے بصیرت خداوندی ہی کا کرشمہ کہا جا سکتا ہے کہ فتنہ جنم بھی نہیں لینے پاتا تھا کہ اپنے وقت کے اس عظیم الشان مصلح کی خارشگاف نگاہوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ اب اس کی جگہ یا تو نامرادیوں کے مدفن میں ہوتی تھی یا ہمیشہ کے لیے اعتبار کی نگاہوں سے گرا دیا جاتا۔ 

کہا جاتا ہے کہ اصلاح و تطہیر کے میدان میں حضور شیر بیشۂ اہلِ سنت کی سب سے بڑی حریف وہابیت و دیوبندیت تھی، جن کے خلاف انھوں نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے اور نہ ایک لمحہ کے لیے ان کا ذہن اس سے غافل رہا۔ 

جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی زبان و قلم کو جنبش ہوئی رد وہادیت و دیوبندیت کا فرض قضا نہ ہو سکا اور اس کے لیے نہ کسی تقریب و تمہید کی ضرورت تھی اور نہ تحریک و آمادگی کا انتظار تھا کہ دعوت حق کے لیے فضا سازگار ہو اور جان و مال کی مضرتوں کا کھٹکا دور ہو جائے۔ 

بلا شبہ جذبۂ حق کا یہ خروش اور غیرت ایمانی کا یہ بے نیاز ولولہ انہیں کے ساتھ مخصوص تھا۔ دین  میں انھوں نے وہابیت و دیوبندیت کی رنگے ہاتھوں چوری پکڑی تھی اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ناموس مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کے خلاف منافقین کا کردار دہراتے ہوئے دیکھا تھا اور دیوبندی پیشواؤں کی کتابوں میں انہوں نے شان رسالت میں وہ توہین آمیز عبارتیں بھی پڑھیں جن کے تصور سے مومن کا دل کانپ جاتا ہے۔

حق نے جب کبھی اسے آواز دی وہ بغیر کسی لمحۂ انتظار کے اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ خلعت فاخرہ اسی کی قامت زیبا پر راس آئی ۔ اس کی سطوت علم کے آگے بڑے سے بڑے طاغوت کی زبانیں خشک ہو جاتی تھیں اور اس کا نام سن کر باطل کے ایوان میں زلزلے پڑ جاتے تھے۔ پھر اس کے ساتھ اس کی عالمگیر محبوبیت کا یہ اقبال تھا کہ اس کے تذکرے سے مؤمنین کے دلوں کی کلی کھل جاتی تھی اور چہرے شاداب ہو جاتے تھے۔ 


جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم 

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان


صداقت و انصاف کا خون کر کے کوئی اعتراف حق سے پھر جائے تو اور بات ہے، لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ حضرت شیر بیشۂ اہل سنت نے جس صبر آزما حوصلوں کے ساتھ اسلام کو داخلی فتنوں سے پاک کیا، اس کی مثال دور حاضر میں نہیں ملتی۔

دراصل اس جذبے کے پیچھے ایک نہایت سنگین اور المناک حادثے کی تاریخ تھی، جس نے اہل سنت کے قلوب کو ایسا گھائل کیا کہ وہ آج تک اچھے نہیں ہو سکے۔ وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان بڑے سے بڑے زخم کی چوٹ برداشت کر سکتا ہے لیکن یہ نا ممکن ہے کہ جان سے زیادہ عزیز پیغمبر کے ناموس کو کوئی بدبخت اپنی  زبان و قلم کا نشانہ بنائے۔ ۔زمانہ اس کے اس جذبۂ شوق کا ہمیشہ گلہ مند رہا کہ توہین وفا کے مجرم کو عالمگیر شہرت و اثر کے حصار میں بھی اس کی زبان و قلم کے عبرتناک تازیانوں سے امان نہ مل سکی۔ 

فکر و اعتقاد کے ملحدین نے ہمیشہ اس کے موقف کا مذاق اڑایا.......اس کی افتاد طبع سے بیزاری کا اعلان کیا.....اور جب زبان و قلم کے حربوں سے کام نہ نکلا تو طاغوت کی قوتوں کا سہارا لے کر فرعون و شداد کی تاریخ دہرائی......لیکن مایوس و مرعوب ہونا تو بڑی بات ہے، اس کے محکم یقین کی آب و تاب اور چمک گئی  اور اس کے باطل شکن عزم کا تیور اور نکھر گیا۔

بلا شبہ شیر بیشۂ اہل سنت کی زندگی ایسی کردار کی مرقع تھی جیسے معلوم ہوتا ہے کہ مشیت کی طرف سے وہ اسی عظیم خدمت پر مامور کیے گئے تھے۔

یہ مجھے نہیں معلوم ہو سکا کہ سب سے پہلے "شیر بیشۂ اہل سنت" کے خطاب سے کس نے اسے مخاطب کیا ، لیکن بلا خوف تردید کہک سکتا ہوں کہ لغت میں یہ ترکیب اسی لیے وضع ہوئی تھی اور اسی پر ختم بھی ہو گئی۔


خدائے غافر و نعیم اس کے مدفن کی خاک پر شام و سحر رحمت و انوار کی بارش برسائے اور نسیم طیبہ ہمیشہ اس کی خواب گاہ کو معطر رکھے۔ آمین


(شخصیات، صفحہ ١٧١)