برکاتی پیغام اہلسنت کے نام
از-حضرت سید العلماء سند الحکماء حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل مصطفیٰ صاحب قبلہ قادری برکاتی قاسمی قدس سرہ العزیز
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اللہ اکبر ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان کہلانے والا کوئی فرد ایسا نہ تھا جو کم از کم حرارتِ ایمانی میں اتنا ہو کہ اپنے ایمانیات و مسلماتِ دینی میں کسی غیر کے دخل کو قبول کر سکے۔ خواہ شامتِ نفس اور اغوائے شیطان سے بعض اعمال میں اس کا رویہ غیر مشروع ہو مگر عقائد میں بفضلہ تعالٰی کسی قسم کی خامی کسی قیمت پر بھی گوارا نہ تھی۔ مسلمان اپنے اسلاف کرام کے مبارک ارشادات کو جو در حقیقت خلاصۂ قرآن و احادیث ہوتے تھے۔ دانتوں سے پکڑ کر رکھتا تھا۔ اور باتباعِ سنت کریمۂ سید الشہداء امام حسین علی جدہ الکریم و علیہِ الصلاۃ والسلام اپنے جان و مال بلکہ عزت و آبرو کو بھی اپنے پیارے دین و مذہب کے مقابلہ میں عزیز نہ رکھتا تھا اس کی دوستی اور دشمنی کی کسوٹی اللّٰہ و رسول (جل وعلا و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور دوستی تھی۔ خدا اور رسول کا دوست اس کا دوست اور ان کا دشمن اس کا دشمن تھا۔ مگر آہ صد آہ کہ آج شیطانی نحوستوں اور ابلیس نکبتوں نے نوبت اس حد تک پہنچا دی ہے کہ کھلے ہوئے دشمنانِ دین و اعدائے بددین مؤ ھِّنَانِ رسول (رسول کی توہین کرنے والے) (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) ہمارے دوست نہ صرف دوست بلکہ دلی رازدار بلکہ قائد اعظم بنے ہوئے ہیں۔ آج معاذ اللہ دامنِ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے۔ رشتۂ غلامئ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ٹوٹ چکا ہے۔ آج ہم نے حکومتِ شہنشاہِ کونین علیہِ وآلہ صلوات رب المشر قین و المغربین اپنی جانوں پر سے اٹھا دی۔ ایمان کی کمائی راہِ شیطان میں گنوا دی۔ غلاموں نے آقا سے منہ موڑ لیا۔ مالک کے دشمنوں سے رشتۂ مؤدت و اخلاص جوڑ لیا۔ پھر بھی دعوئ غلامی ہے۔ ادّعائے محبت ہے۔ خدا کی قسم راہِ محبت اتنی آسان نہیں جو اس طرح بآسانی طے کی جا سکے۔ قدم قدم پر خطرے ہیں، گام گام پر آفتیں ہیں، راہ پر خار ہے۔ ایک بحرذخار ہے، آتشِ عشق کا دریا حائل ہے، ڈوب کر جانا ہے، محبوب کو پانا ہے، اپنا سب کچھ دینا ہے، رضائے محبوب لینا ہے، رہزنوں کی دنیا راہ میں آباد ہے، دشمنِ قدیم سخت مکار و کیاد ہے، سنبھل اے غلامِ مصطفٰی، سنبھل! قطاع الطریق سے دامن بچا کر نکل، ایسا نہ ہو کہ متاعِ ایمان لٹ جائے۔ تیرے مذہب کا گلا خود تیرے ہاتھوں گٹ جائے۔
ہاں ہاں او بندۂ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم آج ابلیس کے چیلے تیری تباہی کا بیڑا اٹھا چکے ہیں، کفر و طغیان کی مسموم آندھی چلا چکے ہیں۔ بچا بچا اپنی کشتی کو گردابِ ضلالت سے بچا، ہٹا ہٹا اپنے دین و ایمان کے راستے سے ان خبیث ڈاکوؤں کو ہٹا، مصطفٰی پیارے کے گلے کی سیدھی سادی بھیڑو، ہوشیار! بھیڑئیے بکریوں کے لباس میں تمہارے ساتھ آملے ہیں تاک میں ہیں کہ کب نظریں بچیں، کب تمہیں اُچک لے جائیں۔ دیکھو دیکھو، سنو سنو، سگانِ کوچۂ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلا رہے ہیں، تم کو خوابِ غفلت سے جگا رہے ہیں۔ جو آج نہ اٹھا تو پھر کبھی نہ اٹھے گا۔ سدا موت کی نیند سوئے گا۔ سیّدنا عیسیٰ علیہِ الصلاۃ والسلام نے کنواریوں سے فرمایا۔ دولہا آنے والا ہے۔ اپنے چراغ تیل سے بھر لو۔ جس جس نے بھرے دولہا کے ساتھ تھیں۔ جس کے پاس روشنی نہ تھی دولہا نے اسے قبول نہ کیا۔ تاریکی میں گم ہو گئیں۔ محنتِ انتظار برباد گئی۔ آج بھی جن کے چراغوں میں روغن محبتِ مصطفٰی عروس مملکۃ اللہ نوشۂ بزم جنت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نہیں ہے۔ ان کو قبول نہ فرمائیں گے۔ بزمِ قرب میں نہ بلائیں گے، خسرانِ دیں و دنیا نصیب ہوگا۔ ان سے ناراض خدا و خدا کا حبیب ہوگا۔ جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے تم کو بآواز بلند کیا سناتا ہے۔
قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ۔
تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں یہ چیزیں اللّٰہ اور اس کے رسول سے اور ان کی راہ میں کوشش کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
(سورہ توبہ پ ۱۰)
تم نے کیا سنا، تم نے کیا سمجھا؟
سنو! اگر کوئی کافر مشرک دیوبندی، وہابی، نجدی، رافضی، تفضیلی، خارجی، نام کا اہل حدیث غیر مقلد، بنا ہوا اہل قرآن چکڑالوی، قادیانی، مرزائی، لاہوری مرزائی، بابی بہائی، مہدی جونپوری کا چیلا نام نہاد مہدوی، پیر نیچر علی گڑھی کا پیرو نیچری، مرتد اعظم مشرقی کا متبع خاکساری، قید مذہب و ایمان سے آزاد احراری، بدسیرت کمیٹی کا دلداده صلحكلی، مشرکِ اکبر کا بھگت، رافضی خوجے کا مرید مظلم لیگی، حسن نظامی کا چیلا، آغا خانی، غرض کوئی بد مذہب بد دین دشمنِ خدا اور رسول خواہ وہ (معاذ اللہ) تمہارا باپ ہو یا بیٹا بھائی ہو یا شوہر، بیوی ہو یا ماں، استاد ہو یا مرشد المرشد ہو یہ استاذ الاستاذ، دوست ہو یا محب، خیر خواہ ہو یا محسن، ہمدرد ہو یا ہمدم غرض کوئی ہو کسے باشد اگر وہ تمہارے دین و ایمان کے معاملے میں حائل ہو، تجھے تیرے حبیب تیرے محبوب محبوب پروردگار علیہِ و علیٰ آلہِ الصلوات اللّٰہ النافع الضارت الباد و الحار کی غلامی سے ہٹانے پر مائل ہو، تجھے طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جان و مال و عزت و آبرو کے ڈراؤں سے دھمکائے،نام اسلام لیکر ڈرائے، گو خود ہادم اسلام ہو، صرف مسلمانوں کا سا نام ہو تو ایسے کے مقابلے میں تیرا طریق صرف یہ ہونا چاہئے کہ تو ہر ایسے کو ٹھکرا دے، اس کو سنگِ مذلت سے ٹکرادے، اس کی چاپلوسیاں تجھ پر اثر نہ کریں، اس کی خوشامدیں تیرے دل میں گھر نہ کریں، تو اُن سے دور ہو کر ان کو اپنے سے دور کر دے، اُن کو اپنے سے نفور کر دے، اپنی آنکھیں ان کی طرف سے اندھی اور اپنے کان ان کی طرف سے بہرے کرلے۔
ورنہ یاد رکھ یہ دنیائے فانی آنی جانی ہے۔ نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا۔ موت سر پر کھڑی ہے۔ وہ امتحان کی بڑی کڑی گھڑی ہے۔ وہاں کوئی کام نہ آئےگا، تیرے ساتھ کوئی نہ جائے گا۔ تو ہوگا اور تیرا ایمان، تیرے اعمال۔
پہلی منزل میں تیرا ٹکٹ پوچھا جائے گا۔ تیرا سامان جانچا جائے گا۔ ذرّہ بھر فرق ہوا کہ بحق سرکار فرق ہوا۔ اس وقت کون بچائے گا، کون ضمانت کرےگا، کون وکالت کرے گا؟ ہاں ہاں سن لے! اس دن ذاتِ واحد مالک شفاعت ہے۔ وہی ضامن حقیقی ہے۔ وہی گنہ گاروں کا وکیل و کفیل ہے۔ اور وہ نہیں ہیں مگر سیّدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وکرم۔ ایسا نہ ہو کہ معاذاللہ تیری ضمانت سے انکار فرما دیں۔ تیری شفاعت سے اِبا کردیں۔ تو بتا خدا کے لئے بتا کہ پھر ان آج کل تیرے طواغیت میں سے کون آگے آئےگا، کون تجھے بخشوائے گا؟ وہ خود جہنم میں پڑے ہوں گے۔ دوزخ کے شب وروزان پر کڑے ہوں گے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔
دعا کر کہ خدا ہم سب کو توفیق خیر دے۔ ہمارے قدم راہِ محبت سیدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ڈگمگانے نہ پائیں۔ ہمارے قلوب کو اپنی اور اپنے محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت و تعظیم سے اوراپنے حبیب علیہِ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام کے دوستوں کی اُلفت و تکریم سے بھر دے۔ اور دشمنانِ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے نفرت و عداوت ہمارے دلوں میں مرکوز کر دے۔ آمین آمین بجاہ حبیبہ ونبیہ الامین المکین علیہ وعلی وآلہ الصلاۃ وا التسلیم الی یوم الدین۔ یہ مبارک فتویٰ اصل تقویٰ بحمدہ تعالٰی اہل فتنہ کی جان پر ضربِ کاری ہے۔ جس سے ان دشمنانِ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر غضب رب طاری ہے۔ اس فتویٰ نے ان پر اللہ کی طرف کی مصیبتیں توڑ دیں، ان کے مکر و فتن کی رگہائے گلو کاٹ کر چھوڑ دیں، سنّیوں کا دل اس سے باغ باغ ہے۔ بے دینان زمانہ کا قلبِ نا پاک داغ داغ ہے۔ مولیٰ عز وجل نافع و مفید بنائے گا۔ اس سعی کو مشکور و مقبول فرمائے گا۔ انشاء اللہ تعالٰی ثم شاء حبیبہ ونبیہہ محمد المصطفیٰ علیہِ التحیّۃ و الصلاۃ و الثناء وعلی آلہ وصحبہ الیٰ یوم الجزا۔ آمین۔
الفقیر الحقیر السید (الحکیم) آل مصطفٰی
المعروف بسید میان القادری البرکاتی القاسمی۔