تفصیل تصغیر
از:- خلیفۂ مظہر اعلی حضرت و مفتی اعظم علامہ بدرالدین احمد صدیقی علیہ الرحمۃ و الرضوان
مسئلہ: مندرجہ ذیل مسائل میں علمائے دین و مفتیان شرع متین کیا فرماتے ہیں
(١) تصغیر کے کیا معنی ہیں اور تصغیر کے کتنے اقسام ہیں؟
(٢)کملیا، چدریا، گگریا، دوریا، نگریا اور ان کے ماسوا اسی طرح کے دیگر الفاظ برائے تصغیر ہیں کہ انہیں؟
(٣) ان الفاظ کا استعمال اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کر سکتے ہیں کہ نہیں؟ یعنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک چادر شریف کو چدریا، مبارک کمبل شریف کو کملیا اور دراقدس کو دوریا، نورانی و عرفانی نگر مقدس کونگریا اسی طرح سرکار ابد قرار صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے منصوب کسی بھی شی کو حتی کہ پاک بارگاہ پاک کے ذروں کو اس طرز وا دا کے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
(٤) اگر ایسے الفاظ استعمال کرسکتے ہیں تو کوئی کراہت ہے کہ نہیں؟
(۵) اگر نہیں استعمال کر سکتے ہیں تو نفی کس درجہ کی ہے؟
۶) ایسے الفاظ کے استعمال کی نفی کا علم ہونے کے باوجود اور عدم علم کی بنا پر استعمال کرنے والے پر توبہ لازم ہے کہ نہیں؟
۷) اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد امجادسادات کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جیسے حسنین کریمین، سرکار غوث اعظم، ہند الولی خواجہ غریب نواز اور دیگر اولیائے کاملین و سالکین و مخدومین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین وارضاہ عناکے لیے چدریا ، کملیا،گگریا، دوریا، نگریا وغیرہ الفاظ استعمال کر سکتے ہیں کہ نہیں؟
۸)مجدد مأۃ ماضیہ سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا اس مسئلے میں کیا موقف ہے۔بالتفصیل مع حوالۂ کتب تحریر فرمائیں تاکہ احقاق اور ابطال باطل ہو جائے۔ اللہ تعالی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین بجاہ حبیبہ وآلہ واصحابہ اجمعین وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم وبارک علیہم۔ (نوٹ) جلد ہی جواب مرحمت فرمائیں تاکہ شعبان کی تعطیل سے پہلے موصول ہوجائے۔
الجواب بعون ربنا الوھاب۔اللھم ھدایتہ الحق والصواب۔
(۱) تصغیر سے مراد:۔وہ لفظ ہے جو کسی شئ کو بے قدر بتانے کے لیے وضع کیا گیا ہو۔تصغیر کا اصل معنی موضوع لہ یہی ہے لیکن کبھی اس کا اطلاق معنی موضوع لہ کے غیر پر بھی ہوتا ہے،اور وہ غیر حب اور تعظیم ہے، حاصل یہ ہے کہ کلمہ تصغیر تین معنی کے لیے بولا جاتا ہے۔ تحقیر، حب، تعظیم۔ ذیل میں سب کی مثالیں لکھی جاتی ہیں۔
(الف) سیٹھ کی تصغیر سٹھلی، پردھان کی تصغیر پردھنلی ، حاجی کی تصغیر حجیا ، مولانا کی تصغیر مولنوا تصغیر کے یہ سب کلمات تحقیر کے لیے ہیں۔
(ب) بچہ کی تصغیر بچوا، بہن کی تصغیر بہنی، بھائی کی تصغیر بھیا تصغیر کے یہ سب الفاظ دلار و پیار کے لیے بولے جاتے ہیں۔
(ج) ناک کی تصغیر ناکڑا تصغیر کا یہ لفظ کسی کی ناک کو بڑی بھاری بھرکم بتانے کے لیے بولا جاتا ہے۔فن منطق میں جزئی کے دو معنی بتائے جاتے ہیں ایک یہ کہ وہ ایسا مفہوم ہے جس کا نفس تصور اس کو کثیرین پر صادق آنے سے مانع ہو۔دوسرا یہ کہ وہ ایسا مفہوم ہے جو کسی عام کے تحت ہو۔پہلے معنی کے اعتبار سے جزئی کا نام جزئی حقیقی ہے۔ دوسرے معنی کے اعتبار سے جزئی کا نام جزئی اضافی ہے۔ تو جس طرح یہاں یہ کہنا درست نہیں کہ جزئی کی دو قسم ہے ایک حقیقی دوسری اضافی چوں کہ جزئی کو مقسم فرض کرنے کی صورت میں اس کا کوئی ایسا عام مفہوم ہرگز نہیں جزئی حقیقی اور اضافی میں مشترک ہو۔یوں ہی زیر بحث مسئلہ میں تصغیر کے لیے کوئی ایسا عام مفہوم ہرگز نہیں جو تصغیر تحقیری، تصغیر حبی، تصغیر تعظیمی میں مشترک ہو اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ تصغیر نہ تو مقسم ہے نہ تو اس کی قسمیں ہیں۔ واللہ تعالی اعلم جل جلالہ و علیہ الصلاۃ والسلام
(٢) کملیا، چدریا ،نگریا وغیرہ سارے مذکورہ الفاظ در سوال دوم قطعی کلمات تصغیر ہیں، واللہ تعالی و رسولہ اعلم جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم۔
(٣) کلمات تصغیر کا استعمال سرکار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں یا سرکار سے نسبت رکھنے والی اشیاکے بارے میں مطلقاً سخت ممنوع ہے۔ پھر اگر وہ کلمات تحقیر کے لیے ہوں تو ان کا استعمال صریح کفر ہے اور اگر پیار و محبت کے لیے ہو تو ان کا استعمال کفر نہیں مگر حرام ضرور ہے۔ واللہ تعالیٰ و رسولہ اعلم جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
(٤) سوال نمبر ۳ میں مذکورہ کلمات تصغیر کا استعمال سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب اشیا کے حق میں ہرگز ہرگز جائز نہیں۔ تحقیرکی صورت میں کفر اور محبت کے طور پر حرام۔ واللہ و رسولہ اعلم جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
(۵) تحقیر کی صورت نہی عن الکفر اور حب کی صورت میں نھی عن الحرام ہے۔ یہاں سائل نے"نہی"کی جگہ" نفی" کا لفظ لکھا ہے جو اپنے محل میں نہیں ہے۔ فلیتنبہ واللہ و رسولہ اعلم جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
(٦) جب شرعی قانون یہ ہے کہ سرکار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اور سرکار سے منسوب اشیا کے بارے میں محبت کے طور پر بھی ممنوع و حرام ہے تو جو شخص واقفیت کے باوجود زیر بحث کلمات تصغیر شان رسالت میں استعمال کرتا رہا یا استعمال کرے وہ شدید فاسق ہے، اس پر فرض ہے کہ وہ بارگاہ احدیت جل جلالہ میں توبہ استغفار کرے اور بارگاہ رسالت علیہ التحیۃ والثناء میں عظمت رسالت کی حق تلفی کی معافی مانگے۔ لیکن جسے زیربحث کلمات تصغیر کے استعمال کی تحریم کی اطلاع نہ تھی اور اس نے نادانستگی میں شان رسالت میں کلمات تصغیر استعمال کیے تو اسے فاسق قرار نہ دیا جائے گا کہ اس نے جان بوجھ کر بالقصد عظمت رسالت کی حق تلفی نہ کی، لیکن اس سے حق تلفی ضرور ہوئی، لہذا سے بھی بارگاہ الہی جل مجدہ میں معافی مانگنا اور استغفار کرنا لازم ہے۔واللہ تعالی و رسولہ اعلم جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم۔
(۷) حضرات سادات کرام بالخصوص امام حسن، امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما، سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ، سرکار خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر اولیائے کرام رضوان اللہ تعالی علیہم یہ سب نفوس قدسیہ سرکار اعظم پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی نسبت رکھنے کے سبب واجب التعظیم ہیں۔ لہذا ان حضرات کی منسوب اشیا کے حق میں بھی کلمات تصغیر کا استعمال ہرگز جائز نہیں۔ واللہ و رسولہ اعلم جل شانہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
(۸) استاذ مشاہیر علمائے ہند حضرت علامہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ عقائد کی جلیل الشان کتاب"المعتقد المنتقد " میں تحریر فرماتے ہیں: "قال بعض العلماء لوقال لشعر النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم شعیرا فقد کفر" بعض علمائے دین نے فرمایا: کہ اگر (کوئی کلمہ گو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس بال کو بلوا کہے تو بے شک کافر ہوگیا، پھر سرکار اعلی حضرت امام بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ مذکورہ بالامتن کے اطلاق کی تقیید فرماتے ہوئے اپنی تصنیف "المستند المعتقد "میں تحریر فرماتے ہیں:(عربی عبارت) یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس مبارک بال کو حقارت کے طور پر اس کی تصغیر کرتے ہوئے بلوا کہنے والا ضرور کافر ہوگیا۔ اور ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ سرکار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی چیزوں کے حق میں تصغیر کا لفظ بولنا ہر طرح ناجائز ہے اگرچہ پیار، محبت کے طور پر ہو بلکہ تصغیر کا لفظ کبھی کبھی تعظیم کے لیے بھی آتا ہے اور اس کی مثال ہماری اردو زبان میں ناکڑا ہے جو ناک کی تصغیر ہے یہ لفظ صرف بھاری بھرکم بڑی ناک پر بولا جاتا ہے اور باوجود اس کے (کہ تصغیر کا لفظ بطور محبت بھی بولا جاتا ہے) مگر پھر بھی معنی وضعی اصل کا دھیان آسکنا اس کو ممنوع و حرام قرار دینے کے لیے کافی ہے اور بےشک مصحف شریف کو مصحفوا کہنے یا مسجد کو مسجدیا بولنے سے علمائے دین نے منع فرمایا ہے۔ لہذا مکھڑاانکھڑیاں اور اس طرح دوسرے کلمات تصغیر جنہیں ہر وادی میں بھٹکنے والے بعض شعرا نے نعت میں گھسیڑ رکھا ہے ان کو (پڑھنے اور سننے سے) پرہیز کرنا واجب و لازم ہے۔
واضح ہوکہ شان نبوت اور ہر معظم دینی اشیا کے حق میں کلمات تصغیر کے استعمال کی ممنوعیت وحرمت کا مسئلہ تنہا خاص سرکار اعلی حضرت کا موقف نہیں بلکہ پیشوان دین اہل حق ارباب بصیرت علمائے اسلام کا موقف ہے جیسا کہ خود سائل عزیز گرامی قدر نے علمائے دین کے ارشاد کو ملاحظہ کرلیا کہ نبی کے مبارک بال کو بلوا کہنے والا کافر ہوگیا اور مصحف کو مصحفوا کہنا نیز مسجد کو مسجدیا بولنا ناجائز ہے۔ہاں فرق یہ ہے کہ علما کے اقوال میں کلمات تصغیر کا ضمنی تذکرہ ہے اور امام بریلوی کے ارشاد میں ضابطہ کلیہ کا بیان اور اس کے بعض جزئیات کی تفصیل ہے لہذا کسی سر پھرے "بددماغ" کوڑھ مغز شان رسالت وعظمت نبوت کی نوک پلک سے نابلد مولوی ملا پیرو فقیر کو یہ کہنے کی ہرگز گنجائش نہیں کہ زیربحث کلمات تصغیر کے استعمال کی حرمت کا مسئلہ اتنا اہم نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ تو تنہا مولانا شیخ احمد رضا خان صاحب کی انفرادی رائے ہے۔ جس کاجی چاہے اس کو قبول کرے اور شان رسالت کے حق میں کلمات تصغیر بولنے سے پرہیز کرے اور جس کا جی چاہے اس مسئلہ کا انکار کرے کے بے روک ٹوک شان نبوت میں کلمات تصغیر کا آزادانہ استعمال کرے۔ تو اب کہنا یہ ہے کہ زیر بحث مسئلہ ہرگز ہرگز سرکار اعلی حضرت امام بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایجاد نہیں بلکہ اسلام کا عقیدۂ دینیہ ہے جو متعدد آیات قرآنیہ سے ماخوذ ہے۔ ھذاما عندی والعلم عند ربی ثم عند رسولہ جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وبارک وسلم۔
کتبہ : بدر الدین احمد القادری الرضوی من المدرسین بالمدرسۃ الغوثیۃ فی بڑھیا بستی ،۲۲ رجب المرجب ۱٤٠٩ھ
(فتاوٰی بدرالعلما، صفحہ ٣٠٩)
No comments:
Post a Comment