async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: Mahnama Hashmat Ziya Urdu (89)

Tuesday, June 7, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (89)

 ترقی کا راز

از- خلیفۂ مظہر اعلی حضرت اطیب العلماء رضی المولیٰ عنہ


اے نئی روشنی کے دلدادہ مسلمانو! ادھر ادھر بھٹکتے کیوں پھرتے ہو! ہمسایہ قوموں اور مشرکین و کفار اعداء و اغیار کی دنیوی ترقی پر للچائی ہوئی نظریں کیوں ڈالتے ہو۔ آہ ان کی ترقی دنیوی ترقی ہے ابھی آنکھ کھلی کل سویرا ہے۔ ان کے وجود اور ان کی ساری ترقیوں سے ان کی آخرت کو کچھ فائدہ نہیں ان کی ترقی انہیں  تک محدود و محصور رہتی ہے۔ پھر وہ تو اپنے دین اور دھرم سے بالکل الگ ہوکر اپنے مذہبی احکام کو بالائے طاق رکھ کر ترقی کررہے ہیں مگر تمہارا دین اسلام تو مکمل دین ہے اور آج مکمل نہیں ہوا بلکہ آج سے تیرہ سو برس سے بھی پیش تر مکمل ہو چکا۔"الیوم اکملت لکم دینکم وانممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا" سے کون واقف نہیں؟ تمہارے دین نے اور دینوں کی طرح  تمہیں دنیوی ترقی سے  روکا نہیں بلکہ دنیوی ترقی اور فلاح و بہبود کے ایسے ایسے اصول و آئین بتاۓ کہ دنیا والے حیران رہ گئے  بلکہ اسی دین کے سلک مروارید میں منظم ہوکر خود بھی مروارید کی طرح چمکے مگر اس کا کیا علاج کہ ہم سایہ قوموں اور مغربی تہذیب کی تقلید کرکے مذہب و ملت سے الگ تھلگ رہ کر خربوزے کی طرح رنگ بدل کر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تم نے دیکھ لیا کہ دوسری قوموں نے اپنے دین اور دھرم سے علاحدگی اختیار کر کے ترقی کی ہے۔


     لہذا ضروری ہے کہ تم بھی اپنے دین و ملت کو بالائے طاق رکھ کر ہی ترقی کر سکتے ہو، اگر خدانہ خواستہ واقعی یہی بات ہے کہ تم بھی ایسی ہی ترقی چاہتے ہو جیسی غیر قوموں نے کی تو پھر تو اسلام کی ترقی نہ ہوگی بلکہ محض دنیوی ترقی ہوگی اور وہ بھی ایسی جو صرف تمہاری ہی ذات تک محدود رہے گی پھر کیوں شور مچاتے ہو کہ ہم اسلام کی ترقی چاہتے ہیں؟ اسلام کو سربلند دیکھنا پسند کرتے ہیں پھر کیوں گلے پھاڑ پھاڑ کر چلاتے ہو کہ ہم اسلام کی آزادی کے خواہاں ہیں؟صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ ہم دنیا کی آسودگی چاہتے ہیں؟کیوں نہیں کہتے کہ روٹی کی ترقی چاہتے ہیں پھر ترقی اسلام کا نام کیوں بد نام کرتے ہو تمہاری روٹی کی ترقی سے دین و اسلام ومذھب و ملت کو کیا فائدہ؟ تمہاری موت اور زیست دونوں اسلام کے لئے برابر ہیں تم زندہ رہے تو اسلام کا کیا نفع اور مرگئے تو کیا نقصان؟ نہیں نہیں بلکہ دین اسلام کا بے داغ اور پررونق دامن تمہاری ناخلقی اور بد اطواری کی وجہ سے داغ دار ہو رہا ہے۔ غیر قومیں تمہاری صورت و سیرت کو دیکھ کر تم پر نہیں بلکہ ظلما اسلام پر خندہ زن ہیں اصل بات تو یہ ہے کہ تم نے احکام خداو فرامین مصطفی جل جلالہ وصلی تعالی علیہ وسلم کو پس پشت ڈال دیا۔ اسوۂ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم تمہارے پیش نظر نہیں رہے سوانح آباؤاجداد تمہارے دلوں سے نکل گئی اور ساری تباہیوں اور بربادیوں کی اصل یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت نہ رہی۔


حالانکہ تمہیں حکم یہ ملا تھا کہ۔


لایومن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین (وفی روایۃ) ومن نفسہ۔

    تم میں کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو باپ بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ بلکہ اسکی جان سے بھی زائد محبوب نہ ہوجاؤں۔


    ہاں ہاں جس سر میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جس دل میں داغ محبت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مرتسم نہیں وہ سر اور دل واقعی اس بات کے قطعی اہل ہیں کہ ان کو جیتے جی جہنم میں جھونک دیا جائے اگر آج تم تمام ضروریات دینیہ پر اس طرح ایمان لے آئے کہ دل سے ان کی تصدیق اور زبان سے اقرار کرلیا اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بالکل سرشار ہو گئے ایسے کہ ان کی عزت و عظمت اور شان و شوکت کے مقابلے میں باپ دادا بھائی بہن خویش واقرباپیر و استاد وغیرہ وغیرہ ان میں سے کوئی بھی مقابل آ جائے تو تم ان کے مطلقاً پرواہ نہ کرو جب تمہارا عشق اس درجہ کامل ہو جائے گا تو یہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمہاری تمام دینی و دنیوی مشکلات کا حل کردیگا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو گی تو ان کے ارشادات و فرامین  کی تعمیل ضرور تمہاری طبیعت ثانیہ بن جائے گی کیونکہ کون ایسا محب ہے جو اپنے محبوب کے ارشاد کی بجا آوری میں ذرہ برابر بھی تاخیر کرے گا۔ تو اب ان کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے بعد محال ہے کہ کوئی خیروبرکت تمہارا استقبال نہ کرے خواہ وہ دنیوی ہو یا اخروی ذرا تم عمل کر کے تو دیکھو‌۔ ایک سلطنت کیا چیز ہے خدا کی قسم دنیا کی ساری طاقتیں تمہارے گھر کی لونڈی اور اقوام عالم تمہارے در کے ادنی غلام ہو جائیں گے۔ (انشاءاللہ)


      اسی کو تو علمائے اہل سنت رو رہے ہیں کہ تم شور مچاتے پھرتے ہو کہ مسلمان ذلیل ہوگئے مسلمان تباہ ہوگئے مسلمان محکوم ہو گئے۔ مسلمانوں کی عزت و وقعت جاتی رہی مسلمانوں کی حکومت و سلطنت نابود ہوگئی یہ سب کچھ کہتے ہو مگر اس مصیبت سے نجات کا جو طریقہ ہے اس سے متنفر ہو اس سے دور بھاگتے ہو شریعت مطہرہ کی پابندی کو تم موت تصور کرنے لگے  احکام خدا سے پہلو تہی کرنا شروع کر دی فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جان چرانے لگے یہی نہیں بلکہ اب تو تم دشمنان خدا و رسول (جل جلالہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو دوست بنانے  لگے اللہ کے دوستوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوں سے تمہیں عداوت ہو گئی۔ 


آہ آہ ازضعف اسلام آہ آہ 

آہ آہ اے نفس خود کام آہ آہ 


مرد مان شہوات راد یں سا ختند 

صد ہزاراں خنہا اند اختند 


الخدر اے دل زشعلہ زاد گاں

پاۓ ازز نجیر شرع آزاد گاں 

از اعلی حضرت بریلوی رضی المولیٰ عنہ


علمائے حقانی یعنی اطباۓ روحانی اس مرض کا علاج بتاتے ہیں مگر تم ہو کہ مرض کی شدت پر شور مچاتے ہو۔ اور علاج سے کوسوں دور بھاگتے ہو۔ یاد رکھو کہ اس مصیبت کا واحد علاج وہی ہے جو علمائے اہلسنت نے بتایا یعنی شریعت مطہرہ پر شدت کےساتھ پابندی اور فرامین مصطفویہ کے مقابلے میں سارے عالم سے بے زاری کا جذبہ خواہ وہ تمہارا باپ ہو یا دادا ،بیٹا ہو یا پوتا۔خویش و اقربا ہوں یا احباب و استاذ ہوں یا پیر ہاں ہاں تم سمجھو یا نہ سمجھو دین  متین سے تمہاری اس آزادی اور شتر بے مہاری کا یہی ایک علاج ہے اس نصب العین سے ہٹ کر تم جو کچھ سعی و عمل کروگے وہ دراصل ذلت و خواری ہے۔ تباہی و بربادی اور موت و استہلاک ہے۔ہاں ہاں اگر  تم نے اپنی جانی و مالی کوششوں سے اسلام کو سربلند کردیا اگر تم نے اسلام کو معراج کمال پر پہنچا دیا اور اپنی ترقیوں کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کی ترقی کے لئے کوشاں رہے تو اس میں ضرور تمہاری دنیاوی اور اخروی ترقی کا راز مضمر ہے۔اسی میں تمہاری فلاح و بہبود کا سر عظیم

مستور ہے۔اغیار اور ہمسایہ قوموں کو تو ان کے دین اور دھرم نے دنیوی ترقی سے روکا ہے۔ بلکہ بالکل بے بہرہ رکھا ہے‌‌۔ نہیں بلکہ دنیوی ترقی کو دینی عروج کے حق میں بہت بڑا سد راہ سمجھا ہے‌۔ اگر آج ہمسایہ قومیں اپنے اپنے مذھب کے احکام پر کامل پابندی کے ساتھ عمل کرنے لگیں، تو خدا کی قسم آج ہی وہ کھلم کھلا ذلیل ترین مخلوق ہو کر رہ جائیں اور یہ ذلت و خواری ان کے گلے کا طوق اس لئے اور صرف اس لئے ہوگی کہ ان کا دین مکمل نہیں ہے اسی لئے تو انہوں نے اپنے دین ہی کو خیرباد کہہ کر ہمیشہ کے لئے چلتا کر دیا۔ مگر تمہارا اسلام تو مکمل دین ہے کیوں نہ اسی سے ترقی کا راز پوچھو؟   کیوں نہ اپنے درد دل کو پیش کر کے اسی سے در مان طلب کرو، ہاں ہاں اسلام ہی وہ مکمل دین ہے جو اپنے دامنوں میں دینی و دنیوی ترقی اور ہر قسم کی فلاح و بہبود کو لئے ہوئے ہے۔ مگر اس سے کوئی پوچھے بھی تو شاید مقصود یوں ہی  تو حاصل نہیں ہو جایا کرتا۔


قرآن عظیم میں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:۔

  

وَ  لَا  تَهِنُوْا  وَ  لَا  تَحْزَنُوْا  وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ


 اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ! تمھیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔

 ایمان شرط اور اسکی جزا علو ہے۔ شرط کو چھوڑ کر جزا کا طالب ہونا انتہائی نادانی ہے۔ پوری بھول ہے۔ کام چوری کا ڈھنگ ہے اور ایسا ہی ہے جیسے بغیر وضو کے نماز کے لئے کھڑا ہو جانا اور ظہر کے وقت مغرب کی نماز پڑھ لینا کہ دیکھنے میں تو نماز ہے مگر درحقیقت نماز ہی نہیں، روٹی نہ کھانا پانی نہ پینا اور کہنا کہ یوں ہی پیٹ بھر جائے گا پیاس بجھ جائےگی کون سی عقل مندی ہے؟ کھانا پانی بھوک اور پیاس کی مصیبت کو دفع کرنے کے لئے عالم اسباب میں باذن الہی بمنزلہ شرط کے ہے۔شرط کے بغیر مشروط کا خواہاں ہونا نفس کو دھوکہ دینا نہیں تو اور کیا ہے۔؟  اسی لئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے علو کے لئے ایمان کی شرط لگادی ہے۔جب تک ایمان نہیں۔جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کادامان عالی ہاتھ میں نہیں جب تک ان کا اسوۂ حسنہ پیش نظر نہیں جب تک احکام شریعت مطہرہ ملحوظ خاطر نہیں کسی قسم کا غلبہ و کامیابی ممکن نہیں، کسی قسم کی فلاح و بہبود اور کامرانی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ ذلت وخواری کا واحد علاج ایمان ہے‌۔ پستی و تنگدستی کا مجرب تریاق ایمان ہے۔ہر قسم کی پیچیدگیوں کا سلجھانے والا ایمان ہے، ساری کشمکشوں سے نکال کر  دینی و دنیوی ترقی کے بام کمال پر پہو نچانے والا ایمان ہے، بلکہ فی الحقیقت دنیا و آخرت کی ہر خیر و 

برکت ہر فوز و فلاح ہر فتح و نصرت ہر قسم کی کامیابی و کامرانی کا موجب ایمان ہے۔ اگر ایمان نہیں،اگر دامن محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہاتھوں میں نہیں اگر اسوۂ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ پیش نظر نہیں اور احکام شریعت مطہرہ پر عمل نہیں بلکہ الٹی انکی تذلیل و تضحیک کی جارہی ہے۔  تو حکومت کچھ نہیں، جدوجہد، کچھ نہیں۔ سعی و عمل کچھ نہیں،خدمت خلق کچھ نہیں،تنظیم کچھ نہیں،اتحاد  کچھ نہیں سب بے سرے راگ ہیں سب جہنم کی تیاریاں ہیں یہ سب خودکشی اور استہلاک ہیں۔سب موت کے ساتھ لہوولعب ہیں۔ان سے پیٹ کا دوزخ تو بھر جائے گا تن لباسی بظاہر اچھی طرح ہو جائیگی،دنیوی زندگی بظاہر اچھی طرح گزر جائے گی۔ مگر اسلام ترقی  پذیر ہر گز نہیں ہو سکتا۔ان سے مسلمانوں کی بہتری ہر گز نہیں ہو سکتی۔


وما علینا الاالبلاغ

No comments:

Post a Comment