٧٨٦/٩٢
شفاعت کے اقسام
از-علامہ فضل حق خیرآبادی رضی المولیٰ عنہ
شفاعت،سفارش کو کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
(١) گناہوں کی بخشش کے لئے۔
(٢) مراتب کی بلندی کے لئے۔
ایک شخص دوسرے کے سامنے کسی کی سفارش کرتا ہے تو وہ اس لئے مقبول و منظور ہوتی ہے کہ پہلے شخص کو دوسرے کے سامنے عزت و شرافت حاصل ہوتی ہے عزت وہ شرافت کی چند وجہیں ہوتی ہیں۔:
شفاعت وجاہت
۱ جس کے پاس سفارش کی گئی ہے اس نے سفارش کرنے والے کو اپنی بارگاہ میں قرب عطا کیا ہے اور اپنے متعلقین میں اسے عزت و امتیاز بخشا ہیں۔ ان عزتوں میں سے ایک یہ ہے کہ دیگر ماتحت افراد کے مراتب کی بلندی اور گناہگاروں کی معافی کے لئے اسے بات کر نے کی اجازت ہے، اس کی عرض قبول کی جاتی ہے اور اس کی سفارش معنی جاتی ہے اگر اس معزز شخصیت کی عرض اور سفارش کو نہ مانا جائے تو اس کے رنجیدہ ہونے میں اس شخص کو (جس کی بارگاہ میں سفارش کی گئی ہے) کوئی رنج یا نقصان نہیں پہنچے گا لیکن اس کی عرض کو نہ ماننا اور اس کی بات کو اہمیت نہ دینا اس عزت افزائی اور بندہ نوازی کے خلاف ہے جو اس شخص کو دی گی ہے، یہ شفاعت وجاہت ہے۔ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ جس کے پاس سفارش کی گئی ہے، اسے سفارش کر نے والے کی ناخوشی سے خطرہ ہو اور سفارش قبول نہ کر نے کی صورت میں نقصان کا خوف ہو کیونکہ شفاعت کا معنی سفارش اور وجاہت کا معنی لحاظ اور عزت ہے، کسی لفظ سے ڈر اور فکر نہیں سمجھا جاتا۔
بایں ہمہ ہر شخص جانتا ہے کہ شفاعت اور سینہ زوری الگ الگ ہیں سفارش میں سينہ زوری نہیں ہوتی، اگر کوئی شخص کسی کی بات نقصان یا ضرر کے ڈر سے مانتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے سفارش مان لی، یہ سفارش کا ماننا نہیں بلکہ اپنے نقصان اور ضرر کو دور کر نا ہے، اسے اطاعت کہا جا سکتا ہے کیونکہ نافرمانی کی صورت میں نقصان کا خوف ہوتا ہے، سفارش قبول کر نے میں کوئی خوف شامل نہیں ہوتا مثلاً ایک صاحب اقتدار بادشاہ اپنے ہمنشینوں میں سے کسی کو اتنا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے کہ اسے حاجت مندوں کی حاجتیں پیش کرنے اور مجرموں کے لئے معافی چاہنے کی اجازت ہے، اسے دوسروں کی نسبت یہ خصوصیت حاصل ہے، وہ شخص بادشاہ سے کسی ایسے گناہ کے بخشنے کی درخواست کرتا ہے جسے بخش دینا بادشاہ سے بعید نہیں ہے، بادشاہ اس کے جاہ و منزلت کا لحاظ کرتے ہوئے وہ گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس مقرّب کی سفارش قبول کر کے اس کی عزت افزائی کرتا ہے تو نہیں کہا جا سکتا کہ بادشاہ نے اپنے کار خانۂ سلطنت میں خلل کے خوف سے سفارش قبول کی ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ بادشاہ نے اپنے مقرّب ترین خادم کے مقام کی رعایت اور اس کی دلداری کے لئے اس کی سفارش قبول کی ہے اور مجرموں کے گناہ معاف کر دئے ہیں اور اگر کوئی شخص برائے نام بادشاہ ہو اور امور مملکت کے بست و کشاد اور قوانین سلطنت کے نفاذ کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، دوسرے لوگ حکومت کے تمام شعبوں پر مسلط ہوں، ملک کے بست و کشاد اور نظم و ضبط پر مکمل اختیار رکھتے ہوں۔ ان ارباب اقتدار میں سے کوئی شخص برائے نام بادشاہ سے کسی مجرم کی معافی کا مطالبہ کرتا ہے اور بادشاہ اس خوف سے کہ اگر اس کے کہنے پر عمل نہ کیا تو اس سے ضرر پہنچے گا یعنی ظاہری حکومت بھی جاتی رہے گی، اس کے کہنے پر عمل کرتا ہے اور مجرم کا گناہ معاف کر دیتا ہے تو نہیں کہا جا سکتا کہ بادشاہ نے اس کی شفاعت قبول کرلی ہے بلکہ بادشاہ فی الواقع ان لوگوں کا تابع اور پابند ہے اور ان کی بات ماننے پر مجبور ہے، اسے فرمانبرداری اور اطاعت تو کہا جا سکتا ہے، قبول شفاعت نہیں کہا جاتا سکتا۔
اس تقریر سے واضح ہو گیا کہ وجاہت و عزت، خوف اور اندیشہ کے بغیر قبول شفاعت کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ تو ہوئی عقلی دلیل، اب سنئے نقلی دلیل۔ اللہ تعالٰی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان میں فرماتا ہے اور دنیا و آخرت کی وجاہت سے ان کی تعریف فرماتا ہے:
وجیھا فی الدنیا والآخرۃ و من المقربین
"دنیا اور آخرت میں وجاہت (عزت) والے اور مقربین میں سے ہیں۔ "
مفسرین اخروی وجاہت کو شفاعت پر محمول فرماتے ہیں - علامہ بیضاوی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں،:
الوجا ھۃ فی الدنیا النبوۃ و فی الآخرۃ الشفاعۃ
"یعنی وجاہت دنیا میں نبوّت ہے اور آخرت میں شفاعت"
شفاعت محبت
جس کے پاس سفارش کی گئی ہے اسے سفارشی سے محبت ہو، محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کی رضا جوئی اور ہر طرح اس کے دل کو خوش کرنا منظور ہوتا ہے، دل شکنی اور رنج کے اسباب اس سے دور رکھے جاتے ہیں کیونکہ محب محبوب کی دل شکنی بلکہ دوست دوستوں کا دل دکھا نے کے روادار نہیں ہوتے، اہل محبت محبوبوں کی دل آزاری گوارا نہیں کرتے، ان کی فرمائش قبول کرتے ہیں اور اکثر اُن کی سفارش قبول کرنے میں یہ امر ملحوظ نہیں ہوتا کہ اگر ان کی سفارش قبول نہ کی گئی تو غیظ و غضب میں آکر ان کو رنجیدہ کر سکتے ہیں یا غصہ میں آکر ان کے دلوں کو صدمہ پہنچا سکتے ہیں کیونکہ دلداری، محبت کا تقاضا ہے اور محبوب کی بات مان لینا اس صفت کو لازم ہے، یہ حال اس شخص سے پوچھا جا سکتا ہے جو محبت رکھتا ہو، یہ حقیقت عقلاً اور نقلاً ثابت ہے۔
عقلی ثبوت تو بیان ہو چکا، نقلی ثبوت ملاحظہ ہو، حضور سید عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"بہت سے گرد آلود بالوں والے، خاکسار، جن کے پاس دو پُرانی چادروں کے علاوہ کچھ نہ ہو اور جنہیں کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو ایسے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالٰی کے حق میں قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کردے گا۔ "
یعنی اللہ تعالیٰ اُن کی دلداری کرےگا اور جس بات کی انہوں نے قسم کھائی ہے اسے پورا کردے گا اور ان کی خواہش رد نہیں فرمائے گا۔
غور کیجئے! یہ تمام تقاضاۓ محبت ہے ورنہ یہ خاکسار، اللّٰہ تعالیٰ کو کونسا رنج یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟
ہاں بارگاہ ایزدی کے محبوبوں کی شان وہ ہے جو حدیث قدسی میں وارد ہوئی ہے:
جب میں اس بندے کو محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے (اور ایک روایت میں ہے) اس کی زبان ہوتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے (یعنی ان کے اعضاء میری قدرت کے مظہر اور میری رضا کے پابند ہوتے ہیں)
اس حدیث قدسی کی بنا پر محبوبان الٰہی کے قرب، عزت اور ان کی محبوبیت کے آثار پر ایمان لانا چاہئے۔ شفاعت کی مقبولیت کی دیگر وجوہ بھی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ سفارش کرنے والے کو متشفع الیہ (جس کے سامنے سفارش کی گئی) کے نزدیک عزت اور امتیازی مقام حاصل ہوتا ہے چونکہ ان وجوہ کا تعلق اس مقام سے نہیں ہے اس لئے اسی بیان پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
اس تمہید کے بعد سنیے!
اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں تمام مخلوق انسان ہوں یا فرشتے، نبی ہوں یا امتی، بادشاہ ہوں یا خدام، جہاں تک بندگی کا تعلق ہے یکساں نسبت رکھتی ہے(یعنی سب اسی کے بندے ہیں) کسی کو کسی لحاظ سے اس کے ملک و اقتدار میں شرکت یا اس کے ارادہ و اختیار میں مزاحمت یا اس کے حکم اور فعل میں تاب مقابلہ نہیں ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کائنات میں تصرف فرماتا ہے، اس کا نہ کوئی شریک ہے، نہ ہمسر، نہ مددگار ہے نہ کارساز، اسے کسی وزیر کی امداد اور کسی مددگار کے تعاون کی حاجت نہیں ہے، کسی کی رضا اور خوشنودی سے اس کی مملکت میں رونق کا اضافہ نہیں ہوتا، نہ ہی کسی کی ناراضگی سے اس کے کارخانۂ حکمت میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
ہاں اس نے اپنی مخلوق کو مختلف مراتب اور مقامات دے کر پیدا کیا ہے، ان کے مراتب و درجات میں بہت فرق رکھا ہے، بعض کو برگزیدہ اور بارگاہ قدس کا مقرب بنایا اور بعض کو مردود، ذلیل اور گمراہ کیا، دونوں قسموں میں مختلف مراتب اور متفرق درجات رکھے اور اپنی بارگاہ کے مقربین کو ان کے درجات کے مطابق مقام و مرتبہ عطا فرمایا ان میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ کے مطابق عزت و کرامت عطا فرمائی، ان میں سے ہر ایک کو بارگاہ الٰہی میں جتنی عزت اور خداوندی محبت ہے، اس کے مطابق ان کے وابستگان اور متوسلین کی دینی اور دنیاوی حاجتوں کے بارے میں ان کی سفارش قبول فرماتا ہے اور اپنی بارگاہ کے مقربین کو ان کے مراتب کے مطابق اجازت عطا فرماتا ہے کہ اپنے متعلقین اور متوسلین کے لئے دنیا و آخرت میں مصیبت اور عذاب کے دفع کرنے اور منافع کے حصول کے لئے سفارش کریں، اس عزت افزائی کے ذریعے انہیں مخلوق میں ممتاز فرماتا ہے۔
اسی لئے اکثر لوگ ہر دو جہان کی حاجتوں میں ان سے شفاعت اور سفارش کے طلبگار ہوتے ہیں اور ان مقربین کی شفاعت کے فیض سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے اور ہوتے ہیں اور ہوں گے، ان کی شفاعت اکثر مقبول ہوتی ہے اور قول و فعل سے ان کی ایذا، رسانی اور بے ادبی کے درپے ہونے ولے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہو کر دین و دنیا کو برباد کر چکے اور کرتے ہیں اور کریں گے چونکہ بارگاہ الٰہی میں مقربین کی عزت و وجاہت ان کی شفاعت اور اُن کے سوال کی قبولیت کا سبب ہے اسی لئے دوسروں کی نسبت صالحین کی دعائیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ازراہِ عناد یہ بات نہ مانے یا بدعقیدگی کی بنا پر اسے شک لاحق ہو تو اسے کتب صحاح میں حضور سید عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ اسے معلوم ہو کہ جن حضرات نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے دعا کی گذارش کی یا شفاعت کی درخواست کی وہ دنیا و آخرت میں خیرات و برکات سے مالا مال ہوۓ اور جو لوگ درپۓ ایذا اور بے ادبی ہوئے وہ ہلاکتوں میں گرفتار ہوئے اور جہنم کے نچلے طبقوں میں داخل ہوئے۔
(تحقیق الفتوی شریف)
No comments:
Post a Comment