زیارت کے فضائل و فوائد
از:- علامہ ابن حجر مکی رضی ﷲ تعالٰی عنہ
زیارت قبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں واضح دلائل اور تائیدات ظاہرہ ہیں جو کہ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اور کچھ ہم نے پہلی فصل میں بیان کئے ہیں کہ بلا شبہ یہ زیارت مشروع و مطلوب ہے اور یہ کامیاب مساعی' اہم ترین قربات اور افضل اعمال اور پاکیزہ ترین عبادات میں سے ہے اور اس کے ثمرات و فوائد اور ثواب کا تفاوت' درجات کا تبائن اور جو کچھ فضائل آنے والے ہیں جو کوئی ان میں غور و فکر کرے تو اسے علم ہو جائے گا کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے عظیم فوائد ہیں اور ہر ہر اس شخص کو پہنچتے ہیں جو کہ اخلاص کے ساتھ ان اعلیٰ مقاصد کا قصد کرے اس میٹھے گھاٹ سے پانی پینے کا ارادہ کرے۔
اس سلسلے میں بہت ساری صحیح وغیرہ احادیث مروی ہیں جن میں سے کچھ پہلی فصل میں گزریں جو کہ فضائل عظیمہ کی حامل ہیں جو زائر کو حاصل ہوتے ہیں۔ کچھ مضائقہ نہیں کہ ان میں اس کچھ کا بیان یہاں دوبارہ کر دیا جائے تاکہ ان کے فضائل دوبالا ہو جائیں۔
۱ - رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان علی شان ہے۔
جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
کا معنی یہ ہے کہ اس کے لئے یہ سچا وعدہ ضروری ہو گیا اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا فائدہ آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی عمومیت کے ساتھ ساتھ جو کہ زائر اور غیر زائر دونوں کے لئے ہے۔ زائر کے لئے اس اس عظیم فعل کے سبب آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت مخصوص ہو گی۔ يا یہ نعمت کے زیادہ ہونے کا سبب ہے یا پھر روز حشر وغیرہ کے احوال میں تخفیف ہو گی یا پھر اس خصوصی شفاعت کے سبب اس کا حشر ان لوگوں کے ساتھ ہو گا کہ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ یا اس شفاعت سے مراد یہ ہے کہ جنت میں اس کے درجات بلند کئے جائیں گے۔ یا پھر دیدار خدا وندی کی خصوصی نعمت سے سرفراز کیا جائے گا۔ اور اس کے علاوہ وہ ان چیزوں کا مستحق ٹھہرے گا کہ جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں اور نہ ہی کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشر کے قلب پر وارد ہوئی ہیں۔ یہ تمام شفاعتیں اور برکتیں اسی کے لئے ہوں گی نہ کہ اس کے غیر کے لئے۔ اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ جو شفاعت دوسروں کے لئے عام ہوں گی۔ اس کے لئے علیحدہ ہوں گی اور یہ اس کا افراد اس کی بزرگی اور شرف کے لئے ہوگا اور یہ تقویت زیارۃ کے سبب ہو گی۔ يا مراد یہ ہے کہ وہ اس زمرہ میں شامل ہو جائے گا جس کو آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت پہنچے گی تو اس کے لئے یہ بشارت ہے کہ وہ مسلمان فوت ہو گا یعنی اس کا خاتمہ بالخیر ہو گا۔ جس میں اس کا حکم عموم پر ہو گا نہ کہ اس میں اسلام پر وفات کے شرط مضمر ہے اگر ایسا ہوتا تو زیارت کا ذکر نہ کیا جاتا۔ کیونکہ اسلام تو اکیلا ہی شفاعت کے پہنچنے کے لئے کافی ہے۔ بخلاف پہلوں کے۔ اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا زائر کے لئے خصوصیات سے فرمانا کہ اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ تو یہ شفاعت عظیمہ و جلیلہ اس عظیم شافع صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم پر مبنی ہے اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے کوئی عظیم نہیں ہے اور نہ ہی آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے کسی کی شفاعت بڑی و بزرگ ہے۔
۲- آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک
جس نے میرے وصال کے بعد میری زیارت کی گو یا کہ اس نے میری حیاتی میں میری زیارت کی۔
۳ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ جو کوئی میرے پاس آیا اور اسے سوائے میری زیارت کے اور کوئی کام نہ ہو تو مجھ پر اس کا حق ہے کہ قیامت کے دن میں اس کی شفاعت فرماؤں۔
۴ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ
جو کوئی میری زیارت کے لئے آیا تو اللہ تعالٰی کے ذمّہ (کرم) پر ہے کہ میں قیامت کے دن اس کا شفیع ہو جاؤں۔
اس کا معنی پہلی فصل میں گزر چکا ہے۔ اور عنقریب نویں فائدہ سولہویں خاتمہ اور چھٹی فصل میں آئے گا۔ جو کہ اس کے متعلق ہے۔
حاصل کلام:- یہ ہے کہ یہ عظیم ثواب اور فوز و کامرانی اس شفاعت عظیمہ سے ہے جو کہ آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہے اور صرف اسے ہی حاصل ہو گی جو اپنے چہرے کو اخلاص کے ساتھ آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف کر دے اور اس کے ساتھ کسی قسم كا کوئی اور قصد یا کام نہ ہو جو کہ اس کے منافی ہو۔
۵ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان کہ
جس نے حج کیا اور میرے وصال کے بعد میری زیارت کی وہ ایسا ہی ہےگو یا کہ اس نے میری حیات میں میری زيارت کی۔
۶ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان کہ
کہ جس نے حج کیا اور میری قبر منورہ کی زیارت کی وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے میری ظاہری زندگی میں میری زیارت کی اور میری صحبت میں رہا۔
۷ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان کہ
جس نے حج کیا اور میری مسجد میں میری زیارت کی گو یا کہ اس نے میری (ظاہری)حیاتی میں میری زیارت کی۔
۸ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان کہ
جس نے مدینہ میں آکر میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔
۔
۹ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس نے میری قبر کی زیارت کی (یا فرمایا) جس نے میری زیارت کی میں اس کا شفیع و گواہ ہوں گا اور جو دونوں حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اللّٰہ عز وجل اس کو روز قیامت امن والوں میں اٹھائے گا۔
۱۰ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قصداً میری زیارت کی یعنی اور کوئی اسے کام نہ ہو سوائے میرے قصد کے (جیسا کہ حدیث نمبر ۴ میں گزرا) وہ قیامت کے روز میرا ہمسایہ ہوگا۔
۱۱- جس نے مدینہ شریف میں سکونت اختیار کی اور اس کی تکلیفوں پر صبر کیا میں قیامت کے دن اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا۔
۱۲ - آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
جس نے میری زیارت میرے وصال کے بعد کی گویا کہ اس نے میری(ظاہری) حیاتی میں میری زیارت کی اور جو دونوں حرموں میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہوا اس کو قیامت کے دن آمنین میں سے اٹھایا جائے گا۔
۱۳ - آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے
جس نے حج مبرور ادا کیا اور میری قبر کی زیارت کی اور جہاد کیا اور بیت المقدس میں نماز پڑھی تو اللہ تعالٰی اس کو فرائض کے بارے میں نہ پوچھے گا۔
۱۴ - اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جس نے میری زیارت میرے وصال کے بعد کی گویا کہ اس نے اس حالت میں میری زیارت کی کہ میں(چشم عالم میں) زندہ ہوں اور جس نے میری زیارت کی میں اس کا قیامت کے روز گواہ اور شفیع ہوں گا۔
۱۵ - اور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
جس نے مدینہ شریف میں میری زیارت کی میں اس کا قیامت کے دن گواہ اور شفیع ہوں گا۔
۱۶ - رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا
جو دونوں حرموں میں سے کسی حرم میں فوت ہوا اللّٰہ تعالٰی قیامت کے دن اس کو آمنین میں سے اٹھائے گا۔ اور جس نے مدینہ میں نیکی اور ثواب سمجھتے ہوئے میری (قبر کی) زیارت کی وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ ہو گا۔
۱۷ - اللّٰہ کے حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس نے میری زیارت میرے وصال کے بعد کی گو یا کہ اس نے مجھے زندہ دیکھا اور جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو گئی اور میری امت میں جس کسی کو طاقت و وسعت ہو اور اس کے باوجود اگر اس نے میری زیارت نہ کی تو اس کے لئے کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔
۱۸ - محبوب رب العالمین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے۔
جس نے میرے وصال کے بعد میری زیارت کی گو یا کہ اس نے میری حیاتی میں میری زیارت کی اور جو زیارت کے لئے میری قبر تک پہنچا قیامت کے روز میں اس کا گواہ (یا فرمایا) شفیع ہوں گا۔
۱۹ - سید المرسلین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس نے مکہ شریف میں حج کیا پھر میرے ارادے سے میری مسجد میں آیا اس کے لئے دو مبرور حجوں کا ثواب لکھا گیا۔
۲۰ - خطیب الانبیاء صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس نے میرے(ظاہری) انتقال کے بعد میری زیارت کی گو یا کہ اس نے میری حیات میں میری زیارت کی اور جس نے میری قبر کی زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔
۲۱ - امام الانبیاء صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جو مدینہ شریف میں میری زیارت کے لئے آیا قیامت کے دن اس پر میری شفاعت واجب ہو گئی اور جو دونوں حرموں میں سے کسی ایک حرم میں فوت ہوا وہ قیامت کے دن امن والا ہو گا۔
(الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم)
No comments:
Post a Comment