Part 1
wahabi najdi ki haqiqat
Post pura padhen
نجد کہاں پر ہے اور مشرق سے کون سا علاقہ مراد ہے
نجد کے حوالے سے بحث عام چل پڑی ہے۔ کوئی نجد کو ایک مخصوص علاقہ بتاتا ہے تو کوئی اس کو مخصوص علاقہ نہیں سمجھتا۔جو نجد کو ایک مخصوص علاقہ نہیں سمجھتے انہوں نے بارہ 12 نجدبنا لئے ہیں اور وہ فتنے والے نجد کوعراق کے شہر بغداد،بصرہ اور کوفہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بارہ نجد والوں کا دعوی کسی بھی حدیث اورتاریخ سے ثابت نہیں ہے۔ جبکہ ایک نجد سمجھنے والوں کا نظریہ احادیث اور تاریخ سے ثابت ہے۔ آج کی اس بحث میں مشرق سے کون سا علاقہ مراد ہے وہ بھی دیکھیں گئے اور یہ بھی دیکھیں گے وہ بادیہ نشین شور مچانے والے بنی مضر اور ربیعہ کے لوگ کون ہیں اور یہ لوگ کس جگہ آباد ہیں۔
آج بنی تمیم کو بھی قرآن و حدیث اور تاریخ میں جا کر دیکھیں گئے۔
ہم قرآن کے نظریہ کے مطابق مشرق اور مغرب صرف سمتوں کا بیان کرينگے کیونکہ قرآن میں دو سمتیں بیان ہوئی ہیں۔ اس لئے پہلے ہم قرآن کا وہ نظریہ پڑھتے ہیں:
MASHRIQ(EAST)
Allah ta'ala qur’an kareem me farmata hai:-”
wahi mashriq aur maghrib ka maalik hai aur iske siwa koi mabood nahi, to isi ko apna kaarsaaz banaao”
(surah muzammil 9) ”
Aur mashriq aur maghrib sab khuda ki ka hai, to jidhar tum rukh karo udhar khuda ki zaat hai”
(surah baqarah 115)yani in ayaton se ye to saabit hai ki allah poore mashriq(east) aur maghrib (west) ka malik o mukhtar hai.
Lekin aaj ke science ke mutabik direction 4 hain:
1-EAST
2-WEST
3-NORTH
4-SOUTH
Ham Qur'an o Hadees Ko Hujjat Mante hain is liye sirf mashraq aur maghrib ko he lain gay north aur south ka zikr nhe krain gay. Ahadees mein jis mashraq ka zikr aya hai aur jin qabeeloon se shaitan ke seeng niklen ka zikr hai aaj ham uski nishandehi krain gay aur ye bhi sabit krain gay ke woe kis ilaqay mein rehte hain.
آیئے اب سب سے پہلے ہم نجدکے مضمون سے شروع کرتے اور دیکھتے ہیں کہ نجد کا کیا معنی اور یہ کہاں سے لیکر کہاں تک ہے۔ اس حوالے سے ہم احادیث، تاریخ اور علماء کرام کے اقوال کو دیکھیں گے۔
آئیے سب سے پہلے وہ حدیث پڑھتے ہیں جس میں نجد کے لئے دعا نہیں فرمائی گئی :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض)لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر ) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ (فتنہ وہابیّت و نجدیّت) وہیں سے نکلے گا۔
صحیح بخاری 2598/6، حدیث 6681۔
اب نجد کی تعریف پڑھتے ہیں: آسان الفاظ میں نجد ابھری ہوئی زمین کو کہتے ہیں ۔
نجد کی تعریف پڑھنے کے بعد ہم اب دیکھتے ہیں ہیں آئمہ کرام اور تاریخ دانوں نے کہاں سے کہاں تک کے علاقے کو نجد کہا ہے:
سب سے پہلے ہم ابن حجر عسقلانی کا حوالہ دیتےہیں:
Alama ibn hajjar asqalani ka qol hai ke:
Makkah se koofa ki janib ka najd, najd qarn ash'shaitan hai. Page 36
یہ وہ تعریف ہے جس سے باقی سب آئمہ کرام اور تاریخ دانوں نے اختلاف کیا ہے لیکن اس تعریف کے مطابق بھی نجدمکہ کی حدود ختم ہونے سے شروع ہو کر کوفہ کی حدود جہاں سے شروع ہوتی ہیں وہاں تک کا علاقہ نجد ہے۔اس سے واضع ہوا کہ کوفہ اس نجد میں نہیں آتا جس میں خود کو ایک نمبر مسلمان کہنےوالے بتاتے ہیں اور اس سے ان لوگوں کا یہ دعوی بھی غلط ثابت ہوگیا جو کوفہ کو فتنوں والے نجد میں شمار کرتے ہیں۔
اب ہم وہ تعریف بیان کرنے لگے ہیں جن کو جمہور علماء اور تاریخ دانوں نے بیان کیا ہے۔خیال رہے کہ یہ نجد کی تعریف علاقے کے اعتبار سے ہورہی ہے لغت یا اصطلاحی معنوں میں نہیں ہو رہی۔ مطلب کہ کہاں سے کہاں کے علاقے کو نجد قرن االشّیطان کہاگیا ہے۔
علامہ یاقوت حموی اپنی شہرہ آفاق کتاب معجم البلدان کے صفحہ 263 جلد 5 میں لکھتے ہیں:
Continue
No comments:
Post a Comment