مومن کی روح کس شان سے قبض ہوتی ہے
از:حضرت علامہ امام جلال الدین سیوطی شافعی رضی المولیٰ عنہ
امام احمد،ابوداؤد،حاکم اور بیہقی وغیرہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: بیشک رسول اللہ صلی تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جب بندۂ مومن کا دنیا سے رخصت اور آخرت کی طرف روانہ ہونے کا وقت آتا ہے تو اس کے لیے آسمان سے دو نورانی چہروں والے فرشتے اترتے ہیں،گویا کہ ان کے چہرے آفتاب کی مانند ہیں ،وہ جنتی لباس اور جنتی خوشبو لیے ہوئے کچھ دیر اس کے پاس بیٹھتے ہیں،پھر ملک الموت (علیہ اسلام) آتے ہیں ،اور اس کے سرہانے بیٹھ کر فرماتے ہیں،اے مطمئن روح! چل،اللہ کی بخشش و رضا کی طرف،تو روح ایسے نکلتی ہے جیسے مشک سے پانی کا قطرہ بہہ نکلتا ہے ،پھر اگر تم ان فرشتوں کو اس کے علاوہ دیکھو تو انہیں نکال دو،پھر جب روح قبض کر لیتے ہیں تو ملک الموت کے ہاتھ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چھوڑتے،پس فوراً روح کو لے کر جنتی لباس اور خوشبو میں لپیٹ لیتے ہیں ،پھر اسے لے کر نکلتے ہیں گویا کے نافۂ مشک کی خوشبو سے روئے زمین مہک رہی ہے،پھر اسے آسمانوں پر لے جاتے ہوئے فرشتوں کی جماعتوں پر سے گزرتے ہیں،ہر ایک جماعت پوچھتی ہے،یہ کس کی پاکیزہ روح ہے؟فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں کی روح ہے،اور اس کا نہایت بہترین طریقے سے نام لیتے ہیں ،جس اچھے نام سے وہ دنیا میں پُکارا جاتا تھا،یہاں تک کہ آسمان کی اس حد تک لے جاتے ہیں جسے ساتواں آسمان کہتے ہیں۔اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس کہ نامہ اعمال علیین ( نیکوں والے دفتر) میں درج کرو! اور اس کو واپس زمین کی طرف لوٹا دو،پھر اس کی روح واپس اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے،پھر دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں، من ربك؟ تیرا رب کون ہے؟ وما دينك؟ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا میرا رب اللہ ہےاور میرا دین اسلام ہے،پھر وہ دونوں فرشتے پوچھے گے ،ما هذاالرجل الذى بعث اليكم؟ تم اس ذاتِ کریم کے بارے میں کیا کہتے ہو جو تمہاری طرف معبوث کیے گئے تھے؟وہ کہے گا وہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ پھر وہ پوچھے گے تمہیں کیسے معلوم ہوا؟و جواب دے گا میں نے اللہ کی کتاب (قرآنِ مجید) کو پڑھا،اس پر ایمان لایا،اس کی تصدیق کی۔اس وقت ایک ندا کرنے والا آسمان سے ندا کرے گا،میرے بندہ نے سچ کہا،اس کے نیچے جنتی بستر بچھا دو،اور اسے جنتی لباس پہناؤ ،اور ایک کھڑکی جنت کی طرف کھول دو، تاکہ جنت کی ہوائیں اور خوشبو اسے آتی رہے اور تاحدّ نگاہ اس کی قبر کو کشاده کر دو! پھر ایک شخص عمدہ لباس پہنے آئے گا جس سے خوشبو کی لپیٹیں آرہی ہوگی،وہ کہے گا: مبارک ہو! آج وہ دن ہے،جس دن کی تمہیں خوشخبری سنائی گئی تھی،بندہ کہےگا تُو کون ہے؟جو اس بشارت کو لے کر آیا ہے؟ وہ کہے گا میں تیرا نیک عمل ہوں،تو بندہ پُکار اٹھے گا،اے پروردگار! قیامت برپا کر دے! اے پروردگار قیامت برپا کر دے!تاکہ میں اپنے اہل و مال کی طرف لوٹ جاؤں۔
امام ابن ابی الدنیا رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مرفوعاً نقل کیا ہے:
"بیشک جب مومن کا آخری وقت آتا ہے وہ ان نعمتوں کو دیکھتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے رکھی ہیں،تو چاہتا ہے اس کی روح جلد از جلد نکلے،تب وہ پسند کرتا ہے کہ وہ اللہ سے ملے،اور اللہ بھی چاہتا ہے اس سے ملاقات کرے۔اور جب کافر کا آخری وقت آتا ہے اور وہ اپنے انجام کی طرف دیکھتا ہے تو چاہتا ہے اس کی جان بدن میں واپس لوٹ جائے کیونکہ وہ اس کے نکلنے کو ناپسند کرتا ہے،تب وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔
امام طبرانی،ابو نعیم اور اِبن منبہ،( رحمہم اللہ) یہ دونوں کتاب المعرفۃ،میں امام جعفر بن محمد سے اور وہ اپنے والد سے ،اور وہ ابن الخزرجی سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب کہ آپ ایک انصاری کے سرہانے بیٹھے ملک الموت کی طرف دیکھ رہے تھے، تو فرمایا:
"اے ملک الموت ہمارے ساتھی کے ساتھ نرمی کر! کہ بیشک یہ مومن ہے،تو ملک الموت نے جواب دیا: کہ اطمینان رکھیے!اور خوش رہیے! اور جان لیجئے کے میں ہر مومن پر بہت مہربان ہوں۔
امام ابن ابی الدنیا ،کعب الاحبار سے روایت کرتے ہیں
ترجمہ: حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت علیہ السلام سے کہا،مجھے اپنی وہ شکل دکھاؤ جس میں تم مومن کی روح قبض کرتے ہو،تو ملک الموت(عزرائیل) علیہ السلام نے اُنہیں وہ نورانی حسین و جمیل صورت دکھائی،تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : اگر مومن مرتے وقت راحت و اکرام کا اور کوئی منظر نہ دیکھے تو اس کے لیے یہی کافی ہے۔
عبدالرحیم الارانی"کتاب الاخلاص" میں حضرت ضحاک علیہ الرحمہ سے نقل کرتے ہیں۔فرمایا:
جب مومن کی روح قبض ہوتی ہے تو اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے اور مقربین فرشتے اس کے ساتھ ہوتے ہیں،پھر اس کو دوسرے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے، پھر تیسرے کی طرف،پھر چوتھےکی طرف،پھر پانچویں کی طرف،پھر چھٹے کی طرف،اور پھر ساتویں کی طرف یہاں تک کے وہ اسے لے کر سدرةالمنتهى تک پہنچ جاتے ہیں،اور عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار!یہ تیرا فلاں بندہ ہے،حالانکہ وہ اسے جانتا ہے۔پھر عذاب سے نجات کا مہر شدہ پروانہ اس کے لیے لیا جاتا ہے،اس بارے میں ارشاد بانی ہے،(ترجمہ: ہاں ہاں نیکوں کے نامہ اعمال سب سے بلند مقام پر ہیں،اور تم لوگ کیا جانو کے علیین کیا ہے،وہ ایک مہر شدہ نوشتہ ہے،ملائکہ مقربین جس کی زیارت کرتے ہیں)۔(المطففین :۲۱-۱۸)
ابو نعیم اور ابن منبہ حضرت ابو سعید خدری رضي اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: بیشک مومن جب آخرت کی طرف روانہ ہوتا ہے اور دنیا سے کوچ کرتا ہے،تو آسمانوں سے فرشتے اس کے کفن اور عطریات کے ساتھ اترتے ہیں،گویا ان کے چہرے سورج کی طرح روشن ہیں،پھر وہ اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور وہ ان کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے،پھر جب اس کی روح پرواز کرتی ہے تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس کے لیے بخشش کی دعا مانگتا ہے۔
امام احمد،نسائی،ابن حبان،حاکم اور بیہقی (رحمہم اللہ) حضرت ابو ھریرہ رضى اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔بیشک نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
بلا شبہ جب مومن کی روح قبض کی جاتی ہے تو رحمت کے فرشتے اس کے پاس سفید ریشمی لباس کے ساتھ آتے ہیں،پھر ایک ایسی خوشبو نکلتی ہے جو مشک و کستوری سے بھی زیادہ معطر ہوتی ہے،یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے متعارف کرواتے ہیں،پھر وہ اسے اس کے بہترین القاب سے پکارتے ہیں،یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان کے دروازے تک آتے ہیں،تو وہاں کے فرشتے پوچھتے ہیں:یہ زمین کی طرف سے کیسی خوشبو آرہی ہے؟ اور جوں جوں وہ اگلے آسمان کی طرف چڑھتے جاتے ہیں فرشتے ایسا ہی پوچھتے ہیں،یہاں تک کہ وہ مومنوں کی روحوں تک جا پہنچتے ہیں اور وہ سب اسے بےانتہا خوشی سے ملتے ہیں کہ ایسی خوشی اُنہیں کسی اور کے ملنے سے نہیں ہوئی ہوتی اور اس کا ایسا استقبال کرتے ہیں جیسا استقبال انہوں نے کسی اور کا نہیں کیا ہوتا،پھر اس سے لوگوں کا حال احوال پوچھتے ہیں کہ فلاں کیسا تھااور فلاں کیسا تھا،فرشتے کہتے ہیں،اسے چھوڑ دو کے یہ کچھ آرام کر لے،کیونکہ،یقیناً یہ دنیا کی پریشانی سے نکل کر آیا ہے۔
حضرت براء، سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
مومن کے انتقال کے وقت فرشتے ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں،جس میں مشک و عنبر و جنتی پھولوں کی خوشبو بسی ہوتی ہیں اور اس کی روح اس طرح نکالتے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے۔اور اسے کہا جاتا ہے:اے مطمئن جان!رضا اور خوشی کے ساتھ باہر نکل،تجھ پر خدا کی رحمت اور بخشش ہیں،پھر جب وہ اس کی روح نکال لیتے ہیں تو مشک و ریحان میں رکھ کر اس کو حریر میں لپیٹ دیتے ہیں اور عليين میں لیے جاتے ہیں۔
امام الجونی اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آیتِ کریمہ:والسابحات سبحا (النازعات:٣) کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: جب مومنوں کی ارواح کو ملک الموت علیہ السلام دیکھتے ہیں،تو وہ کہتے ہیں،اے نفس مطمئنہ!مشک و ریحان کی طرف چل!اس حال میں کہ تیرا رب تجھ سے ناراض نہیں ہے،تو جنت کے شوق اور خوشی میں ایسی تیرتی ہوئی چل جیسے کوئی تیراک پانی میں تیرتا جاتا ہے۔(فالسابقات سبقا) یعنی اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی طرف روانہ ہو۔
(بشری الکئیب بلقاء الحبیب،مجموعۂ رسائل سیوطی، صفحہ ٢٨٣)
No comments:
Post a Comment