مجدد اعظم
از:- خلیفۂ اعلی حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ
بہر حال ہم اور آپ قرآن کریم کا سہارا لے کر اِس مہینہ کی یادگار منانے کے لئے یکجا ہوئے ہے جس مہینہ میں اللّٰہ تعالیٰ کا ایک مقبول بندہ اور رسول پاک کا سچا نائب علم کا جبل شاخ اور عمل صالح کا اسوہ حسنہ معقولات میں بحر ذخار منقولات میں دریائے ناپیدا کنار، اہلسنت کا امام واجب الاحترام اور اس صدی کہ باجماع عرب و عجم مجدد۔ تصدیق حق میں صدیقِ اکبر کا پرتو باطل کو چھانٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر ، رحم و کرم میں ذوالنورین کی تصویر باطل شکنی میں حیدری شمشیر ، دولتِ فقہ و درایت میں امیر المومنین اور سلطنت قرآنِ و حدیث کا مسلم الثبوت وزیر المجتہیدین اعلٰی حضرت علی الاطلاق ، اِمام اہلسنت فی الافاق مجدد مأۃ حاضرہ موید ملت طاہرہ اعلم العلماء و قطب الارشاد علی لسان الاولیاء وہ مولانا و فی جمیع الکلمالات ادلانا فانی فاللہ والباقی باللہ عاشق کامل رسول اللّٰہ مولانا شاہ احمد رضا رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ و رضی ﷲ تعالٰی عنہ و ارضاہ کے قدم اول اول اس خاکدان دنیا میں جلوہ فرما ہوئے۔
تیرہویں صدی کی یہ واحد شخصیت تھی جو ختم صدی سے پہلے علم و فضل کا آفتاب فضل و کمال ہو کر اسلامیات کی تبلیغ میں عرب و عجم پر چھا گئی اور چودھویں صدی کے شروع ہی میں پورے عالم اسلامی میں اس کو حق و صداقت کا مینارۂ نور سمجھا جانے لگا۔ میری طرح سے سارے حل و حرم کو اس کا اعتراف ہے کہ فضل و کمال کی گہرائی اور اس علم راسخ کے کوہِ بلند کو آج تک کوئی نہ پا سکا۔
آج میں آپ کو جگ بیتی بلکہ آپ بیتی سنا رہا ہوں کہ جب تکمیل درس نظامی و تکمیل درس حدیث کے بعد میرے مربیوں نے کار انتہاء کے لئے اعلیٰ حضرت کے حوالے کیا زندگی کی یہی گھڑیاں میرے لیے سرمایۂ حیات ہو گئیں اور میں محسوس کرنے لگا کہ آج تک جو کچھ پڑھا تھا وہ کچھ نہ تھا اور اب ایک دریائے علم کے ساحل کو پا لیا ہے علم کو راسخ فرمانا اور ایمان کو رگ و پے میں اتار دینا اور صحیح علم دے کر نفس کا تزکیہ فرما دینا یہ وہ کرامت تھی جو ہر ہر منٹ پر صادر ہوتی رہتی تھی۔ عادت کریمہ تھی کہ استفتاء ایک ایک مفتی کو تقسیم فرمادیتے اور پھر ہم لوگ دن بھر محنت کرکے جوابات مرتب کرتے پھر عصر و مغرب کے درمیانی مختصر ساعت میں ہر ایک سے پہلے استفتاء پھر فتویٰ سماعت فرماتے اور بیک وقت سب کی سنتے اسی وقت مصنفین اپنی تصنیف دکھاتے، زبانی سوال کرنے والوں کو بھی اجازت تھی کہ جو کہنا ہو کہیں اور جو سنانا ہو سنائیں اتنی آوازیں اور اس قدر جداگانہ باتیں اور صرف ایک ذات کو سب کی طرف توجہ فرمانا جوابات کی تصحیح و تصدیق و اصلاح مصنفین کی تائید و تصحیح اغلاط، زبانی سوالات کا تشفی بخش جواب عطا ہو رہا ہے اور فلسفیوں کے اس خبط کی کہ لا یصدر عن الواحد الا الواحد کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں جس ہنگامۂ سوالات و جوابات میں بڑے بڑے اکابر علم و فن سر تھام کر چپ ہو جاتے ہیں کہ کس کی سنیں اور کس کی نہ سنیں وہاں سب کی شنوائی ہوتی تھی اور سب کی اصلاح فرما دی جاتی تھی یہاں تک کہ ادبی خطا پر بھی نظر پڑ جاتی تھی اور اس کو درست فرما دیا کرتے تھے یہ چیز روز پیش آتی تھی کہ تکمیل جواب کے لئے جزئیات فقہ کی تلاش میں جو لوگ تھک جاتے تو عرض کرتے، اسی وقت فرمادیتے کہ رد المحتار جلد فلاں کے صفحہ فلاں کی سطر فلاں میں ان لفظوں کے ساتھ جزئیہ موجود ہے ۔ درمختار کے فلاں صفحہ فلاں سطر میں یہ عبارت ہے عالمگیری میں بقید جلد و صفحہ و سطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہندیہ میں خیریہ میں مبسوط میں ایک ایک کتاب فقہ کی اصل عبارت بقید صفحہ و سطر ارشاد فرما دیتے اب جو کتابوں میں جا کر دیکھتے تو صفحہ و سطر و عبارت وہی پاتے جو زبانی اعلٰی حضرت نے فرمایا تھا اس کو آپ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کے خداداد قوت حافظہ سے ساری چوده سو برس کی کتابیں حفظ تھیں ۔
(ایک طویل واقعہ ارشاد فرمانے کے بعد فرماتے ہیں سرکار محدّث اعظم رحمہ اللہ)حضور کیا اس علم کا کوئی حصّہ عطا نہ ہوگا جس کا علمائے کرام میں نشان بھی نہیں ملتا مسکرا کر فرمایا کہ میرے پاس علم کہاں۔ جو کسی کو دوں۔ یہ تو آپ کے جد امجد سرکار غوثیت کا فضل و کرم ہے۔ اور کچھ نہیں۔ یہ جواب مجھ ننگ خاندان(بطور عاجزی فرمایا ورنہ حضور ضرور فخر خاندان ہے،عبید) کے لیے تازیانۂ عبرت بھی تھا کہ لوٹنے والے خزانہ لوٹ کر خزان والے ہو گئے اور میں پدرم سلطان بود کے نشه میں پڑا رہا اور یہ جواب اس کا بھی نشان دیتا تھا کہ علم راسخ والے مقام تواضع میں کیا ہو کر اپنے کو کیا کہتے ہیں۔ یہ شوخی میں نے بار بار کی اور یہی جواب عطا ہوتا رہا۔
علم الحدیث کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں۔ ہر وقت پیش نظر۔ اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاھر زد پڑتی ہے اسکی روایت و درایت کی خامیاں ہر وقت از بر۔ علم الحدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے ۔ اعلٰی حضرت کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی۔ اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرما دیتے تھے اٹھا کر دیکھا جاتا تو تقریب و تہذیب و تذبیب میں وہی لفظ مل جاتا تھا۔ یحییٰ نام کے سیکڑوں راویان حدیث ہیں لیکن جس یحییٰ کے طبقہ اور اسناد اور شاگرد کا نام بتا دیا جاتا تو اس فن کے اعلیٰ حضرت خود موجد تھے کہ طبقہ و اسماء سے بتا دیتے کہ راوی ثقہ ہے یا مجروح۔ اس کو کہتے ہیں علم راسخ اور علم سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وُسعت اور خداداد علمی کرامت ۔ فسبحان الذی فضل عبدہ علے جمیع اھل زمانہ و لہ الحمد احمد رضائہ۔
(بریلی شریف میں حاضری کے)دوسرے دن کار افتاء پر لگانے سے پہلے خود گیارہ روپیہ کی شیرینی منگائی۔ اپنے پلنگ پر مجھ کو بٹھا کر اور شیرینی رکھ کرفاتحۂ غوثیہ پڑھ کر دست کرم سے شیرینی مجھ کو بھی عطا فرمائی اور حاضرین میں تقسیم کا حکم دیا اچانک اعلٰی حضرت پلنگ سے اٹھ پڑے سب حاضرین کے ساتھ میں بھی کھڑا ہو گیا کہ شاید کسی شدید حاجت سے اندر تشریف لے جائیں گے لیکن حیرت بالائے حیرت یہ ہوئی کے اعلیٰ حضرت زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے دیکھا تو یہ دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کی غفلت سے شیرینی کا ایک ذرہ زمین پر گر گیا تھا۔ اور اعلٰی حضرت اس ذرّے کو نوک زبان سے اٹھا رہے ہیں اور پھر اپنی نشست گاہ پر بدستور تشریف فرما ہوئے اس کو دیکھ کر سارے حاضرین سرکار غوثیت کی عظمت و محبت میں ڈوب گئے اور فاتحۂ غوثیہ کی شیرینی کے ایک ایک ذرّے کے تبرک ہو جانے میں کسی دوسری دلیل کی حاجت نہ رہ گئی۔ اب میں نے سمجھا کہ بار بار مجھ سے جو فرمایا گیا کہ میں کچھ نہیں یہ آپ کے جد امجد کا صدقہ وہ مجھے خاموش کر دینے کے لئے ہی نہ تھا اور نہ صرف مجھ کو شرم دلانا ہی تھی۔ بلکہ درحقیقت اعلٰی حضرت غوث پاک کے ہاتھوں میں چوں قلم در دست کاتب تھے جس طرح کہ غوث پاک سرکار دو عالم محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علی وآلہ وسلم کے ہاتھ میں چوں قلم در دست کاتب تھے اور کو نہیں جانتا کہ رسول پاک اپنے رب کی بارگاہ میں ایسے تھے کہ قرآن کریم نے فرما دیا۔ وما ینطق عن الھوی ان ھوا لا وحی یوحی۔
میں اپنے مکان پر تھا اور بریلی کے حالات سے بیخبر تھا میرے حضور شیخ المشائخ قدس سرہ العزیز وضو فرما رہے تھے کہ یکبارگی رونے لگے یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی کہ کیا کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہے میں آگے بڑھا تو فرمایا کہ بیٹا میں فرشتوں کے کاندھے پر قطب الارشاد کا جنازہ دیکھ کر رو پڑا ہوں۔ چند گھنٹے بعد بریلی کا تار ملا تو ہمارے گھر میں کہرام پر گیا۔ اس وقت حضرت والد قبلہ قدس سرہ کی زبان پر بیساختہ آیا کہ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ۔
(مجدد اعظم، خطبہ صدارت ، ناگپور ۱۹۷۹، صفحہ ۶)
No comments:
Post a Comment