عقائد اہل سنت
شہزادۂ مفتی جاورہ حضرت علامہ مولانا محمد نوری رضا صاحب قادری علیہ الرحمہ
۷) اہل سنت کے نزدیک استطاعت سبیل کے باوجود حج نہ کرنے والا گنہگار ہے۔اور فاسق اس وقت ہوگا کہ چند سال حج نہ کرے در مختار میں ہے" جب حج کے لئے جانے پر قادر ہو حج فوراً فرض ہو گیا یعنی اسی سال میں اب اور تاخیر گناہ ہے اور چند سال تک نہ کیا تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود مگر جب کرے گا ادا ہی ہے قضا نہیں البتہ حج کی فرضیت کا منکر کافر ہے،صحابہ و تابعین و محدثین و فقہا و مفسرین ائمہ مجتہدین و علماء و مشائخ نے تارک حج کو مسلمان ہی کہا۔اس کے جنازے کی نماز پڑھی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا۔
(قرآن و حدیث و فقہ)
مگر مودودی کے نزدیک یہ سب حضرات معاذاللہ قرآن سے جاہل ہوئے امت مسلمہ کا ایک فرد بھی مودودی کفری مشین سے نہ بچ سکا)
۸) اہل سنت کے نزدیک مسلمان ترک نماز و روزہ و حج و زکوۃ سے ہرگز کافر نہیں ہو سکتا البتہ گنہگار و فاسق ضرور ہے اگرچہ ایک ہی وقت کی نماز قصداً چھوڑے مگر کافر ہرگز نہیں۔یہ خوارج معتزلہ کا مذہب ہے جو ترک فرائض پر کفر کا فتویٰ لگاتے پھرتے ہیں اہل سنت کے نزدیک فرض کا قصداً ترک ضرور کبیرہ ہے۔مگر کوئی مرتکب کبیرہ کافر نہیں چنانچہ اہل سنت کے عقائد میں ہے کہ مرتکب کبیرہ مسلمان ہے اور جنت میں جائیگا۔خواہ اللہ عز وجل محض اپنے فضل و کرم سے اس کی مغفرت فرما دے یا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے بعد یا اپنے کیے کی سزا پانے کے بعد۔اس کے بعد جنت سے کبھی نہیں نکالا جائے گا۔
(قرآن عظیم و احادیث فقہ)
۹) اہلسنت کے نزدیک صرف چار مذہب ہیں اور چاروں برحق ہیں فی زمانہ جو ان چاروں سے جدا ہو وہ بدعتی ہے گمراہ ہے گمراہ گر ہے اہل نار ہے۔علمائے امت اتفاق کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو!تم پر نجات پانے والی جماعت یعنی اہلسنت و جماعت کی پیروی واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق اہلسنت و جماعت کی موافقت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب و ناراضگی اہلسنت و جماعت کی مخالفت میں ہے اور بلاشبہ یہ نجات پانے والا گروہ صرف چار مذہبوں میں مجتمع ہو گیا ہے اور وہ حنفی شافعی مالکی اور حنبلی ہیں اور جو فی زمانہ ان چار مذہبوں سے خارج ہے و اہل بدعت و جہنمی ہے۔(طحطاوی شریف)
۱۰) اہلسنت کے نزدیک تمام انبیاء و اولیاء اور ائمہ خدا کے یہاں گنہگاران امت کے لیے شفیع ہیں حتٰی کہ کعبہ حاجیوں کے لئے اور کچا بچہ اپنے ماں باپ کے لئے شفیع ہے ان سب کے آقا رسول کریم ہیں جو شفاعت کبریٰ کے منصب سے نوازے گئے پھر ان کو مظہر عون الٰہی مانتے ہوئے ان سے مدد مانگنا اور مراسم تعظیم و تکریم بجالانا مدار ایمان ہے اور نذر و نیاز پیش کرنا بھی جائز ہے۔(قرآن عظیم و حدیث و فتاوے)
۱۱) اہلسنت کے نزدیک کسی بزرگ کے نام سے جانور پالنے اور اس کو اللہ کے نام پر ذبح کر کے اس کا ثواب بزرگوں کو پہچانے میں کوئی حرج نہیں کسی بزرگ کے نام پر جانور پالنے سے وہ جانور حرام نہیں ہو جاتا اس کو غیراللہ کے لئے قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔قبروں کی زیارت بہترین افعال سے ہے اسے قبروں کا حج کہنا اعلیٰ درجے کی خباثت ہے خود حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے زیارت قبور کا حکم دیا اور اپنے قبر انور کی زیارت کرنے والوں کو وجوب شفاعت کا مژدہ سنایا۔(احادیث کریمہ و فقہ)
۱۲) اہلسنت کے نزدیک دنیا کو چھوڑ دینا اور گوشوں اور کونوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے رہنا یا تسبیح پر دُرود شریف یا کلمہ شریف یا استغفار وغیرہ پڑھنا یقیناً خدا کی عبادت ہے اور بلاشبہ اس سے وہ خوش ہوتا ہے۔(قرآن و حدیث)
۱۳) علمائے احناف کے نزدیک داڑھی کی حد شرعی ایک قبضہ ہے اس سے کم کرنا یا منڈانا مکروہ تحریمی و فسق ہے۔اس سے آدمی مردود الشہادۃ ہو جاتا ہے۔(کتاب الآثار شریف و فقہ)
۱۴) اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ مودودی کے حکم سے خدا کا حکم منسوخ نہیں ہو سکتا حد زنا شادی شدہ کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ کے لئے سو کوڑے اور حد قذف اسی کوڑے قرآن عظیم کی نص صریح سے ثابت ہے اس کا انکار ہی کفر و ارتداد کو کافی ہے اور پھر اس حکم خداوندی کو ظلم بتانا اعلیٰ درجہ کا ارتداد ہے اور حد زنا و حد قذف پر حدیثیں تو بےشمار ہیں جن کا بیان اس مختصر میں دشوار ہے۔
(قرآن و حدیث)
مگر مودودی نے ان سب کو ختم کر کے ایک نئی شریعت گڑھ لی اور زنا کاری کا دروازہ کھول دیا۔
۱۵) حکم خدا ہے کہ(آیت) چرانے والا مرد اور چرانے والی عورت ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ سزا ہے ان کے فعل کی اللہ کی طرف سے سرزنش ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے،اس حکم خدا کو نہ ماننا کفر و ارتداد پھر اس کو ظلم بتانا کفر بالائے کفر اور شریعت مسطفویه علی صاحبها و آله الصلوة والتحية کا کھلا انکار ہے۔
عقائد مودودی:
۷) مودودی کے خیال میں صرف ترک حج کرنے والا کافر ہے جو اس کو مسلمان کہے و قرآن سے جاہل ہے ملاحظہ ہو" رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے۔دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں کچھ یورپ آتے جاتے حجاز کے ساحل سے گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا تو وہ قطعاً مسلمان نہیں جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور قرآن سے جاہل ہے جو انہیں مسلمان سمجھتا ہے۔
(خطبات حصہ پنجم حقیقت حج صفحہ ۳۰)
۸) مودودی کے نزدیک نماز روزہ حج و زکوۃ میں سے ایک بھی کوئی شخص ترک کرے تو ادا کیے ہوئے باقی ارکان بھی برباد کلمہ پڑھنا بھی اکارت اور وہ خود کافر و مرتد ہو گیا۔ملاحظہ ہو۔"اسلام میں کسی ایسے شخص کے مسلمان سمجھے جانے کی گنجائش نہیں ہے جو نماز نہ پڑھتا ہو۔(خطبات صفحہ ۸۵)قرآن کی رو سے کلمہ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکات کا پابند نہ ہوں (خطبات ۱۳۳)ان دو ارکانوں (نماز روزہ) سے جو لوگ روگردانی کریں ان کا دعویٰ ایمان جھوٹا ہے۔(خطبات زکوٰۃ ۱۳۰)اگر وہ خدائی پریڈ کا بگل سنکر جنبش نہیں کرتے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی عملی زندگی کے لیے تیار نہیں اس کے بعد ان کا خدا کو ماننا اور رسول کو ماننا محض بے معنی ہے۔
(خطبات صفحہ ۸۵-۸۶)
۹) مودودی کے نزدیک غیر مقلدین حق پر ہیں ملاحظہ ہو "تمام مسلمان ان چار فقہوں کو برحق جانتے ہیں البتہ یہ ظاہر ہے کہ ایک معاملہ میں ایک ہی طریقہ کی پیروی کی جاسکتی ہے چاروں مختلف طریقوں کی پیروی نہیں کی جاسکتی اسلئے اکثر علماء کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان چاروں میں سے کسی ایک کی پیروی کرنی چاہیے ان کے علاوہ علماء کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ کسی خاص فقہ کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں علم رکھنے والے آدمی کو براہِ راست قرآن و حدیث سے احکام معلوم کرنا چاہیے اور جو لوگ علم نہ رکھتے ہوں انہیں چاہئے کہ جس عالم پر ان کا اطمینان ہو اسکی پیروی کریں یہ لوگ اہل حدیث کہلاتے ہیں اور اوپر کے چاروں گروہوں کی طرح یہ بھی حق پر ہیں
(دینیات صفحہ ۱۴۷)
۱۰) مودودی کے نزدیک کسی کو شفیع مان کر ان سے مدد مانگنا ان کو خدا بنا لینا ہو گیا یعنی ان سے مدد مانگنے والے مشرک ہیں۔ملاحظہ ہو "کسی کو خدا کے ہاں سفارشی قرار دے کر اس سے مدد کی التجا كرنا اور اس کے ساتھ مراسم تعظیم و تکریم بجا لانا اور نذر و نیاز پیش کرنا اس کو آلہ بنانا ہے۔
(قرآن کی چار بنیادی اصلاحیں صفحہ ۲۲)
۱۱) مودودی کے نزدیک بزرگان دین کے مزاروں کی زیارت کرنا مزارات کا حج کرنا ہے جو بدترین افعال سے ہے۔اور اللہ کے نام پر جانور ذبح کر کے ایصال ثواب کے بعد غربا و مساکین میں تقسیم کرنا غیراللہ کے لئے قربانی ہو گئی۔بزرگوں کے مزار کی زیارت قتل و زنا کے گناہ سے بدتر ہے ملاحظہ ہو" تم غیراللہ کے لئے قربانیاں کرتے ہو اور مدار صاحب اور سالار صاحب کی قبروں کا حج کرتے ہو یہ تمہارے بدترین افعال ہیں۔(تجدید صفحہ ۹۳) جو لوگ حاجتیں طلب کرنے کے لئے اجمیر یا سالار مسعود کی قبر يا ایسے ہی کسی دوسرے مقامات پر جاتے ہیں وہ اتنا بڑا گناہ کرتے ہیں کہ قتل اور زنا کا گناہ اس سے کم ہے آخر اس میں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش میں کیا فرق ہے۔(تجدید ۹۷)
۱۲) مودودی صاحب کے نزدیک گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے رہنا عبادت ہی نہیں اور اس سے خدا بھی خوش نہیں ہوتا ملاحظہ ہو "صرف اس لئے کہ خدا خوش ہوگا پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور تسبیح ہلانا عبادت نہیں (حقیقت صوم و صلاۃ صفحہ ۱۸)
۱۳) مودودی کے نزدیک داڑھی کی کوئی حد شرعی نہیں ملاحظہ ہو "داڑھی کے متعلق شارع نے کوئی حد مقرر نہیں کی علماء نے جو حد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے بہرحال وہ ایک استنباطی چیز ہے۔(رسائل و مسائل صفحہ ۱۷۶)
۱۴) مودودی کے نزدیک زنا کی حد لگانے کا حکم خدا کا ظلم ہے ملاحظہ ہو "جہاں مدرسوں میں دفتروں میں کلبوں اور تفریح گاہوں میں خلوت و جلوت میں ہر جگہ جوان مردوں اور بنی ٹھنی عورتوں کو آزادانہ ملنے جلنے اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملتا ہے جہاں ہر طرف بےشمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہوں۔اور ازدواجی رشتہ کے بغیر خواہشات کی تسکین کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بھی موجود ہوں جہاں معیار اخلاق بھی اتنا پست ہو کہ ناجائز تعلقات کو کچھ بہت معیوب نہ سمجھا جاتا ہو ایسی جگہ زنا اور قذف کی شرعی حد جاری کرنا بلا شبہ ظلم ہوگا۔
(تفہیمات دوّم صفحہ ۲۸۱)
۱۵) مودودی صاحب اپنی امت کو زنا کاری کی سزا کی طرح چوری کی سزا سے بھی بچانے کے لئے نئی شریعت گڑھ کر چوری و زنا کاری کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ملاحظہ ہو "اسی طرح حد سرقہ کو بھی قیاس کر لیجئے کہ وہ صرف اسی سوسائٹی کے لئے مقرر کی گئی ہے جس میں اسلام کے معاشی تصورات اور اصول و قوانین پوری طرح نافذ ہوں قطع ید اور اسلامی نظم معیشت میں ایسا رابطہ ہے جس کو منقطع نہیں کیا جاسکتا جہاں یہ نظم معیشت قائم ہو وہاں قطع ید ہی عین انصاف اور مقتضائے فطرت ہے اور جہاں نظم معیشت نہ ہو وہاں چور کا ہاتھ کانٹنا دوہرا ظلم ہے۔(تفہیمات ، حصہ دوم ، صفحہ ٢٨١،٢٨٢)
ایسی جگہ تو چور کے ہاتھ کاٹنا ہی نہیں بلکہ قید کی سزا بھی بعض حالات میں ظلم ہوگی۔
(تفہیمات ، حصہ دوم ، صفحہ ٢٨١،٢٨٢)
ماخوذ از :- مسلمانو! حق و باطل کو پہچانو قسط دوم۔
No comments:
Post a Comment