****٥*****
نماز میں نبی کو حاضر جانو !
از:-خلیفۂ اعلی حضرت علامہ امام الدین کوٹلوی علیہ الرحمہ
اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے
اقم الصلاۃ لذکری
یعنی نماز پڑھاکر میری یاد کرنے کو!
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایاہے؛ بہت نمازی ایسے ہیں جن کو نماز سے رنج و ماندگی کے سوا اور کچھ نصیب نہیں ہوسکتا آور یہ امر اس سبب سے ہوتا ہے کہ فقط بدن سے نماز پڑھتے ہیں اور دل غافل رہتا ہے۔
سلام تیرے تے اے نبی اللّٰہ آکھے دلوں زبانوں
وچہ در مختار اینویں لکھیا اہل ایمانوں
امام غزالی و چہ احیاء العلوم دے ایہ فرمایا
نبی نوں دل اپنے و چہ حاضر کر توں ایہ سمجھایا
پھر تو کہہ سلام تیرے تے اے نبی حق تعالیٰ
رحمت اوپر تیرے ہر دم بھیجے بھیجن والا
ہور میزان شعرانی دے وچہ ایہ ہے لکھیا بھائی
خاص خطاب نبی دے کرنے دی اوس وجہ سنائی
تاں جے غافل لوکاں تایٔں خبر اوس دی ہوجاوے
روبرو جس ربدے تسیں بیٹھو نبی بھی اوتھے آوے
وچہ درگاہ خدادے حاضر نبی ہمیشہ رہندے
سلام نمازی روبرو ہو کے نبی نوں مونہوں کہندے
امام شعرانی وچہ میزانے ایہ سانوں دکھلایا
ابی الحسن تے ہور وغیرہ دااوس قول سنایا
ویقصد بالفاظ التشھد الانشاء کانہ یسلم علی نبیہ، ھکذی فی العالمگیری
الفاظ تشہد میں یہ ارادہ کرے کہ میں سلام بھیجتا ہوں اپنی طرف سے انتہی
واحضر فی قلبک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشخصہ الکریم وقل سلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یعنی موجود کر اپنے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے وجود گرامی کو اور عرض کر السلام علیکَ ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اور جو ایسا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:
اورنماز میں خطاب کر کے سلام کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے اس لیے کہ اگر نماز میں کسی اور کا خیال کر کے السلام علیکم کہے گا تو نماز ی کی نماز باطل ہو جائے گی۔
تشہد و سلام نمازی پر واجب ہے کما ھو مصرح فی کتب الفقہ پس جب نمازی نے بقصد نقل و اخبار پڑھا تو یہ سلام جو اس پر واجب تھا وہ نہ ہوا واجب ترک سے نماز مکروہ تحریمی ہوئی جو واجب الاعادہ ہے لہذا اس کی نماز ہی ناقص ونا قبول ہے
امام الدین عفی عنہ ۔
یعنی اس واسطے شارع علیہ الصلاۃ وااسلام نے امر کیا ہے نمازی کو سلام اور درود کے لیے التحیات میں کہ آگاہ کرے غافلوں کو ، کہ جس پروردگار کے سامنے تم بیٹھے ہو اس دربار میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ہیں،پس تحقیق وہ الہی سے کبھی جدا نہیں ہوتے، پس نمازی خطاب کرتا ہے لفظ سلام کے ساتھ آپ کے روبرو ، امام الدین
یعنی ابولحسن شاذلی وغیرہ اولیاء فرماتے ہیں،کہ اگر ایک پلک چمکنےکے برابر بھی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہو جائیں ، یعنی چھپ جائے تو ہم اپنے تئیں مسلمان نہ جانیں امام الدین)
ابوالحسن جو ولی خدا دے سانوں ایہ فرماون
ایک چمکارے اکھیاندے جے غیب نبی ہو جاون
مسلماناں دے ٹولے اندر اسیں شمار نہ ہو ئے
ایسے صدمے اوپر بھائیو! ہر دم بہہ کے روئے
جیکر ایہ گل آکھے کوئ ہر تھاں حاضر رہنا
خاصہ صفت خدادی سمجھو ہور نہ کسے کہنا!
میں کہناں ہاں جس نوں ایسی طاقت دیوے اللّٰہ
بیشک حاضر ناظر ہر تھاں رہ سکدا ہے کلا
دیکھو ملک الموت فرشتہ جو روح قبض کر یندا
جان حیواناں انساناں دی بیشک اوہو لیندا
چوہے بلیاں نالے کیڑے ہور پرند حیوانی
مشرق تھیں تا مغرب مغرب توڑی دکھن بھاڑ پچھانی
سب دی اوہو جان کڈیندا ہر تھاں حاضر رہندا
وقت نزع دے میت دے وہ آن سرہانے بہندا
و انگوں تھال بنائی اللّٰہ دنیا اس دے آگے
جتھوں حکم کرے رب اتھوں پھڑدا دیر نہ لگے
جو نماز کی معنی نہ جانے اس کی نماز ناقص ہے
یہ بہتر ہے کہ غیر مقلدوں کے امام آخر الزمان نواب صدیق حسن خان بھوپالی کی کتاب سے سناؤ ں یہ ان پر اشد سخت تر ہے۔
مسک المختام صفحہ ٢٤٤ میں لکھا ہے،
نیز آنحضرت مومنوں کا نصب العین اور عبادت کرنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں اور تمام حالات و اوقات میں خصوصا حالت عبادت و نورانیت میں انکشاف اس جگہ بہت زیادہ اور قوی ہوتاہے۔ اور بعض عارفین قدس اسرارھم کا قول ہے کہ خطاب محمدیہ کے ذرات اور ممکنات کے تمام افراد میں جاری وساری ہونے کی وجہ سے ہے لہذا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نمازیوں کی ذات میں موجود و حاضر ہیں تو ہر نمازی کو چاہیے کہ اس معنی سے آگاہ ہو اور اس شہود سے غافل نہ رہے تاکہ قرب و اسرار کے انوار سے منور و کامیاب ہو!
عشق کی راہ دور و نزدیک کا کوئی مرحلہ نہیں ہے،میں واضح طور پر تُجھے دیکھتا ہوں اور اپنی عرض معروض تُجھ تک پہنچاتا ہوں
اگر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نماز میں حاضر سمجھنا شرک ہے تو نواب بھوپال نے تو شرک کے انبار لگا دیئے،دیکھو!
۱)نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر عبادت میں مسلمانوں کے پیش نظر ہے۔
۲) نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر نمازی کی ذات بلکہ ہر ذرہ و ممکنات میں موجود و حاضر ہیں۔
۳)نمازی نماز میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مشاہدہ سے غافل نہ ہوں ،کہ قرب الٰہی پاۓ۔
مگر یہ کہیے! اگلی سلطنتوں میں بڑے لوگوں کو تین خون معاف ہوتے تھے گورنمنٹ وہابیہ سے نواب بہادر کو تین شرک معاف ہیں لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
(نصرۃ الحق مفید خلائق، صفحہ ١١٤)
No comments:
Post a Comment