امام عالی مقام شہید ہوتے ہیں
از- برادر اعلی حضرت استاذ زمن حضرت علامہ حسن رضا خان علیہ الرحمہ
حسن و عشق کے باہمی تعلقات سے جو آگاہ ہیں، جانتے ہیں کہ وصل دوست جسے چاہنے والے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، بغیر مصیبتیں اٹھائے اور بلائیں جھیلے حاصل نہیں ہوتا۔
اے دل! تو اس محبوب کی بارگاہ میں اس وقت تک نہیں پہنچ پائے گا، جب تک تو تکلیف نہ
اٹھائے ،غمخوار تیرے پاس نہیں پہنچے گا۔جب تک تو حناء کو پتھر سے رگڑے گا نہیں، وہ محبوب کے ہاتھوں کو رنگین نہ کر پائے گی۔
دل میں نشتر چھبو کر توڑ دیتے ہیں اور کلیجے میں چھریاں مار کر چھوڑ دیتے اور پھر تاکید ہوتی ہے کہ اف کی تو عاشقوں کے دفتر سے نام کاٹ دیا جائے گا،غرض پہلے ہر طرح اطمینان کر لیتے اور امتحان فرما لیتے ہیں، جب کہیں چلمن سے ایک جھلک دکھانے کی نوبت آتی ہے۔
معشوق تو عاشق غریب کی جان کے طلب ہوتے ہیں، زخم لگاتے ہیں اور پھر خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں۔ اس قوم، اس قوم، اس قوم سے اللّٰہ کی پناہ ،یہ خون بہاتی ہے اور پھر قصاص بھی طلب کرتی ہے۔
اور یہ امتحان کچھ حسینان زمانہ ہی کا دستور نہیں،حسن ازل کی دلکش تجلیوں اور دلچسپ جلوؤں کا بھی معمول ہے کہ فرمایا جاتا ہے۔ اور ضرور ہم تمہارا امتحان کریں گے، کچھ خوف،کچھ بھوک سے، اور مال گھٹا کر اور جانوں اور پھلوں سے۔
(سورہ بقرہ)
جب ان کڑیوں کو جھیل لیا جاتا اور ان تکلیفوں کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو پھر کیا پوچھنا؟ سرا پردۂ جمال ترسی ہوئی آنکھوں کے سامنے سے اٹھا دیا جاتا اور مدت کےبے قرار دل کو راحت و آرام کا پتلا بنایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر تو میدان کربلا میں امام مظلوم کو وطن سے چھڑاکر پردیسی بنا کر لائے ہیں اور آج صبح سے ہمراہیوں اور رفیقوں بلکہ گود کے پالوں کو ایک ایک کر کے جدا کر لیا گیا ہے۔کلیجے کے ٹکڑے خون میں نہائے،آنکھوں کے سامنے پڑےہیں، ہری بھری پھلواڑی کے سہانے اور نازک پھول پتی پتی ہو کر خاک میں ملے ہیں اور کچھ پرواہ نہیں، پرواہ ہوتی تو تو کیوں ہوتی؟ کہ ایک راہ دوست میں گھر لٹانے والے اسی دن مدینہ سے چلے تھے، جب تو ایک ایک کو بھیج کر قربان کرایا اور جو اپنے پاؤں نہ جاسکتے تھے، ان کو ہاتھوں پر لے کر نذر کر آئے۔کہاں ہیں وہ ملائکہ جو حضرت انسان کی پیدائش پر چون وچرا کرتے تھے، اپنی جانمازوں اور تسبیح و تقدیس کے مصلوں سے اٹھ کر آج کربلا کے میدان کی سیر کریں اور انی اعلم مالا تعلمون کی شاندار تفصیل حیرت کی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں ،اس دل دکھانے والے معرکے میں امتحان سبھی کا مقصود تھا، مگر حسین مظلوم کا اصلی اوروں کاطفیلی، اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ دشمنوں کے ہاتھوں سے جو صرف امام ہی کے خون کے پیاسے تھے،پہلے امام کو شہید کرادیا جاتا۔ اللہ اکبر! اس وقت کس قیامت کا دردناک منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔ امام مظلوم اپنے گھر والوں سے رخصت ہو رہے ہیں.......بیکسی کی حالت...... تنہائی کی کیفیت....... تین دن کے پیاسے....... مقدس جگہ پر سینکڑوں تیر کھائے..... ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر جانے کا سامان فرما رہے ہیں..... اہل بیت کی صغیر سن صاحبزادیاں ،دنیا میں جن کی ناز برداری کا آخری فیصلہ ان کی شہادت کے ساتھ ہونے والا ہے،بے چین ہو کر رو رہی ہیں........بے کس سیدانیاں، یہاں جن کے عیش، جن کے آرام کا خاتمہ ان کی رخصت کے ساتھ خیرباد کہنے والا ہے،سخت بے چینی کے ساتھ اشکبار ہیں۔اور بعض وہ مقدس صورتیں جن کو بے کسی کی بولتی ہوئی تصویر کہنا ہر طریقے سے درست ہوسکتا ہے.........جن کا سہاگ خاک میں ملنے والا اور جن کا ہر آسرا ان کے مقدس دم کے ساتھ ٹوٹنے والا ہے...... روتے روتے بےحال ہو گئی ہیں........ان کے اڑے ہوئے رنگت والے چہرے پر سکوت اورخاموشی کے ساتھ مسلسل اور لگاتار آنسوؤں کی روانی صورت حال حال دکھا دکھا کر عرض کر رہی ہے:
مے روی وگریہ مے آید مرا
ساعتے بے نشیں کہ باراں بگزرد
جب تو جاتا ہے تو میری آنکھیں روتی ہیں، جب ایک گھڑی میرے پاس بیٹھے ہوتو گویا کہ بارش برس رہی ہے۔
اس وقت حضرت امام زین العابدین کے دل سے کوئی پوچھے کہ حضور کے ناتواں دل نے آج کیسے کیسے صدمے اٹھائے اور کیسی مصیبت جھیلنے کے سامان ہور ہے ہیں۔ بیماری، پردیس، بچپن کے ساتھیوں کی جدائی، ساتھ کھیلے ہوؤں کا فراق اور پیارے بھائیوں کے داغ نے دل کا کیا حال کر رکھا ہے؟اب ضدیں پوری کرنے والا اور ناز اٹھانے والے مہربان باپ کا سایہ بھی سر مبارک سے اٹھنے والا ہے اس پر طرہ یہ کہ ان مصیبتوں، ان ناقابل برداشت تکلیفوں میں کوئی بات پوچھنے والا نہیں۔
از پیش من آں رشک چمن میگردد
چوں روح روانیکہ زتن میگردد
حال عجبے روز و داعش دارم
من ازسر جان وار زمن میگردد
میرے سامنے میرا محبوب ، جس پر باغ بھی رشک کرتا ہے،جب وہ روح جسم میں رشک کرتی ہے،اس الوداع کے وقت میرا بڑا عجیب حال ہے، میں اس کے لیے جان کی بازی لگارہا ہوں اور وہ میرے گرد گھوم رہا ہے۔
ہائے ! کوئی اس وقت کوئی اتنا بھی نہ کہ رکاب تھام کر سوار کرائے یا میدان تک ساتھ جائے ۔ ہاں ! کچھ بے کس بچوں کی دردناک آوازیں اور بے بس عورتوں کی مایوسی بھری نگاہیں ، جو ہر قدم پر امام کے ساتھ ہیں، امام مظلوم کا جو قدم آگے پڑتا ہے "یتیمی بچوں" اور "بے کسی عورتوں" کے قریب ہو جاتی ہے۔ امام کے متعلقین، امام کی بہنیں جنہیں ابھی صبر کی تلقین فرمائی گئی تھی، اپنے زخمی کلیجوں پر صبر کی بھاری سل رکھے ہوئے سکوت کے عالم میں بیٹھی ہیں،مگر ان کے آنسوؤں کا غیر منقطع سلسلہ، ان کے بے کسی چھائے ہوئے چہروں کا اڑا ہوا رنگ، جگرگوشوں کی شہادت، امام کی رخصت، اپنی بے بسی، گھر بھرکی تباہی پر زبان حال سے کہہ رہا ہے۔
مجھ کو جنگل میں اکیلا چھوڑ کر
قافلہ سارا روانہ ہو گیا
جگر گوشۂ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی پرسوز شہادت
باغ جنت کے ہیں بہر مدح خوان اہل بیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنان اہل بیت
کس زبان سے ہو بیاں عزوز شان اہل بیت
مدح گوئے مصطفیٰ ہے مدح خوان اہل بیت
ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیان
آئہ تطہیر سے ظاہر ہے شان اہل بیت
مصطفی عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دودمان اہل بیت
ان کے گھر میں بے اجازت جبرائیل آتے نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدرو شان اہل بیت
مصطفی بائع خریدار اس کا اللّٰہ مشتری
خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلبیت
رذم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہ حسن و عشق
کربلا میں ہو رہا ہے امتحان اہل بیت
پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گلستان اہل بیت
حوریں کرتی ہیں عروسان شہادت کا سنگھار
خوبرو دولھا بنا ہے ہر جوان اہل بیت
جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگان اہل بیت
اے شباب فصل گل!چل گئی کیسی ہوا
کٹ رہا لہلاتا بوستان اہلبیت
کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے؟
دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہلبیت
خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات
خاک تجھ پردیکھ تو سوکھی زبان اہل بیت
خاک پر عباس و عثمان علم برادر ہے
بے کسی اب کون اٹھائے گا نشان اہل بیت
تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں
پیاس کی شدت سے تڑپے بے زبان اہل بیت
قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر
وارث بے وارثاں کو کاروانِ اہلبیت
فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہلبیت
وقت رخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ
لو اسلام آخری اے بیو گان اہل بیت
کس مزے کی لذتیں ہیں آب تیغ یار میں
خاک و خوں میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہلبیت
باغ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوب خدا
اے زہے قسمت تمہاری کشتگان اہل بیت
حوریں بے پردہ نکل آئی ہے سر کھولے ہوئے
آج کیسا حشر ہے یا رب میان اہل بیت
کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بے کسی
آج کیسا ہے مریض نیم جان اہل بیت
گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سکھ جائے
جان عالم ہو فدا اے خاندان اہل بیت
سر شہیدان محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدائے قدروشان اہل بیت
دولت دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا میں خوب ہی چمکی دکانِ اہل بیت
زخم کھانے کو تو آب تیغ پینے کو دیا
خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہلبیت
اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے
کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہل بیت
اہل بیت پاک سے گستاخیاں بے باکیاں
لعنتہ اللّٰہ علیکم دشمنانِ اہلبیت
بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دے اے حسن
یوں کہا کرتے ہیں سنی داستان اہل بیت
اے کوثر! اپنے ٹھنڈے اور خوشبودار پانی کی سبیل تیار رکھ کہ تین دن کے پیاسے تیرے کنارے جلوہ فرمائیں گے...........
اے طول! اپنے سائے کے دامن اور دراز کر ،کربلا کی دھوپ کے لیٹنے والے تیرے نیچے آرام لیں گے۔............
آج میدان کربلا میں جنتوں سے حوریں سنگار کئے، ٹھنڈے پانی کے پیالے لئے حاضر ہیں...... آسمان سے ملائکہ کی لگاتار آمدنے سطح ہوا کو بالکل بھر دیا ہے اور پاک روحوں نے بہشت کے مکانوں کو سونا کر دیا...... خود حضور پر نور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ طیبہ سے اپنے لاڈلے حسین کی قتل گاہ تشریف لائے ہوئے ہیں ......ریش مبارک اور سر اطہر کے بال گرد سے اٹے ہوئے اور آنکھوں سے آنسوں کا تار بندھا ہوا ہے......دست مبارک میں ایک شیشہ ہے،جس میں شہیدوں کامقدس خون جمع فرمایا گیا.......اور اب دل کے چین پیارے حسین کے خون بھرنے کی باری ہے......
بچہ ناز رفتہ باشد زجہان نیاز مفدے
کہ بوقت جان سپر دن بسرش رسیدہ باشی
اس کی نیاز مندی سے جہاں، کتنا ناز اٹھائے گا، کہ جب میری جان نکل رہی ہو گی اور تو میرے سر پر کھڑا ہوگا۔
غرض آج کربلا میں حسینی میلا لگا ہوا ہے......... حوروں سے کہو کہ اپنی خوشبودار چوٹیاں کھول کر کربلا کا میدان صاف کریں کہ تمہاری شہزادی، تمہاری آقائے نعمت فاطمہ زہرا کے لال کے شہید کرنے اور خاک پر لٹائے جانے کا وقت قریب آگیا ہے.... رضوان کو خبر دو کہ جنتوں کو بھینی بھینی خوشبوؤں سے بسا کر دلکش آرائشوں سے آراستہ کر کے دلہن بنا کر رکھے کہ بزم شہادت کا دولھا بہتے خون کا سہرا باندھے زخموں کے ہار گلے میں ڈالے عنقریب تشریف لانے والا ہے۔
(آئینۂ قیامت، صفحہ ٦٠)
No comments:
Post a Comment