گستاخی کا وبال
از - مولانا جلال الدین رومی نوراللہ مرقدہ۔
آں دہن کثر کر دراز تسخر بخواند
نام احمد رادہانش کز بماند
ایک شخص نے استہزاء کے طور پر حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نامِ نامی و اسمِ گرامی کو منہ ٹیڑھا کر کے لیا،تو اسکا منہ ٹیڑھا ہی رہ گیا۔معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے محبوبِ پاک پیارے مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا تمسخر اور استہزا کرے اس پر عذاب ضرور مسلّط ہوگا۔
باز آمد کآئے محمد عفو کن
اے ترا الطاف علم من لدن
جب اس گستاخ پر یہ عذاب نازل ہوا ،تو اس نے توبہ کی اور کہا اے حضور! آپ مجھے معاف فرما دیں۔اللہ تعالٰی نے آپ کو علم لدنی کا الطاف یعنی علمِ غیب عطا فرمایا ہے۔
من ترا افسوس می کردم زِ جہل
من بدم افسوس را منسوب و اہل
میں نے اپنی جہالت و نادانی کے سبب حضور کا استہزا اور مذاق کیا،حالانکہ استہزا کے لائق میں خود ہی تھا اور تمسخر سے نسبت مجھی کو تھی۔ آگے مولانا روم علیہ رحمہ بطورِ نصیحت ارشاد فرماتے ہیں
چوں خدا خواہد کے پردہ کس درد
میلش اندر طعنۂ نیكاں برد
جب اللہ تعالیٰ کسی کو ذلیل اور رسوا کرنا چاہتا ہے تو اس شخص کی طبیعت نیکوں کی برائی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔نیکوں سے حضرا تِ انبیاء اکرام و اولیاء عظام، علمائے اہلسنت اور صلحائے امت مراد ہیں،لہٰذا انبیاء اکرام و اولیاءعظام اور علماء و صلحاء کا استہزا اور مذاق اڑانے والے یقین کرلیں کے اللہ تعالیٰ انہیں ضرور ذلیل و رسوا کرے گا۔
چوں خدا خواہد کہ ما یاری کند
میل مارا جانب زاری کند
اور جب اللہ تعالٰی ہماری مدد کرنا چاہتا ہے اور ہماری زندگی کو کامیاب بنانا چاہتا ہے, تو ہم کو عجز اور زاری کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
اے خنک چشمے کہ او گریانِ اوست
وے ہمایوں دل کہ اوبریان اوست
کیا ہی مبارک ہے وہ آنکھ جو خوفِ الٰہی سے روتی ہے اور کیا ہی مبارک ہے وہ دل جو اس کی محبت کی آگ میں جلتا ہے
ہر کجا آبِ رواں سبزہ بود
ہر کجا اشک رواں رحمت شود
جہاں پانی جاری ہوتا ہے،وہاں سبزہ اُگتا ہے اور جہاں خوفِ الٰہی سے آنسو بہیں وہاں خدا کی رحمت برستی ہے۔
(مثنوی شریف، دفتر اول)
No comments:
Post a Comment