مختلف مذاہب اور مدعی اسلام فرقوں کے ساتھ اتحاد
از :- حجۃالاسلام علامہ حامد رضا خان علیہ الرحمہ
اب یہ مسئلہ اور غور طلب ہے کہ جو فرقے باطل اور اہلِ ہوا ہیں، بعض ان میں سے گمراہ ہیں بعض مرتد جو کفر کی سرحد میں داخل ہو چکے ہیں ان فرقوں کے ساتھ اتحاد کیا جائے یا نہ کیا جائے، لوگ کہتے ہیں کہ ضرورت کا وقت ہے ، کفار کا مقابلہ ہے ، آپس کی مخالفتوں پر نظر نہ کرنا چاہیے۔ دراصل یہ بہت بڑی غلطی ہے اور حامیان اتفاق ہمیشہ اس کے مرتکب رہے ہیں اور اسی وجہ سے انھیں کبھی اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہو سکی۔
شیعہ باہم متفق ہو جاتے ہیں اور ان کی آل انڈیا کانفرنسیں کام کرتی ہیں اور وہ اپنا شیرازہ درست کر لیتے ہیں اور اس وقت سنی یا کسی اور فرقہ کی طرف نظر بھی نہیں کرتے ، غیر مقلد متحد ہوتے ہیں ان کی آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنسیں قائم ہوتی ہیں وہ آپس میں نظم وارتباط کے رشتے مضبوط کرتے ہیں اور دوسرے کسی گروہ کی پرواہ بھی نہیں کرتے ،دیوبندی، وہابی اپنی جماعتیں بنا کر اپنا کام کرتے ہیں ۔ قادیانی باہم متحد ہو کر ایک مرکز پر مجتمع رہتے ہیں ، یہ سب اپنے کام میں چست اور اپنے نظام کو استوار کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں کسی کا سہارا نہیں تکتے۔ ہمارے سنی جو بفضلہ تعالی تعداد میں تمام فرقوں کے مجموعہ سے قریب قریب آٹھ گنے زیادہ ہیں ، نہ ان میں نظم ہے نہ ارتباط ، نہ کبھی کوئی آل انڈیا کانفرنس قائم ہوئی نہ اپنی شیرازہ بندی کا خیال آیا۔ انھیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہمت ہی نہیں اگر کبھی اپنی درستی کا خیال آیا تو اس سے پہلے اغیار پر نظر گئی اور یہ سمجھا کہ وہ شامل نہ ہوئے تو ہم کچھ نہ کر سکیں گے، باوجود یہ کہ اگر صرف یہی باہم متحد ہو جائیں اور چھ کروڑ کی جماعت میں نظم قائم ہو تو انھیں ان کی کوئی حاجت ہی نہیں بلکہ اس وقت ان کی شوکت دوسرے فرقوں کو ان کی طرف مائل ہونے پر مجبور کرے گی اور یہ اختلافات کی مصیبت سے بچ کر اپنے اتحاد و انتظام میں کامیاب ہو سکیں گے، لیکن افسوس تمام چھوٹے چھوٹے قلیل التعداد فرقوں نے اپنے اپنے حدود محفوظ کر لیے اور اپنی شیرازہ بندی و اجتماع سے دنیا میں اپنی ہستی اور زندگی کا ثبوت دے دیا۔
غیر ممالک میں ان کی آوازیں پہونچنے لگیں مگر ہمارے سنی حضرات کے دل میں کبھی اتفاق کی امنگیں پیدا ہوئیں تو انھیں اپنوں سے پہلے مخالف یاد آئے جو رات دن اسلام کی بیخ کنی کے لیے بے چین ہیں اور سنیوں کی جماعت پر طرح طرح کے حملے کر کے اپنی تعداد بڑھانے کے لیے مضطر اور مجبور ہیں۔ ہمارے برادران کی اس روش نے اتحاد و اتفاق کی تحریک کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا، کیوں کہ اگر وہ فرقے اپنے دلوں میں اتنی گنجائش رکھتے کہ سنیوں سے مل سکیں تو علاحدہ دیڑھ اینٹ کی تعمیر کر کے نیا فرقہ ہی کیوں بناتے اور مسلمانوں کے خلاف ایک جماعت کیوں بناتے وہ تو حقیقتا مل ہی نہیں سکتے۔ اور صورۃ مل بھی جائیں تو ملنا کسی مطلب سے ہوتا ہے جس کے حصول کے لیے ہر دم تیش زنی جاری رہتی ہے اور اس کا انجام جدال و فساد ہی نکلتا ہے۔
یہ تو تازہ تجربہ ہے کہ خلافت کمیٹی کے ساتھ ایک جماعت جمعیتہ العلما کے نام سے شامل ہوئی جس میں تقریبا سب کے سب یا بہت زیادہ وہابی اور غیر مقلد ہیں نادر ہی کوئی دوسرا شخص ہو تو ہو، اس جماعت نے خلافت کی تائید کو تو عنوان بنایا ،عوام کے سامنے نمائش کے لیے تو یہ مقصد پیش کیا ، مگر اہل سنت کے رد اور ان کی بیخ کنی کا انجام دیا، اپنے مذہب کی ترویج اس پردہ میں خوب کی، میرے پاس جناب مولوی احمد مختار صاحب صدرِ جمعیتہ العلما صوبہ بمبئی کا ایک خط آیا جو انھوں نے مدارس کا دورہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے ، اس میں لکھتے ہیں کہ وہابی اس صوبہ میں اس قومی روپیہ سے جو ترکوں کے درد ناک حالات بیان کرکے وصول کیا گیا تھا، اب تک دو لاکھ تقویۃ الایمان چھپا کر مفت تقسیم کر چکے ہیں۔ اب بتائیے کہ ان جماعتوں کا ملانا زر دادن درد سر خریدن ہوا یا نہیں، اپنے ہی روپے سے اپنے ہی مذہب کا نقصان ہوا۔
الغرض : دوسرے فرقے ہم سے کسی طرح نہیں مل سکتے، ملیں تو دھوکا ہے، جس سے ہمیں اور ہمارے مذہب کو سخت مضرت و نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کتنا بڑا نقصان ہے کہ ان کی بدولت کروڑوں سنی چھوٹ جاتے ہیں جو ان کے شامل ہونے کی وجہ سے علاحدہ رہتے ہیں ، مگر اب تک یہی رہا کہ سنیوں کی کثیر تعداد کو چھوڑا گیا اور ان مختلف فرقوں کے ملانے کی کوشش کی گئی جس میں مختلف قسم کے درندے ہیں کہ ان کے جمع کرنے سے بجز فتنہ و فساد کے کچھ حاصل نہیں ، اتفاق کی کوششوں میں ناکامی کا اصل راز یہی ہے اور اسی وجہ سے حامیانِ اتحاد سات کروڑ مسلمانوں کے اجتماع سے اب تک محروم رہے۔ شریعتِ طاہرہ نے ان گمراہ فرقوں کے ساتھ اتحاد کی اجازت نہیں دی بلکہ ان سے جدا رہنے اور اجتناب کرنے کا حکم دیا۔
حدیث شریف میں ہے : قال النبی صلی الله علیہ وسلم : من وقر صاحب بدعة فقد اعان علی ھدم الاسلام ۔
جو مبتدع کی توقیر کرے وہ اسلام کے ڈھانے میں مدد کرتا ہے۔
دوسری حدیث شریف : لا تجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تواکلوھم۔
ان کے ساتھ مجالست و ہم نشینی نہ کرو نہ ان کے ساتھ مواکلت و مشاربت کھانا پینا کرو
۔اور ایک حدیث پاک میں ہے :من جاھدھم بیدہ فھو مومن و من جاھد بلسانہ فھو مومن و من جاھد فی قلبه فھو مومن ولیس وراء ذلك من الایمان حبة خردل۔
جس نے ان سے اپنے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے اپنی زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے ان پر دل سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور اس کے ماسوا رائی کے دانہ برابر ایمان نہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین۔
یاد آنے پر ظالم قوم کے پاس مت بیٹھو۔
تفسیر احمدی میں ہے : ان القوم الظلمین یعم المبتدع والفاسق والفاجر والقعود مع کلھم ممتنع۔
کہ قوم ظالم بدعتی ، فاسق ، فاجر سب کو عام ہے اور سب کے ساتھ ہم نشینی ممنوع۔ علاوہ بریں صدہا نصوص سے بصراحت ثابت ہے کہ فرق ضالہ اور مبتدعہ کے ساتھ اتفاق و ارتباط ممنوع اور نا جائز ہے۔
حضور انور علیہ الصلاۃ والسلام کے پردہ فرمانے کا وقت ایسا نازک وقت تھا کہ پھر ایسا نازک وقت قیامت تک کبھی نہ آئے گا۔ خود حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مفارقت اتنا بڑا صدمہ تھا جس نے صحابہ میں تاب و تواں باقی نہ چھوڑی تھی، شب و روز رونا اور بے قرار رہنا ان کا معمول تھا، ابتلائے غم کی یہ کیفیت کہ رفقاء سامنے آئیں سلام کریں اور انہیں مطلق خبر نہ ہو، ادھر دشمنان اسلام نے سمجھ لیا کہ اب وقت ہے اور وہ تیغ و سنان سنبھال کر تیار ہو گئے ۔ دنیا کے تمام کفار اسلام کے ساتھ عداوت کی موجیں مارنے والا دل سینوں میں رکھتے تھے ، غیظ و غضب میں آپے سے باہر ہو گئے ، اس وقت ایک جماعت نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔ اسلام نو عمر ہے ، اس کے مربی پیشوا نے ابھی پردہ فرمایا ہے ، رفقا غم سے بے تاب ہیں، دشمن شمشیر بکف ہیں ، اس سے بڑھ کر اور کیا نازک وقت ہوگا، اس وقت صدیق اکبر رضی الله عنہ اس پالیسی پر عمل نہیں کرتے کہ سب کو ملا لیں یا غلط کاریوں پر صبر کر کے خاموش ہو جائیں اور دشمنوں کی قوت کے اندیشہ سے کسی سے کوئی باز پرس اور دار و گیر نہ کریں بلکہ پیغمبرِ اسلام صلی الله علیہ وسلم کا یہ پہلا جانشین اس حالت سے ذرا مرعوب نہیں ہوتا اور نہایت ہمت اور استقلال اور جرأت و شجاعت کے ساتھ اس قوم کے خلاف جہاد و قتال کا اعلان فرما دیتا ہے جس نے زکاۃ دینے سے انکار کیا تھا، اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ صدیق اکبر رضی الله عنہ کو اس قوم پر غلبہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کفار پر بھی اقتدار حاصل ہوتا ہے اور خلیفۂ رسول کا یہ استقلال کفار کی ہمتیں توڑ دیتا ہے۔
آخر کار صحابہِ کرام کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور واقعات ثابت کرتے ہیں کہ خلیفہِ رسول صلی الله علیہ وسلم حق پر ہیں۔ تو آج مسلمان شریعت طاہرہ اور پیشوایان دین کا اتباع چھوڑ کر ان کے خلاف راہ چل کر کس طرح منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں ، جس چیز کو شریعت نے نا جائز کر دیا اس سے کوئی فائدہ کیونکر مقصود ہو سکتا ہے اور کوئی موافق مدعا نتیجہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے، لہذا اتفاق کی کوشش کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس اصل اعظم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہمیں اہل سنت کے ساتھ اتفاق کرنا اور انھیں ایک رشتہ میں مربوط کرکے ان کی منتشر قوت کو یکجا کرلینا ہے، یہی ہمیں مفید ہے اور خدا میسر کرے اور ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں تو آج سات کروڑ مسلمان کی کثیر تعداد ایک متحد قوت نظر آئے اور دوسرے چھوٹے چھوٹے فرقے اس کی شوکت و قوت دیکھ کر خود اس میں ملنے کی کوشش کریں اور ہماری اکثریت انہیں مفسدانہ خیالات سے باز آنے پر مجبور کر دے اور حقیقی اتحاد اور اس کے نفیس برکات دنیا کے قوموں کو نظر آجائیں۔
(خطبۂ صدارت، صفحہ ٤٧)
No comments:
Post a Comment