حضرت امیرالمومنین امام عالی مقام رضی المولیٰ عنہ
از- علامہ نورالدین عبدالرحمن جامی قدس سرہ العزیز
آپ امام سوّم ہیں اور ابوالائمہ ہیں۔آپ کی کنيت ابو عبداللہ ہیں اور لقب شہید و سید تھا۔آپ کی ولادت بروز سہ شنبہ چار شعبان المبارک ۴ھ مدینہ منورہ میں ہوئی۔آپ کی مدت حمل چھ مہینے تھی۔حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی بچہ زندہ نہ رہا جس کی مدت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔آپ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت سے الوق فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک صرف پچاس دن کے تھے۔ حضور علیہ السلام نے آپ کا نام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حسن و جمال کچھ اس طرح کا تھا کہ جب آپ اندھیرے میں بیٹھتے تو آپ کی پیشانی اور رخساروں سے روشنی نکل کر قرب و جوار کو منور کر دیتی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ السلام سے سینے سے پاؤں تک اور امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سینے سے سر تک مشابہ تھے۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہیں اور میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں۔جو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوست رکھتا ہے تو بھی اسے دوست رکھ کیونکہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہیں۔
حسنین کشتی کرتے ہیں
ایک دن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کشتی لڑنے لگے۔ حضور علیہ السلام نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ!حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکڑ لو۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بولیں،يا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ بڑے کو کہتے ہیں کہ چھوٹے کو پکڑ لے۔حضور علیہ السلام نے فرمایا،جبرائیل علیہ السلام بھی تو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہہ رہے ہیں کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکڑ لو۔
ام الحارث کا خواب
حضرت ام الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی؛حضور صلی اللہ علیہ وسلم!میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس سے میں ڈر گئی ہوں۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا دیکھا ہے تو نے؟
میں نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا ابھی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک بچہ لائیں گی جو تمہاری گود میں ہوگا۔اس واقعہ کے بعد حضرت حسین علیہ السلام پیدا ہوئے۔
حسین رضی اللہ تعالی عنہ نگاہ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم میں
ایک دن حضور علیہ السلام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے دائیں بازو اور اپنے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کو بائیں بازو پر بٹھائے ہوئے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا: خداوندتعالی ان دونوں کو آپ کے ہاں یکجا نہ رہنے دے گا۔ ان میں سے ایک کو واپس بلالے گا۔ اب ان دونوں میں سے آپ جسے چاہیں پسند کر لیں۔حضور علیہ السلام نے فرمایا: اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ رخصت ہو جائیں تو ان کے فراق میں حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا، حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور میری جان سوزی ہوگی اور اگر ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ وفات پا جائیں زیادہ الم میری جان پر ہی ٹوٹے گا۔ اس لیے مجھے اپنا غم ہی پسند ہے۔ اس واقعہ کے تین روز بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ وفات پا گئے۔
جب بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں آتے تو حضور علیہ السلام ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے اور خوش آمدید کہتے ہوئے فرماتے اس پر میں نے اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کو قربان کردیا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور خاک کربلا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہے ایک رات حضور علیہ السلام گھر سے باہر تشریف لے گئے اور کافی عرصہ کے بعد واپس گھر آئے۔میں نے آپ کے بال پریشان وغبار آلود دیکھے تو عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آج آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو کس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا: مجھے آج( کار کنان قدرت) ایک ایسے مقام پر لے گئے جو عراق میں ہے اور جسے کربلا کہتے ہیں یہی حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت گاہ ہے۔ وہاں میں نے اپنی اولاد کا مشاہدہ کیا اور ان کے خون کو زمین سے اٹھا لیا جو میرے ہاتھ میں ہے۔ حضور علیہ السلام نے مٹھی کھولی اور فرمایا: اسے پکڑ لو اور حفاظت سے رکھو۔ میں نے اسے لے کر دیکھا تو یہ سرخ مٹی تھی پھر میں نے اسے بوتل میں رکھ لیا اور اس بوتل کا سر اچھی طرح سے باندھ دیا۔جب حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق کا سفر اختیار کیا تو میں ہر روز اس شیشی کو باہرلا کر دیکھتی رہی۔ اس میں مٹی میں اسی طرح تھی۔ جب میں نے اسے عاشورے کے روز دیکھا تو اس میں خون تازہ ہو چکا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ لوگوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کردیا۔میں بہت روئی لیکن دشمن کی فوری شماتت سے میں گریہ وزاری سے رک گئی۔جب آپ رضی ﷲ عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو وہی دن تھا۔آپ رضی ﷲ عنہ کی شہادت عاشورہ کے روز 41 ھ میں ہوئی۔اس وقت رضی ﷲ عنہ کی عمر ستاون برس کی تھی۔
شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پاس تھے۔ اچانک حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا: یہ کون ہیں: حضور علیہ السلام نے فرمایا یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ انہیں بہت جلد شہید کردیا جائے گا؛
حضور علیہ السلام نے پوچھا انہیں کون شہید کرے گا؟
جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ کی امت۔ اگر آپ فرما دیں تو آپ کو وہ مقام بھی بتا دوں جہاں انہیں شہید کیا جائے گا۔
بعدازاں جبرائیل علیہ السلام نے کربلا کی طرف اشارہ کیا اور کچھ سرخ مٹی پکڑ کر حضور علیہ السلام کو دکھائی۔ اور کہا یہ مٹی حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت گاہ کی مٹی ہے۔
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ہمارے کوچ اور قیام کی کوئی ہی جگہ ہوگی جہاں جناب حسین علیہ السلام نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا ذکر نہ کیا ہو۔ ایک روز فرمایا کہ دنیا کی ذلت وپستی کی یہ واضح دلیل ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے سر مبارک کو ایک عورت کی وساطت سے بنی اسرائیل کے نابکاروں کو ہدیتہ پیش کیا گیا۔
سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو وحی آئی کہ ہم نے حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کے بدلہ میں 70 ہزار افراد کو ہلاک کیا اور آپ کے فرزند کے بدلے دوگنا افراد کو ہلاک کریں گے۔یہ بات بصحت ثابت ہوچکی ہے کہ قاتلان حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں میں سے کوئی ایسا شخص نہ رہا جوموت سے پہلے ذلیل نہ ہوا ہو۔ وہ سب کے سب قتل ہوئے یا اکثر مصائب میں گرفتار ہوئے ۔
قاتلان حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا حشر
ایک ثقہ راوی کا بیان ہے جب عبید اللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر کو فہ کی مسجد میں لائے گئے تو انہیں رحبہ میں رکھا گیا۔میں بھی وہاں گیا۔ میں نے لوگوں کی زبان سےآگیا آگیا کے الفاظ سنے۔ آخر ایک سانپ آیا اور ان کے سروں کے درمیان بیٹھ گیا۔ پھر عبیداللہ بن زیاد کی ناک میں گھس گیا اور کچھ دیر کے بعد باہر نکل کر چلا گیا یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہوگیا۔ پھر لوگوں نے آگیا آگیا کہنا شروع کر دیا۔دوسری دفعہ وہی سانپ پھر آگیا اور جس طرح پہلے کیا تھا اسی طرح اب بھی کیا۔
شمر بن ذی الجوش کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سامان سے کچھ سونا مل گیا جس میں سے کچھ اس نے اپنی لڑکی کو دے دیا تھا۔اس کی لڑکی نے وہ سونا ایک زرگر کو دے دیا تاکہ وہ اس کے لئے کوئی زیور بنادے۔ جب زرگر نے سونے کو آگ میں ڈالا تو وہ اس میں بھسم ہو کر رہ گیا۔شمر نے سنا تو زرگر کو بلا کر باقی سونا بھی اسے دے دیا اور کہا کہ میرے سامنے اس آگ میں ڈالو۔ جب زرگر نے اسے آگ میں ڈالا تو وہ بھسم ہوگیا۔ اسی طرح روایت ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے چند اونٹ جو بچ گئے تھے انہیں ظالموں نے ذبح کر دیا اور کباب بنائے۔ ان کا ذائقہ اس قدر تلخ تھا کہ ان کے گوشت میں سے کسی کو کھانے کی ہمت نہ ہوئی۔
شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر اظہار غم
ایک ثقہ راوی کہتا ہے کہ میں نے ایک ایسے شخص سے جو قبیلہ طے سے ہمارے پاس آیا تھا پوچھا کیا تم نے جناب حسین علیہ السلام پر جنوں کو نوحہ کرتے سنا ہے؟
اس نے کہا: ہاں لیکن اس قبیلہ کے ہر آدمی سے نہ پوچھتے رہنا ورنہ ہر آدمی تمہیں اس بارے میں کچھ بتانے لگے گا۔
میں نے کہا میں تو صرف تم سے پوچھنا بہتر سمجھتا ہوں کیونکہ تو نے بھی تو انہی سے سنا ہے اس نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا جس کے رخسار تاباں درخشاں ہیں__ اس کے آباواجداد اعلی واخیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا مدینہ میں رد عمل
جب مدینہ منورہ میں بعض بد بختوں نے خطبہ دیتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا تو اس شب مدینہ منورہ میں مندرجہ ذیل اشعار سنائی دینے لگے۔لیکن ان کا پڑھنے والا نظر نہیں آتا تھا۔
اے حسین علیہ السلام کو جہالت سے قتل کرنے والوں تمہیں سخت رسوا کن عذاب کی خوشخبری ہو۔ آسمان میں جتنی بھی مخلوق ہے خواہ وہ انبیاء ہوں یا ملائکہ وہ سب تم پر بد دعا کرتے ہیں۔ تم پر لعنت ہو بزبان سلیمان بن داود علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام جو صاحب انجیل ہیں۔
سر زمین روم کے غازیوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ میں نے ایک کنیسہ میں مندرجہ ذیل شعر لکھا ہوا دیکھا
کیا وہ قوم جس نے حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے اس کے جدامجد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بروز حشر شفاعت کی امید رکھتی ہے؟
میں نے پوچھا: یہ شعر کس نے لکھا ہے تو کنیسہ والوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
سرحسین رضی اللہ تعالی عنہ نوک سناں پر
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے جب ابن زیاد نے حکم دیا کہ حضرت حسین علیہ السلام کے سر انور کو نیزہ پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں پھریں تو اس وقت میں اپنے مکان کی کھڑکی میں کھڑا تھا۔ جب آپ کا سر انور میرے پاس سے گزرا تو میں نے اس میں یہ آواز سنی:
اس آواز کی ہیبت سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور پکار اٹھا خدا کی قسم یہ سر تو ابن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ہے اور اس میں سے ایسی آواز کا صادر ہونا عجیب بات ہے۔
آسماں راحق بود گر خوں ببارد برزمیں
معمرو زہری رحمہ اللہ ایک دن عبدالملک بن مروان کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ولید پوچھنے لگا:
تم میں سے کون بتا سکتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے دن بیت المقدس کے پتھر کس حال میں تھے؟
امام زہری نے کہا: مجھے یوں اطلاع ملی ہے کہ اس دن جس پتھر کو بھی اٹھاتے تھے اس کے نیچے تازہ خون پاتے تھے۔
ایک اور صاحب سے روایت ہے کہ جب حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو آسمان سے خون برسنے لگا اور ہماری ہر چیز خون آلود ہو گئی نیز آسمان کئی روز تک خون آلود نظر آتا تھا۔
ائمہ اہل بیت کے تذکرے کے بعد اب ہم ان تمام ائمہ کا ذکر کرتے ہیں جنہیں اگرچہ حضور علیہ السلام کی صحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا۔لیکن سلسلہ اہل بیت سے منسلک تھے۔اس سلسلہ کو علمائے دین اور عرفائےاہل یقین نے اس کی نفاست و نظامت کے باعث سلسلئہ الذہب کا نام دیا ہے۔ان ائمہ کا ذکر یہاں ضروری ہے تاکہ سلسلہ مضمون جاری رہے۔
*حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالی عنہ*
آپ امام چہارم ہیں۔ آپ کی کنیت ابو محمد ،ابوالحسین اور ابو بکر ہے اور لقب سجاد و زین العابدین ہے۔آپ مدینہ منورہ میں ہجری کے تینتیس سال پیدا ہوئے۔ بعض روایتوں میں آپ کا سال پیدائش چھتیس یا اڑتیس ہجری ہے۔ آپ کی والدہ کا نام شہربانو ہے ۔ آپ سے بہت سی کرامات وہ وخرق عادات صادر ہوئیں ذیل میں ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں:
ا*حسین رضی اللہ تعالی عنہ نگاہ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم میں*
ایک دن حضور علیہ السلام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے دائیں بازو اور اپنے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کو بائیں بازو پر بٹھائے ہوئے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا: خداوتعالی ان دونوں کو آپ کے ہاں یکجانہ رہنے دے گا۔ ان میں سے ایک کو واپس بلائے گا۔ اب ان دونوں میں سے آپ جسے چاہیں پسند کر لیں۔حضور علیہ السلام نے فرمایا: اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ رخصت ہو جائیں تو ان کے فراق میں حضرت فاطمہ حضرت علی اور میری جان سوزی ہوگی اور اگر ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پا جائیں زیادہ الم میری جان پر ہی ٹوٹے گا۔ اس لیے مجھے اپنا غم ہی پسند ہے۔ اس واقعہ کے تین روز بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ وفات پا گئے ۔
جب بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں آتے تو حضور علیہ السلام ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے اور خوش آمدید کہتے ہوئے فرمات،اس پر میں نے اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کو قربان کردیا۔
*حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور خاک کربلا*
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کہتی ہے ایک رات حضور علیہ السلام گھر سے باہر تشریف لے گئے اور کافی عرصہ کے بعد واپس گھر آئے۔میں نے آپ کے ہال پریشان
وغبار آلود دیکھے تو عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آج آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو کس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: مجھے آج( کار کنان قدرت) ایک ایسے مقام پر لے گئے جو عراق میں ہے اور جسے کربلا کہتے ہیں یہی حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت گاہ ہے۔ وہاں میں نے اپنی اولاد کا مشاہدہ کیا اور ان کے خون کو زمین سے اٹھا لیا جو میرے ہاتھ میں ہے۔ حضور علیہ السلام نے مٹھی کو لی اور فرمایا: اسے پکڑ لو اور حفاظت سے رکھو۔ میں نے اسے لے کر دیکھا تو یہ سرخ مٹی تھی پھر میں نے اسے بوتل میں رکھ لیا اور اس بوتل کا سر اچھی طرح سے باندھ دیا۔جب حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق کا سفر اختیار کیا تو میں ہر روز اس شیشی کو باہرلا کر دیکھتی رہی۔ اس میں مٹی میں اسی طرح تھی۔ جب میں نے اسے عاشورے کے روز دیکھا تو اس میں خون تازہ ہو چکا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ لوگوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کردیا۔میں بہت روئی لیکن دشمن کی فوری شماتت سے میں گریہ و زاری سے رک گئی۔جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شہادت کی خبر آئی تو وہی دن تھا۔آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شہادت عاشورہ کے روز 41 ھ میں ہوئی۔اسوقت آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر ستاون برس کی تھی۔
*شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر*
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پاس تھے۔ اچانک حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا: یہ کون ہیں: حضور علیہ السلام نے فرمایا یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی گود میں بیٹھا لیا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ انہیں بہت جلد شہید کردیا جائے گا:
حضور علیہ السلام نے پوچھا انہیں کون شہید کرے گا؟
جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ کی امت۔ اگر آپ فرما دیں تو آپ کو وہ مقام بھی بتا دوں جہاں انہیں شہید کیا جائے گا۔
بعدازاں جبرائیل علیہ السلام نے کربلا کی طرف اشارہ کیا اور کچھ سرخ مٹی پکڑا کر حضور علیہ السلام کو دکھائی۔ اور کہا یہ مٹی حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت گاہ کی مٹی ہے۔
حضرت سیدنا امام زین العابدین سے روایت ہے کہ جب ہم کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ہمارے کوچ اور قیام کی کوئی جگہ ہوگی جہاں جناب حسین علیہ السلام نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا ذکر نہ کیا ہو۔ ایک روز فرمایا کہ دنیا کی زندگی وپستی کی واضح دلیل ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے سر مبارک کو ایک عورت کی وساطت سے بنی اسرائیل کے نابکاروں کو ہدیتہ پیش کیا گیا۔
سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو وحی آئی کہ ہم نے حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کے بدلہ میں 70 ہزار افراد کو ہلاک کیا اور آپ کے فرزند کے بدلے دوگنا افراد کو ہلاک کریں گے۔یہ بات بصحت ثابت ہوچکی ہے کہ قاتلان حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں میں سے کوئی ایسا شخص نہ رہا جوموت سے پہلے ذلیل نہ ہوا ہو۔ وہ سب کے سب قتل ہوئے یا اکثر مصائب میں گرفتار ہوئے ۔
*قاتلان حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا حشر*
ایک ثقہ راوی کا بیان ہے جب عبید اللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر کو فہ کی مسجد میں لائے گئے تو انہیں رحبہ میں رکھا گیا۔میں بھی وہاں گیا۔ میں نے لوگوں کی زبان سےآگیا آگیا کے الفاظ سنے۔ آخر ایک سانپ آیا اور ان کے سروں کے درمیان بیٹھ گیا۔ پھر عبیداللہ بن زیاد کی ناک میں گھس گیا اور کچھ دیر کے بعد باہر نکل کر چلا گیا یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہوگیا۔ پھر لوگوں نے آگیا آگیا کہنا شروع کر دیا۔دوسری دفعہ وہی سانپ پھر آگیا اور جس طرح پہلے کیا تھا اسی طرح اب بھی کیا۔
ثمر بن الجوش کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سامان سے کچھ سونا مل گیا جس میں سے کچھ اس نے اپنی لڑکی کو دے دیا تھا۔اس کی لڑکی نے وہ سونا ایک زرگر کو دے دیا تھا کہ وہ اس کے لئے کوئی زیور بنادے۔ جب زرگر نے سونے کو آگ میں ڈالا تو وہ اس میں بسم ہو کر رہ گیا۔ثمر نے سنا تو زرگر کو بلا کر باقی سونا بھی اسے دے دیا اور کہا کہ میرے سامنے اس آگ میں ڈالو۔ جب زرگر نے اسے آگ میں ڈالا تو وہ بھسم ہوگیا۔ اسی طرح روایت ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے چند اونٹ جو بچ گئے تھے انہیں ظالموں نے ذبح کر دیا اور کباب بنائے۔ ان کا ذائقہ اس قدر یخ تھا کہ ان کے گوشت میں سے کسی کو کھانے کی ہمت نہ ہوئی۔
*شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر اظہار غم*
ایک ثقہ راوی کہتا ہے کہ میں نے ایک ایسے شخص سے جو قبیلہ طے سے ہمارے پاس آیا تھا پوچھا کیا تم نے جناب حسین علیہ السلام پر جنوں کو نوحہ کرتے سنا ہے؟
اس نے کہا: ہاں لیکن اس قبیلہ کے ہر آدمی سے نہ پوچھتے رہنا ورنہ ہر آدمی تمہیں اس بارے میں کچھ بتانے لگے گا۔
میں نے کہا میں تو صرف تم سے پوچھنا بہتر سمجھتا ہوں کیونکہ تو نے بھی تو انہی سے سنا ہے اس نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا جس کے رخسار تاباں اور رخشاں ہیں__ اس کے آباواجداواعلی واخیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
*شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا مدینہ میں رد عمل*
جب مدینہ منورہ میں بعض بد بختوں نے خطبہ دیتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا تو اس شب مدینہ منورہ میں مندرجہ ذیل اشعار سنائی دینے لگے۔لیکن ان کا پڑھنے والا نظر نہیں آتا تھا۔
اے حسین علیہ السلام کو جہالت سے قتل کرنے والوں تمہیں سخت رسوا کن عذاب کی خوشخبری ہو۔ آسمان میں جتنی بھی مخلوق ہے خواہ وہ انبیاء ہوں یا ملائکہ وہ سب تم پر بد دعا کرتے ہیں۔ تم پر لعنت ہو بزبان سلیمان بن داود اور عیسی علیہ السلام جو صاحب انجیل ہیں۔
سر زمین روم کے غازیوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ ایک کنیسہ میں مندرجہ ذیل شعر لکھا ہوا دیکھا
کیا وہ قوم جس نے حسین علیہ السلام کو شہید کیا ہے اس کے جدامجد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بروز حشر شفاعت کی امید رکھتی ہے؟
میں نے پوچھا: یہ شعر کس نے لکھا ہے تو کنیسہ والوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
*سرحسین رضی اللہ تعالی عنہ نوک سناں پر*
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے جب ابن زیاد نے حکم دیا کہ حضرت حسین علیہ السلام کے سر انور کو نیزہ پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں پھریں تو اس وقت میں اپنے مکان کی کھڑکی میں کھڑا تھا۔ جب آپ کا سر انور میرے پاس سے گزرا تو میں نے اسے میں یہ آواز سنی:
اس آواز کی سبیبت سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور پکار اٹھا خدا کی قسم یہ سر تو ابن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ہے اور اس میں ایسی آواز کا صادر ہونا عجیب بات ہے۔
*آسماں راحق بود گر خوں ببار وبرزمیں*
معمرہ زہری رحمہا اللّٰہ تعالیٰ ایک دن عبدالملک بن مروان کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ولید پوچھنے لگا:
تم میں سے کون بتا سکتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے دن بیت المقدس کے پتھر کس حال میں تھے؟
امام زہری نے کہا: مجھے یوں اطلاع ملی ہے کہ اس دن جس پتھر کو بھی اٹھاتے تھے اس کے نیچے تازہ خون پاتے تھے۔
ایک اور صاحب سے روایت ہے کہ جب حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو آسمان سے خون برسنے لگا اور ہماری ہر چیز خون آلود ہو گئی نیز آسمان کئی روز تک آلودہ نظر آتا تھا۔
(شواہد انبوۃ، صفحہ ٣٠٣)
No comments:
Post a Comment