تحبیب الافعال فی تطبیق الاقوال (مع اضافہ )
از- نبیرۂ مظہر اعلی حضرت محقق عصر علامہ فاران رضا خان صاحب حشمتی دامت برکاتہم العالیہ
محرم الحرام میں ذکر شہدائے کربلا رضی اللہ تعالیٰ عنھم اور تعزیہ داری وغیرہ کے تعلق سے عوام اہلسنت کے مابین شش وپنج کی حالت ہوگئی ہے اس کی وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ یہ مسئلہ افراط و تفریط کا شکار ہوگیا کیوں کہ بعض افراد نے اس کی ممانعت میں شدت اور غلو کر ڈالا جسکی وجہ غالباً سرسری مطالعہ اور تحقیق و تطبیق سے عدم توجہی رہی تو بعض نے اس میں ایسے عوارض قبیحہ شامل کرڈالے جو فی نفسہ ناجائز ہیں ، ممانعت کرنے والے افراد اپنے موقف کی تائید میں برجستہ امام اہلسنت اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسالہ تعزیہ داری لاتے ہیں پھر بالکلیہ عدم جواز کا حکم صادر فرمادیتے ہیں اس سے بے اعتنائی کرتے ہوئے کہ فقیہ جب کسی مسئلہ میں کلام کرے خاص کر وہ مسئلہ جو فی نفسہ جائز بلکہ مستحب و مستحسن ہو لیکن عوارض قبیحہ کے شمول اور تشبہ کی وجہ سے ممانعت آئی ہو تو اس پر بالکلیہ عدم جواز کا حکم صادر نہیں ہوسکتا بلکہ جب بھی عوارض قبیحہ اور تشبیہ زائل ہوں گے مسئلہ اپنی حلت کی جانب عود کرے گا اس کی تو ضیح امام اہلسنت فقیہ اسلام اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے رسالہ تعزیہ داری میں یوں بیان فرماتے ہیں :
”یہ فرق نفیس خوب یاد رکھنے کا ہے کہ اسی سے غفلت کرکے وہابیہ اصل حقیقت پر حکم عوارض لگاتے حالانکہ عوارض قبیحہ سے نفس شئی مباح یا حسن قبیح نہیں ہوجاتی بلکہ وہ اپنی حد ذات میں اپنے حکم اصلی پر رہتی اور عوارض قبیحہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے جیسے ریشمین کپڑے پہن کرنماز پڑھنا کہ نفس ذات نماز کو قبیح نہ کہیں گے معاذ اللہ بلکہ ان عوارض و زوائد کو ،،(رسالہ تعزیہ داری )
یہیں سے ایک اہم فرق بھی ذہن نشین کرنے کا ہے کہ اسی کی وجہ سے اکثر حضرات غلط فہمی کے شکار ہوتے ہیں کہ ایک تعزیہ ہے اور ایک مروجہ تعزیہ داری ،تعزیہ بلاشبہ جائز اور اس سے بیشمار فوائد جلیلہ ومنافع جزیلہ شاہد ہیں جیسا کہ خود اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :
”تعزیہ یعنی روضئہ پرنور شہزادئہ گلگوں قبا حسین شہید ظلم و جفا صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علیٰ جدہ الکریم کی صحیح نقل بناکر بہ نیت تبرک رکھنا کہ تصویر مکانات وغیرہا ہر غیرجاندار کی بنانا رکھنا سب جائز اور ایسی چیز یں کہ معظمان دین کی طرف منسوب ہوکر عظمت پیدا کریں ان کی تمثال بہ نیت تبرک پاس رکھنا قطعاًجائز جیسے صدہا سال سے طبقتاً فطبقتاً ائمہ معتمدین نعلین شریفین حضورسید الکونین ﷺ کے نقشے بنانا اور ان کے فوائد جلیلہ و منافع جزیلہ میں مستقل رسالے تصنیف فرمائے ہیں جس طرح حرمین شریفین کعبئہ معظمہ روضئہ عالیہ کے نقشے(رسالہ تعزیہ داری)
ہاں مروجہ تعزیہ داری (یعنی تعزیہ منانے کا جو رواج ہوچلا ہے )ناجائز ہے کہ اس میں ڈھول ماتم امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضئہ پاک کا اصل نقشہ نہ ہونا وغیرہ وغیرہ عوارض قبیحہ کی وجہ سے ممانعت آئی نہ کہ فی نفسہ تعزیہ ناجائز ہوجائے گا۔
تقریب فہم کیلئے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جشن عید میلاد النبی ﷺ ہم اہلسنت کے نزدیک بالاتفاق جائز بلکہ مستحب ومستحسن ہے اب اگر کوئی معاذالمولیٰ تعالیٰ اس میںڈھول وماتم وغیرہ امور مخالفہ شرع داخل کردے تو اب اس میں ممانعت آجائے گی تویہ ممانعت ان عوارض قبیحہ کی وجہ سے آئی نہ کہ معاذاللہ جشن عید میلاد النبی ﷺ ناجائز ہوجائے گا اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں بھی ناجائز و حرام لکھا ہے تو انہیں عوارض کی بنا پر تعزیہ داری کو نہ کہ مطلق تعزیہ کو بلکہ مطلق تعزیہ کو تو آپ نے جائز ہی لکھا ہے ۔
کسی قوم کا اگر کچھ شعار بن جائے پھر ان سے تشبہ کی وجہ سے اس میں ممانعت آجائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ہمیشہ کیلئے منع ہوگیا بلکہ جب بھی وہ تشبہ جو اس کی ممانعت کی علت ہے زائل ہوگا حکم اسی اصل حلت کی جانب عود کریگا جیسے جینس ،پینٹ، شرٹ ،جو ایک دورمیں یہودکا شعار تھا لہٰذا ان سے تشبہ کی وجہ سے اس میں ممانعت تھی لیکن آج جبکہ مسلمان واہل ہنود وپنجابی یہودی غرض کہ ساری قومیں سب پہن رہی ہیں تو اب نہ تو یہود کا وہ خاص شعار رہ گیا اور نہ تشبہ فلھٰذا ہمارے علماءنے اس میں رخصت دی کہ علت ممانعت زائل ہوگئی تو اصل الشئی حل کہ شئی کی اصل حلال ہونا ہے
دیکھو ! امام اہلسنت سرکار اعلیٰحضرت قدس سرہ اپنے رسالہ مبارکہ ”وشاح ُ الجید فی تحلیل معانقة العید،،میں ارشاد فرماتے ہیں:
” اتنا اور سن لیجئے کہ کسی طائفہ باطلہ کی سنت جبھی تک لائق احترازرہتی ہے کہ وہ ان کی سنت رہے ،اور جب ان میںسے رواج اُٹھ گیا تو ان کی سنت ہونا ہی جاتا رہا ،احتراز کیوں مطلوب ہوگا ۔مصافحہ بعد نماز اگر سنت روافض تھا تو اب ان میں رواج نہیں ،نہ وہ جماعت سے نماز پڑ ھتے ہیں نہ بعد نماز مصافحہ کرتے ہیں ،بلکہ شاید اول لقاءپر بھی مصافحہ ان کے یہاں نہ ہو کہ ان اعدائے سنن کو سنن سے کچھ کام ہی نہ رہا۔تو ایسی حالت میں وہ علّت سرے سے مرتفع ہے ۔
درمختار میں ہے : یجعلہ لبطن کفّہ فی یدہ الیسریٰ ،وقیل الیمنیٰ الاانہ من شعارالروافض فیجب التحرزعنہ ،قھستانی وغیرہ ،قلت و لعلّہ کان وبان فتبصّر۔
(مرد)انگوٹھی بائیں ہاتھ میں ہتھیلی کی طرف کرے ،اور کہا گیا دائیں ہاتھ میں پہنے ،مگر یہ رافضیوں کا شعار ہے ،تو اس سے بچنا ضروری ہے (قہستانی وغیرہ )میں نے کہا یہ کسی زمانے میں رہا ہوگا پھر ختم ہوگیا ،تو اس پرغور کرلو ۔(ت)
رد المحتار میں ہے : ای کان ذلک من شعارھم فی الزمن السابق ثم انفصل و انقطع فی ھذہ الازمان فلاینھیٰ عنہ کیفما کان ۔
یعنی وہ گزشتہ زمانے میں ان کا شعار تھا پھر ان زمانوں میں نہ رہا اور ختم ہوگیا تو اب اس سے ممانعت نہ ہوگی،جیسے بھی ہو۔
اب تو بحمد اللہ سب شکوک کا ازالہ ہوگیا ،فاحفظ و احمد و کن من الشاکرین والحمدللہ ربّ العٰلمین (تو اسے یا د رکھو اور حمد کرو اور شکر گزار بنو اور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے .(فتاویٰ رضویہ شریف ج ۸ ص ۴۳۶)
اسی طرح تعزیہ جو ایک دور میں اہل تشیع کا شعار تھا اب نہ رہا کہ اب اہلسنت و جماعت کے افراد بھی مناتے ہیں اگر چہ عوارض قبیحہ بھی اس میں داخل کردیتے ہیں کہ اب اس دور میں اگر آپ لوگوں کو تعزیہ رکھے ہوئے دیکھو گے بغیر شک و تردد کے شیعہ کا حکم نہیں لگا سکتے بلکہ اس دورمیں اکثریت اہلسنت وجماعت ہی کی ہوچلی ہے لہذا تشبہ اہل تشیع تو فی زماننا مفقود تو اب علت ممانعت نہ رہی مگر عوارض قبیحہ ۔
تعزیہ اور تعزیہ داری کے مابین فرق نفیس اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں بیان فرماتے ہیں :
”تعزیہ جس طرح رائج ہے ضروربدعت شنیعہ ہے جس قدربات سلطان تیمور نے کی کہ روضئہ مبارک حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح نقل تسکین شوق کو رکھی وہ ایسی تھی جیسے روضئہ منورہ کعبہ معظمہ کے نقشے اس وقت اس قدر میں حرج نہ تھا اب بوجہ شیعی وشبیہ اس کی بھی اجازت نہیں ،یہ جو باجے ،تاشے،مرثئے ،ماتم،برق پری کی تصویریں ، تعزیہ سے مرادیں مانگنا اس کی منتیں مانگنا اسے جھک جھک کر سلام کرنا سجدہ کرنا وغیرہ وغیرہ بدعات کثیرہ اس میں ہوگئی ہیں اور اب اسی کا نام تعزیہ داری ہے یہ ضرورحرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹ صفحہ نمبر۴۹۱ب)
اہل علم پر مخفی نہیں کہ جب فقیہ حرا م کے مقابل” اجازت نہیں ،،بولے تو اس میں ممانعت کس قدرہوتی ہے ملاحظہ ہو فرماتے ہیں :
فقہا اگر یہ حکم کریں کہ فلاں امر کا ترک بہتر ہے تو اس سے ہرگز یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ چیز ناجائز ہے بلکہ مکروہ ہونا بھی لازم نہیں آتا(فتاویٰ رضویہ شریف ج۸ )
اب اس کی ممانعت نہ رہی مگر جیسا کہ خود فرمارہے ہیں کہ” بوجہ شیعی وشبیہ ،، اور ہم ماقبل میں یہ وضاحت کرچکے ہیںکہ اب یہ اہل تشیع کا شعار نہ رہا لہذا حکم پھر اپنی حلت کی جانب راغب ہوگا جیسا کہ سلطان تیمور کے زمانے میں تھا ۔
یہیں سے ایک اور بات ذہن نشین کرنے کی ہے جیسا کہ اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ باجے ،تاشے ،برق پری کی تصویر یں تعزیہ سے مرادیں مانگنا اس کی منتیں مانگنا اسے جھک جھک کر سلام کرنا سجدہ کرنا وغیرہ وغیرہ بدعات کثیرہ اسی کا نام تعزیہ داری ہے،۔
لہذا آپ نے جہاں بھی تعزیہ داری کو ناجائز و حرام فرمایا ہے تو وہی ہے جن میں یہ سب خرافات کثیرہ داخل ہوں نہ کہ معاذ اللہ اصل روضئہ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقشہ کو حرام لکھا ہے یہیں سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ رسالہ تعزیہ داری مروجہ تعزیہ داری کے رد میں ہے نہ کہ مطلق تعزیہ داری کے رد میں بلکہ اس کو تو آپ نے اسی رسالے میں جائز ہی بتا یا کما مر فافھم ولا تکن من الغٰفلین ،
نیز والد ماجد اعلیٰحضرت خاتم المحققین رئیس المتکلمین حضرت علامہ مولانا نقی علی خاں صاحب قبلہ قدس سرہ القوی کتا ب مستطاب ”اصول الرّشاد لقمع مبانی الفساد ،، میں فرماتے ہیں :
”فعل حسن مقارنت و مجاورت فعل قبیح سے اگر حُسن اس کا اس کے عدم سے مشروط نہیں مذموم ومتروک نہیں ہوجاتا ،
حدیث ولیمہ میں (جس میں طعام ولیمہ کو شرّالطعا م فرمایا ) قبول ضیافت کی تاکید ،اور انکا ر پر اعتر اض شدیدہے ۔
”ردّ المحتار ،، میں درباب زیارت قبور لکھا ہے :”قال ابن حجر فی ”فتاواہ ،، :”ولاتترک لما یحصل عندہ من المنکرات والمفاسد ، لان القربة لا تترک لمثل ذلک ،بل علی الانسان فعلھا وانکار البدع بل وازالتھا ان امکن ،،قلت:ویو ¿یدہ مامرّمن عدم ترک اتّباع الجنازة ،وان کان معھا نساءنائحات،،انتھی ملخّصاً اور نیز جب عمل سنت پر بدون ارتکاب بدعت ممکن نہ رہے تو سنت کو ترک کریں ،عبارت © ©”فتح القدیر ،،کا : ماتردّد بین السنّة والبدعة فترکہ لازم ،،محمل وہ چیز ہے جو فی نفسہ مثل سور حمار مشتبہ ہو ، نہ یہ کہ جس امر کے سنت وبدعت ہونے میں اختلاف ہو اس کا ترک واجب ہے ۔
خود صاحب ”فتح القدیر ،، نے محل اختلاف میںبارہا حکم استحباب کا دیا ،اور ابوالمکارم نے ”شرح مختصر وقایہ ،، میں ایسے مادّے میں بحوالہ امام قاضی خاں فعل کو ترک سے اولیٰ کہا ،اور صلاة ضحی (کہ سنت و بدعت ہونے میں اختلاف ہے )بایں ہمہ کسی نے ترک اس کا واجب نہ ٹھہرایا ،بلکہ خود قائلین بدعت نے استحباب کی تصریح فرمائی ،اور نیز قاضی خاں نے ختم قرآن جماعت تراویح میں اور دعا عندالختم کی بوجہ استحسان متاخرین اجازت دی ،اور ممانعت کی ممانعت کی ،الی غیر ذلک من الامثلة الکثیرة المشھورة ۔
اصل اس باب میں یہ ہے کہ مستحسن کو مستحسن جانے اورقبیح کی ممانعت کرے ،اگر قادرنہ ہو ،اسے مکروہ سمجھے ہاں اگرعوام کسی مستحسن کے ساتھ ارتکاب امر ناجائزکا لازم ٹھہرالیں اور بدون اس کے اصل مستحسن کو عمل ہی میں نہ لائیں ، تو بنظر مصلحت حکام شرع کو اصل کی ممانعت و مزاحمت پہنچتی ہے ۔ اسی نظر سے بعض علما نے ایسے افعال کی ممانعت کی ہے لیکن چونکہ اس زمانہ میں خلق کی امور خیر کی طرف رغبت اور دین کی طرف توجہ نہیں ،اور مسائل کی تحقیق سے نفرت کلّی رکھتے ہیں ،نہ کسی سے دریافت کریں ،نہ کسی کے کہنے پر عمل کرتے ہیں ،ولہٰذا اکثر افعال خرابیوں کے ساتھ واقع ہوتے ہیں اس کے ساتھ ان کو چھوڑ دینے سے باک نہیں رکھتے ،اب اصل کی ممانعت ہی خلاف مصلحت ہے ،ولہٰذا علمائے دین نے ایسے امور کی ممانعت سے بھی (کہ فی نفسہ خیر اور بسبب بعض عوارض خارجیہ کے مکروہ ہوگئے )منع فرمایا ،کمامرّ من الدرّالمختار ،،امّا العوام فلا یمنعون من تکبیر ولا تنفل اصلاً ؛لقلّة رغبتھم فی الخیرات۔ اور اسی نظر سے ”بحر الرائق ،،میں لکھا :”کسالی القوم اذا صلّوا الفجر وقت الطلوع لا ینکر علیھم ؛لانھم لو منعوا یترکونھا اصلاً ،ولو صلّوا یجوز عند اصحاب الحدیث ،واداءالجائز عند البعض اولی من الترک اصلاً ،،
دیکھو !ان اطبائے قلوب نے خلق کے مرض باطنی کو کس طرح تشخیص اور مناسب مرض کے کیسا عمدہ علاج کیا ،جزاھم اللہ احسن الجزاء،برخلاف اس کے نئے مذہب کے علما مسائل میں ہر طرح کی شدّت کرتے ہیں ،اور مستحسنات ایمہ دین ،مستحبات شرع متین کو شرک وبدعت ٹھہراتے ہیں ،تمام ہمت ان حضرات کی نیک کاموں کے مٹانے میں (جو فی الجملہ رونق اسلام کے باعث ہیں )مصروف ہے اس قدر نہیں سمجھتے کہ لوگ انہیں چھوڑ کرکیا کام کریں گے ؟!،اور جوروپیہ کہ ان کاموں اور انبیا واولیا ءکے اعتقاد میں صرف کرتے ہیں وہ کس کام میں صرف ہوگا ؟!ہم نے تو ان حضرات کے احتساب و نصیحت کا اثریہی دیکھا ہے کہ مسلمانوں میں ایک نیا اختلاف اور روز مرہ کا جھگڑ ا فساد پید ا ہوگیا ،ایک مذہب کے دوہوگئے ،کوئی کسی کو مشرک و بدعتی ،اور وہ اس کو وہابی گمراہ جہنمی کہتاہے ،کسی نے مجلس میلاد چھوڑ کر مسجد نہیں بنوائی ،یا گیا رہویں اور فاتحہ کے عوض دو چار طلبہ علم کو ایک وقت روٹی نہ کھلائی ،کسی نے وہ روپیہ ناچ رنگ میں صرف کیا ،اور جو عیاش نہ تھا اس نے سوائے ڈیوڑھے پر لوگوں کو قرض دیا ،سیکڑوں میں دوچار ایسے بھی سہی کہ اُنہوں نے سال میں ایک دو بار وہابی مولویوں کو دعوت بھی کھلادی ،اپنے واسطے دین کو مٹانا ،اور خلق خدا کو بہکانا ،کس مذہب و ملت میں رواہے ؟! اگر خست طبع اور دنائت صرف کو گوارا نہیں کرتے ، اور ”لا تصرف ،، کے سوا تم نے کچھ نہیں پڑھا ہے تو یہ افعال فرض وواجب نہیں ! اور نہ تم سے کوئی مواخذہ کرتا ہے ! مگر دوسرے کو مانع ہونے ،
اور اس غرض کے لئے نئے اصول اختراع کرنے ،اور نیا مذہب بنانے سے کیا فائدہ ؟
معاذ اللہ دنائت اور خست اس حد کو پہنچی کہ جس کا م میں روپیہ کا خرچ پاتے ہیں اس کے مٹانے میں کس درجہ اِصرار فرماتے ہیں ! ،صَرف کرنا تو ایک طرف ،دوسروں کو خرچ کرتے دیکھ کر گھبراتے ہیں ! یہی وجہ ہے کہ دَنی ُالطبع ،قاسی القلب اس مذہب کو بہت جلد قبول کرلیتے ہیں ،صَرف کو تو اپنا نفس نہیں چاہتا ،لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچنے کا یہ حیلہ خوب ہاتھ آتا ہے کہ ”ہم کیا کریں ،
”ہمارے علماءان امور کو بدعت بتاتے ہیں “، ان صاحبوں نے بخل نفس کا نام اتباع سنت رکھا ہے ،اور تعظیم و تکریم انبیا و اولیا سے انکار کو توحید ٹھہرایا ہے ۔(اصول الرّشاد لقمع مبانی الفساد صفحہ ۶۴۱)
تعزیہ داری کے رد میں اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعد د فتاویٰ کو پڑھنے کے بعد اس بات کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ آ پ کا مقصود روافض کا رد بھی تھا جیسا کہ فتاویٰ مذکور میں آگے ارشاد فرماتے ہیں :
”دبیر انیس وغیرہ اکثر روافض کے مرثئے تبرا پر مشتمل ہوتے ہیں اگر چہ جاہل نہ سمجھیں اور نہ بھی ہو تو جھوٹی ساختہ روایتیں خلاف شرع کلمات اہل بیت طہارت کی معاذاللہ ذلت کے ساتھ بیان اور سرے سے غم پروری کے مرثئے کس نے حلال کئے ۔
حدیث شریف میں ہے نھی رسول اللہ ﷺ عن المراثی رسول ﷺ نے مرثیوں سے منع فرمایا،، (فتاویٰ رضویہ شریف جلد نمبر ۹صفحہ نمبر ۴۹۱ب)
لیکن جب آپ سے اہلسنت وجماعت کی مجلس میں مرثیہ خوانی اور اس میں شرکت کی بابت دریافت کیا گیا تو اس کو نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ حسن و محمود فرماتے ہیں ملاحظہ ہو :
مسئلہ ۔یہاں عشرہ محرم میں مجلس مرثیہ خوانی کی ہوتی ہے اور مرثیہ صوفیہ کرام کے پڑھے جاتے ہیں اور سینا کوبی و بین نہیں ہوتا ہے اور میر مجلس سنن المذہب ہے ایسی مجلس میں شرکت یا اس میں مرثیہ خوانی کا کیا حکم ہے
جواب ۔جو مجلس ذکر شریف حضرت سیدنا امام حسین واہلبیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی ہو جس میں روایات صحیحہ معتبرہ سے ان کے خصائل و مقامات ومدارج بیان کئے جائیں اور ماتم و تجدید غم و غیرہ امور مخالفئہ شرع سے یکسر پا ک ہو حسن و محمود ہے خواہ اس میں نثر پڑھیں یا نظم اگر چہ وہ نظم بوجہ ایک مسدس ہونے کے جس میں ذکر حضرت سید الشہداءہے عرف حال میں بنام مرثیہ موسوم ہو کہ اب یہ وہ مرثیہ نہیں جس کی نسبت حدیث ہے نھی رسول ﷺ عن المراثی واللہ سبحٰنہ تعالیٰ اعلم(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۹ صفحہ نمبر۴۸۱)
تشبہ کے متعلق اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک طویل فتوے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تحقیق حق یہ کہ تشبہ دو وجہ پر ہے (۱) التزامی ،(۲)و لزومی ۔ التزامی یہ کہ یہ شخص کسی قوم کے طرز و وضع خاص اسی قصد سے اختیار کرے کہ ان کی سی صورت بنا ئے ان سے مشابہت حاصل کرے حقیقتاً تشبہ اسی کا نام ہے فان معنی القصد والتکلف ملحوظ فیہ کما لا یخفیٰ ،اور لزومی یہ کہ اس کا قصد تو مشابہت کا نہیں مگر وہ وضع اس قوم کا شعار خاص ہو رہی ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیدا ہوگئی۔(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹ صفحہ نمبر۰۹)
ہر شخص جانتا ہے کہ تعزیہ رکھنے والے مسلمانوں کا یہ قصد تو ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ روافض سے مشابہت کریں بلکہ اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی فتوے میں آگے ارشاد فرماتے ہیں ©”نہ زنہا ر قلب پر حکم روانہ بد گمانی جائز” قال اللہ تعالیٰ ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفوادکل اولٰئک کان عنہ مسﺅلا ،، پس ثابت ہوگیا کہ تعزیہ میں حدیہ ہے کہ تشبہ لزومی قرار دیا جائے جس کے بارے میں آپ اسی فتوے میں تحریر فرماتے ہیں کہ لزومی میں بھی حکم ممانعت ہے ۔
پھر دو سطر بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ” مگر اس کے تحقق کو اس زمان و مکان میں ان کا شعار خاص ہونا قطعاً ضرورجس سے وہ پہچانے جاتے ہوں اور ان میں اور ان کے غیر میں مشترک نہ ہو ورنہ لزوم کا کیا محل ،،سبحان اللہ کتنے واضح طور پر ارشاد فرمارہے ہیں کہ لزومی کے تحقق کیلئے دو چیز وں کا ہونا ضروری ہے ۔
(۱ )اس زمان و مکان میں ان کا ایساخاص شعار ہوجس سے وہ پہچانے جاتے ہوں ۔
(۲)ان میں اور ان کے غیر میں مشترک نہ ہو ۔
اب تعزیہ کی جانب چلئے توفی زماننا یہ دونوں شرطیں مفقود ہیں کہ اب نہ تو تعزیہ روافض کا خاص شعار بچا ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں کہ اب اہلسنت بکثرت اسے رکھتے ہیں ،یہیں سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ وہ صرف روافض کے ساتھ خاص نہیں بلکہ غیر میں مشترک بھی ہوگیا ہے۔
ان ہی ںتمام وجوہات کی بناءپر اجمل العلما ءحضرت علامہ مفتی محمد اجمل شاہ صاحب قادری رضوی اشرفی نعیمی علیہ الرحمة والرضوان اپنے فتاویٰ مبارکہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
تعزیہ کی نقل چونکہ غیر جاندار کی تصویر ہے لہذا اس کا بنیت تبرک رکھناشرعاً جائز ہے اور ایک جگہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ زیارت کے جواز میں بھی کوئی کلام نہیں ہوسکتا بلکہ یہاں تک فرمارہے ہیں کہ اگر وہ بوسیدہ ہوجائے یا اس کے باقی رہنے میں کسی بے ادبی اور ترک تعظیم کا خوف ہو تو اس کے دفن کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں
نیز فرماتے ہیں کہ اسی طرح جب ان واقعات کو سن کر دل بھر آ ئے اور آنکھوں سے بلا قصد اشک رواں ہوں اور رقت طاری ہو تو یہ رونا نہ فقط جائز بلکہ رحمت و ایمان کی علامت ہے اور اہل بیت کرام کے ساتھ ایسی دلیل محبت ہے جو روز قیامت باعث نجات و مغفرت ہے اور یہ واقعہ ہے جو ان شہداءکے ذکر شہادت کو نا جائز کہے اور شربت و نیاز کو حرام لکھے اور ان کے مصائب کے واقعات کو سن کر بھی اس پر کوئی اثر مرتب نہ ہو تو اس نے یزید کا قلب اور شمر کا جگر پایا ہے معاذاللہ اور یہ سب چیزیں دیوبندی جماعت کی علامت ہے ۔(فتاویٰ اجملیہ )
نیزامام اہلسنت سرکار اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
”پھر کیا کہنا ہے اونکا جو حضور کے جگر پارے اور عر ش کی آنکھ کے تارے ہیں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ”حسین منی وانا من حسین احب اللہ من احب حسینا حسین سبط من الاسباط ،،حسین میرا اور میں حسین کا اللہ دوست رکھے اوسے جو حسین کو دوست رکھے حسین ایک نسل نبوت کی اصل ہے ۔یہ حدیث کس قدر محبت کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے ایک بار نام لیکر تین بار ضمیر کافی تھی مگر نہیں ہر بارلذت محب کیلئے نام ہی کا اعادہ فرمایا ۔
کماقالوا فی قول القائل :
تاللہ یاظبیات القاع قلن لنا: الیلای منکن ام لیلیٰ من البشر
کون سا سنی ہوگا جسے واقعہ ہائلہ کربلا کا غم نہیں یا اس کی یا دسے اوس کا دل محزون اور آنکھ پرُنم نہیں ہا ں مصائب میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے جزع فزع کو شریعت منع فرماتی ہے اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اوسے جھوٹااظہار غم ریا ہے او ر قصداً غم آوری و غم پروری خلاف رضا ہے جسے اس کا غم نہ ہو اوسے بیغم نہ رہنا چاہئیے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہئیے کہ اوس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اوس کا ایمان ناقص ۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔(فتاویٰ رضویہ جلد۹صفحہ ۸۳۱)
ھذا ماظھر لی واللہ تعالیٰ و رسولہ اعلم جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ واہل بیتہ واصحابہ اجمعین
فقیر سگ بارگاہ مشاہد
محمد فاران رضا خاں حشمتی
غفرلہ القوی
آستانہ عالیہ حشمتیہ حشمت نگر پیلی بھیت شریف
نائب پرنسپل الجامعة الحشمتیہ مشاہدنگر ماہم ضلع گونڈہ یوپی
No comments:
Post a Comment