یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
از:- بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ
کہتے ہیں کہ شیر بیشۂ اہل سنت حضرت علامہ حشمت علی خان لکھنوی رحمۃ الله تعالی علیہ ٨ محرم الحرام ١٣٨٠ھ کو دن میں دس بجے رحلت فرما گئے ۔ ان کے ساتھ ایک قرن ختم ہو گیا ، تاریخ کا ایک دور ان کے آنکھ بند کرتے ہی تمام ہو گیا اور ایک ہنگامہ پرورعالم ان کے ساتھ ہی ابدی نیند سو گیا۔ محبتِ رسول کی کتنی محفلیں سونی ہو گئیں، معاندین رسالت سے مجادلے اور مناظرے کی کتنی بساطیں سرد پڑگئیں، اور دنیائے ملت مرحومہ کی پاسبانی کرنے والے ایک چوکس دیدہ ور سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئ۔
آہ ! ایک متبحر عالم نہیں رہا، شب زندہ دار عابد نہیں رہا، ایک زبان داں مناظر نہ رہا، ایک زندہ دل صوفی نہ رہا ، ایک عندلیب زمزمہ سنج نہ رہا ،ایک دہاڑنے والا شیر نیستاں نہ رہا۔ بلکہ سچ پوچھو تو وہ کیا گیا آثارِ سلف کا ایک اور تاج محل ڈھہ گیا ۔ جب تک وہ رہا اپنوں کی سرد مہری ، غیروں کی ایذا رسانی ، دوستوں کی مہربانی اور دشمنوں کی عداوتوں کے طوفان میں مضبوط چٹان کی طرح جما رہا۔ وقت کا کوئی دھارا اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکا۔ وہ الله و رسول۔جل جلالہ و صلی الله علیہ وسلم کے دشمنوں سے لڑتا رہا ، ان کی دسیسیہ کاریوں کا راز فاش کرتا رہا اور عواقب و نتائج سے بے پرواہ کبھی کفروطغیان سے صلح نہ کر سکا۔ بجلیاں چمکتی رہیں ، بادل گرجتے رہے ، طوفان آنکھ دکھاتا رہا اور مصائب و آلام نے باربار جھنجھوڑا ۔ لیکن اس زبان حق بیان سے شمع حقیقت کی لو کسی طرح نہ بجھی نہ تھر تھرائی۔
ہزار بار نتائج سے ہو کے بے پراوہ
اسی کا نام لیا جس کا نام لینا تھا
وہ جس کو خلوص قلب کے ساتھ حق سمجھتا رہا وہی کہتا رہا، چاہے دوست خفا ہوں یا دشمن ناراض، اپنے ساتھ چھوڑیں یا غیر نیزے سنبھالیں، خویش و اقارب سرزنش کریں یا پرائے موت کا جام تیار کریں، اور عجب نہیں کہ اس کی اس ادا پر کل میدانِ محشر میں رحمت کو جوش آجائے اور پکار اٹھے
ع یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
خدا سمجھے مخالف پریس نے اپنی پوری طاقت صرف کردی ہے، اور باہری دنیا میں ڈھول پیٹ دیا ہے کہ طبقہ اہلِ سنت و جماعت کا فسادی ، مسلمانوں کی جماعت میں آگ بھڑکانے والا ، اپنے حلوے مانڈے کی خاطر جلب منعفت اور حصولِ زر کے لیے اپنی ارادت و پیری کی دوکان چمکانے کے لیے مسلمانوں کو ملنے نہیں دیتا۔ اور ان میں کفر و فسق کی چنگاریوں سے آگ بھڑکاتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں انھیں حضرت علامہ حشمت علی خاں صاحب علیہ الرحمہ کی ذات پر دعویٰ کی دلیل اور ہر جھوٹ کی شاہد بتائی جاتی ہے۔ اس پروپیگنڈہ کے پیش نظر ہم تو سمجھتے ہیں کہ جب تنہا ایک شخص حصولِ زر کی خاطر غیر منقسم ہند کے تقریباً دس کروڑ ، منقسم ہند کے چھ کروڑ مسلمانوان کو لڑاتا رہا تو کم از کم نواب حیدر آباد جتنا مالدار ضرور ہو گیا ہوتا آغاز خاں یا ملا طاہر جتنا سرمایہ دار تو ضرور ہو گیا ہوتا،آغاخاں یا ملا طاہر جتنا سرمایہ دار تو ضرور ہوگیا ہوتا۔ اگر حصول زر کا یہ طریقہ اتنا ہی کامیاب ہے تو ہر شہر میں اس کی کوٹھیاں ہوتیں اور ہر علاقہ میں اس کی عشرت گاہیں۔ لیکن یہ کتنی درد ناک حقیقت ہے کہ جب ان کا وصال ہوا تو وہ اپنی معیشت سے تنگ تھے وہ اپنے بچوں کو تحریر کرتے ہیں :
"عزیز طویل علالت کے سبب بالکل تنگ ہو گیا ہوں اور آمدنی محدود سے محدود، تم لوگ کسی طرح گزر بسر کرو اور تعلیم حاصل کرو۔"
جب کہ دوسری طرف کتنے شیخ الاسلاموں ، امن کے علمبرداروں اور ملت کے خیر خواہوں ، حکیموں کی موت و حیات میں بغیر کسی مادی سبب کے روپیوں کی ریل پیل اور سرمایوں کا انبار ہے ۔ جس کے سہارے عظیم کوٹھیوں اور طویل خانقاہوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ اور حضرت کے قدم جہاں پہنچ جاتے ہیں ایک نئی بلڈنگ جنم پا لیتی ہے ۔ نہ معلوم یہ کون سا خفیہ دستِ غیب ہے کہ یہ بدنام فسادی بے چارہ بقول معاندین زندگی بھر حصولِ زر کے لیے لوگوں کو لڑاتا رہا، لیکن وفات پائی تو معلوم ہوا کہ ہاتھ خالی ہے۔
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ الزام تراشیوں سے قطع نظر ہم ان کی تحریک کا مبصرانہ جائزہ لیں۔ آیا واقعی ان کا پیغام غیر مفید اور باعثِ ضرر تھا یا اسلامی تنظیم کا ایک ناگزیر عمل تنقید ہے جس کے بغیر کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی حق باطل کے میل سے نہیں بچ سکتا۔ مولانا علیہ الرحمہ اپنی ساری زندگی مشہور و معروف بتان محراب و منبر کے خلاف جد و جہد کرتے رہے، جو تقدیس کے گنبد میں بیٹھ کر ایک طرف تو اسلام کی عزت ، اس کے ناموسِ رسول صلی الله علیہ وسلم کی حرمت سے کھیلتے ہیں ، ان کا قلم مذہبی عیاشیوں میں مبتلا اور دماغ فکری بے راہ رویوں سے داغ دار رہا۔ دوسری طرف بزعم خویش مذہبی سربراہی اور قیادت دینی کے بھی دعوے دار تھے اور بد قسمتی سے عوام و خواص کی ایک بھیڑ بھی ان کے ارد گرد جمع ہو گئی تھی جو ان کا ہر مصرع اٹھاتی اور ہر شعر پر گرہ لگاتی۔ مولانا علیہ الرحمہ نے اس پورے طائفہ کے خلاف دین و دیانت کی پوری ذمہ داری کے ساتھ ایک مقدس تحریک جاری رکھی اور پوری شدت کے ساتھ یہ ظاہر کرتے رہے کہ دین میں نئی راہ نکال کر لوگ خود دین سے نکل گئے ہیں ۔ خدا اور رسول کی بغاوت کر کے اسلام کے دائرے سے الگ ہو گئے ہیں۔ اس لیے مسلمان ان گمراہوں سے آگاہ رہیں، ان سے رسم و راہ نہ بڑھائیں، ان سے تعلقات مہر و محبت نہ قائم کریں ، ان سے شادی بیاہ نہ کریں ، ان کو اپنے سے الگ رکھیں ، کہیں وہ اپنی بیماری صحت مند مسلمانوں میں نہ پھیلا دیں ، کہیں یہ لوگ گمراہی کے جراثیم صحیح العقیدہ مسلمانوں میں بھی نہ داخل کر دیں۔
(مضامین بحرالعلوم ، حصہ دوم، صفحہ ٩٢)
No comments:
Post a Comment