چہرےکا حسن وزینت
از:- حجتہ الاسلام امام محمد غزالی رضی المولیٰ عنہ۔
پھر پلکوں کی تخلیق سے اس آنکھوں کی حفاظت کے علاوہ آنکھوں اور چہرے کا حسن و زینت بھی قدرت کو منظور ہے اس لیے ان کے بالوں کو ایک انداز سے بڑا رکھا کہ زیادہ بڑے ہونے سے آنکھوں کو اذیت ہوتی اور اگر زیادہ چھو ٹے ہوئے تو بھی آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہوتے۔ آنسوؤں کو قدرت نے نمکین بنایا کہ آنکھوں کا میل کچیل صاف ہو جائے۔ پلکوں کے دونوں اطراف کو اس سے مائل اور جھکا ہوا بنایا کہ آنسوؤں کے ذریعے آنکھوں کا میل گوشہاۓ چشم سے بہ کر باہر جا سکے آنکھوں پر دونوں آبروں حفاظت اور چہرے کی زینت کے لیے بنائی ہیں۔ انسان کے موزوں بال جھالر کی طرح ہوتے ہیں جو چہرے پر خوبصورت معلوم ہوتی ہیں۔ سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو اس طرح بنایا کہ جو ایک خاص رفتار سے بڑھتے ہیں۔ تاکہ ان میں کمی بیشی کر کے ہر شخص جس وضع قطع کو پسند کرتا ہے۔ ان کو (سنت کے مطابق) بنا سکے۔ منہ اور زبان میں خدا نے کیسی کیسی حکمتیں اور قوتیں ودیعت کی ہیں منہ کے بند کرنے کے لیے بطور دروازہ دو ہونٹ بناۓ کہ ضرورت پر کھولے جا سکیں اور بے ضرورت (یہاں اصل کتاب میں الفاظ صاف نہیں) کر منہ میں مضر چیزیں گھس کر نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس کے علاوہ دانتوں اور مسوڑوں کی حفاظت اور زینت بھی ان ہونٹوں سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر ہونٹ نہ ہوتے تو منہ بدنما بھی معلوم ہوتا اور غیر محفوظ بھی۔ ان ہونٹوں سے بات کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ان کی مختلف حرکات سے بعض حروف پیدا ہوتے ہیں اور انسان اپنے مافی الضیمر کو ان کی مدد سے ظاہر کرتا ہے ان ہونٹوں کی مدد سے کھانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ لقمہ کو منہ کے اندر ادھر ادھر پلٹنے کا کام انہیی ہونٹوں سے لیا جاتاہے تاکہ کھانا داڑھوں کے نیچے رہ کر اچھی طرح چبایا جا سکے۔ گویا اس طرح یہ ہضم میں بڑی مدد پہنچا تے ہے۔
دانتوں کی ساخت
دانتوں کی بناوٹ (ساخت) کو دیکھو کہ قدرت نے ان کو بتیس ٹکڑوں میں بنایا ہے۔ سب کو ایک سالم ہڈی کے ٹکڑے کی شکل میں نہیں بنایا ورنہ منہ کے اندر اس سے بڑی اذیت ہوتی۔ موجودہ شکل میں اگر دانت میں خرابی پیدا ہو تو باقی دانت سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ایک سالم ہڈی کا ٹکڑا ہونے کی صورت میں یہ ممکن نہ تھا۔ دانتوں سے حسن و زینت کے علاوہ ہم کتنا کام لیتے ہیں۔ اگر دانت نہ ہوتے تو کھانا کھانا دشوار ہوتا۔ اور سخت قسم کی چیزوں کا کھانا ناممکن ہوتا پھر ان کی ساخت پر غور کرو کہ کس طرح سے ان میں دندانے بنائے اور جڑوں کو کس مضبوطی سے مستحکم کیا ہے۔ کہ سخت ہڈی کو ہم دانتوں کی مدد سے پیسں ڈالتے ہیں۔ اور اسی مصلحت سے اس کے ساخت کو بہت سخت رکھا کہ نرم ہونے کی صورت میں ان سے کام لینا ممکن نہ تھا یہ سب اس مصلحت سے کہ کھانا جسم کے اندر ایسی حالت میں جائے کہ جلد ہضم ہوکر بدن کا جزو بن جائے اور بدل مایتحلل ہوکر انسان کو قوت بخشے حکما کا قول ہے کہ کھانے کے ہضم کے مختلف درجات ہیں اور پہلا درجہ منہ ہے جسکو ہضم اوّل کہتے ہیں۔
دانتوں کے اطراف میں دونوں طرف داڑھیں بنائیں تاکہ سخت چیز کے کاٹنے میں ان سے مدد لی جائے۔ جڑوں کو مضبوط کیا یہ دانت سفید رنگ کے برابر برابر ایک قطار میں آب دار موتیوں کی طرح جڑے ہوئے منہ میں کیسے خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔
قدرت نے منہ کے اندر رطوبت کو اس طرح پوشیدہ کیا وہ ہے کہ کھانا چبا نے کے وقت پیدا ہوتی ہے کھانے میں مل کر ہضم میں مدد دیتی ہے اگر کھانے کے علاوہ منہ میں بھری رہتی تو بات کرنے میں بڑی دشواری ہوتی اور منہ کا کھولنا مشکل ہوتا۔ اور منہ کھولتے وقت رطوبت کا باہر آجانا یقینی تھا اس لیے کھانے کے قوت ظاہر ہونا تاکہ وہ کھانے کے ہضم میں مدد دے اور بعد میں اسکا غائب ہونا یہ عین حکمت اور مصلحت ہے بعد میں بس اتنی رطوبت کا رہنا ضروری ہے جس سے حلق تر رہے اور سوکھنے نہ پائے ورنہ پھر کلام کرنا دشوار ہو جائے حتّیٰ کہ آلودگی کے غلبہ سے پھر سانس اور دم گھٹنے لگے اور انسان ہلاک ہو جائے۔ اس حکیمِ مطلق کی لطف و کرم کو دیکھو کہ اس نے انسان کو کھانا کھانے کے لیے لذت اور قت ذائقہ زبان میں رکھی کہ وہ اپنے موافق و مناسب چیزوں کو استعمال کرے اور خراب و بد مزہ نا مناسب اشیاء کو ترک کردے۔ اس لذت کی وجہ سے کھانا کھانے میں خاص مدد ملتی ہے اور جو کھانا مزے لے لے کر کھایا جائے وہ ہضم خوب ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کو طبیعت قبول کرتی ہے۔ ورنہ بد مزہ کھانا جس کے کھانے سے کراہت ہو طبیعت اس سے مثفر ہو کر قے کی شکل میں رد کر دیتی ہے اشیاء کے سردوگرم مناسب و نا مناسب ہونے کو انسان زبان کے ذائقہ سے محسوس کرتا ہے۔
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِۙ(۸)وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیْنِۙ
کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائی اور زبان اور ہونٹ ۔(کنزالایمان )
انسان کو قدرت نے دو کان عطا کئے، کانوں میں خاص طرح کی رطوبت پیدا کی کہ وہ قوت سماعت کی حفاظت کرے اور موذی اور مرز رساں کیڑوں مکوڑوں سے کان کی حفاظت کرے۔ اور ان کو ہلاک کر ڈالے کان پر سیپی کی شکل کا دونوں طرف ایک ایک پنکھا سا بنایا کہ آوازوں کو مجمع کر کے کان کے سوراخ میں پہنچا دے۔ ان پنکھوں میں خدا نے ایسی تیز حسں پیدا کی جو موذی جانور یا دوسری نقصان دہ چیزوں کے قریب آنے کو فوراً محسوس کرے۔ ان کانوں کو ٹیڑھا پیچا دار بنایا کہ آواز اچھی طرح سے بلند ہو کر پہنچے اور موذی چیزوں کی بارگی اندر نہ پہنچ سکے۔ بلکے اُنہیں پیچدار طویل راستوں میں چلنے سے اندر پہنچنے میں تاخیر ہو اور اس کو دفع کیا جا سکے۔ اور سونے والا اسکی حرکت سے بیدار ہو جائے۔ پھر ہوا کے اندر جانے سے مسموعات (سن کر جن چیزوں کو معلوم کیا جاتا ہے ) کے ادراک کرنے کی قوت بھی خدا نے اس میں رکھی ہے ان بھیدوں کو وہی خوب جانتا ہے۔
چہرے پر ناک بنانے کی حکمت
ناک کو دیکھئے کہ وسط چہرے پر کس خوبی سے اُسکو بلند کیا ہے جس سے چہرے پر بڑی خوبصورتی اور خوشنمائی ہو گئی ہے۔ اس میں دو نتھنے بنائے ہیں ان میں قوت حاسہ شامہ کو محفوظ کیا ہے۔ تاکہ مطموعات و مشرو بات کی بوؤں کو محسوس کر سکے اور خوشبو سے راحت حاصل کر سکے اور بدبو سے اجتناب کر سکے۔
اس ناک کے ذریعہ روح حیات (تازہ ہوا) کو سنگھ سکے جو قلب کی غذا ہے۔ اور باطنی حرارت کو اس کی وجہ سے تازہ کیا جا سکے، اور اس کو مناسب تازہ ہوا مل سکے ۔
یہ ناک انسان کے کتنے کام آتا ہے۔ آواز کا باہر آنا اور زبان سے حروف کی ادائیگی میں زبان کا مختلف حرکتیں کرنا۔ سانس کا آنا جانا ان تمام کاموں میں ناک استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مختلف شکلیں ہوتی ہے بعض بہت تنگ اور بعض کشادہ، بعض نرم اور بعض سخت بعض لمبی بعض چھوٹے اور ان اختلافات ہی کے باعث آوازوں میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں اس لیے دو آواز بھی آپس میں بلکل نہیں ملتیں جس طرح دو صورتیں بلکل مشابہ نہیں ہوتی ۔
آواز سے بھی انسان کی پہچان ہو جاتی ہے
آواز کو سنکر بولنے والے کو اچھی طرح سے پہنچان لیا جاتا ہے جس طرح شکل و صورت سے انسان کو شناخت کیا جاتا ہے یہ بھی خدا نے بڑی حکمت رکھی ہے اور یہ اختلافات روزِ اوّل ہی سے قدرت نے رکھے ہیں چنانچہ حضرت آدم اور حوا(علیہم السلام) کو بنایا تو ان کی صورتوں میں بھی فرق رکھا اس طرح ان کی اولاد میں بھی یہ فرق نمایاں ہیں۔ یہ اختلاف و فرق بڑی حکمتوں پر مبنی ہیں اور اسکی وجہ سے ہم بہت سی دشواریوں سے نجات پاتے ہیں۔
(الحکمۃ فی مخلوقات اللہ، صفحہ ٥٧ )
No comments:
Post a Comment