async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: Mahnama Hashmat Ziya in urdu (28)

Sunday, September 19, 2021

Mahnama Hashmat Ziya in urdu (28)

 ***٩****

خطائے بزرگاں کی تلاش حرماں نصیبی ہے

از:- نبیرۂ مظہر اعلی حضرت، شہباز معرفت مولانا محمد سنابل رضاخان حشمتی ،پیلی بھیت شریف


ماہ اگست ٢٠٠٦  ماہنامہ "جام نور" میں ایک کالم "روبرو" کے تحت ایک طویل انٹرویو شائع ہوکر نذرقارئین ہوا اس کو پڑھ کر یہی تاثر قائم ہوا کہ آج بھی کچھ افراد موجود ہیں جن کا مشغلہ اکابر پر نکتہ چینی ان کی عبارتوں پر حرف گیری، ان کے کلاموں میں سقم جوئی بن چکا ہے۔ اور بزعم خویش اپنی ہمٰہ دانی کا سکہ رائج الوقت ناواقفین کے دلوں پر خواہی نخواہی بٹھاتا ہے،جبکہ اس سے قبل اس طرح کی کوئی بات ہمارے یہاں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ بلکہ اسلاف ہی اخلاف کے لیے نمونۂ تقلید ہوا کرتے تھے۔

جیسا کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث پاک ہے ’’لعن اٰخر ھذه الامة اولھاالخ ‘‘‘‘‘یعنی سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا بعد والوں کا پہلے والوں کی لعنت کرنا علامت قیامت سے ہے‘‘ بہرکیف دور حاضر میں اکابر پر نکتہ چینی کرنا اور ان کی عبارتوں میں غلطیاں نکالنا یہ قرب قیامت کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہے۔

اسی "جام نور" میں ایک انٹرویو حدائق بخشش کے اشعار پر نقد و جرح کے متعلق ہے۔جس میں امام عشق و محبّت سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی خطی تحریروں اور ان کے اشعار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے ۔اور بعض جگہوں پر کاتب کی غلطی کہہ کر اس کی تصحیح بھی کی گئی ہے۔جبکہ اس سے قبل وہ تحریرات اکابر علمائے کرام مشائخ عظام کی نگاہوں سے بھی گزریں۔اس کو پڑھا،سمجھا، مگر اس کے باوجود ان پر کسی طرح کی کوئی تنقید ان کی طرف سے عالم وجود میں نہ آئی ۔جبکہ وہ لوگ ان نقادو قلم کاروں سے کہیں زیادہ علم و عمل زہدوتقوی والے تھے۔کیونکہ وہ حضرات جانتے تھے کہ سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کو اللہ جل جلالہ نے وہ علم عطا فرمایا ہے جہاں تک عام اذہان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔یہی وجہ ہے کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی تحریرات و نگارشات کے دوران بارہا ایسی عبارتیں ذکر فرمائیں اور پھر’’اظھار آلتحد یث النعمۃ ورغمآلانف الاعدأ‘‘اور ارشاد فرمایا:’’فافھم ان کنتم تفھم وان کنا نعلم انک لاتفھم (سداالفرار)’’یعنی میری عبارت کو سمجھ سکتے ہو تو سمجھ کر بتاؤ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تم نہیں سمجھ سکتے‘‘غور  فرمائیں اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ چیلنج آج کل کے ارباب حل و عقد کے لیے نہ تھا بلکہ اپنے زمانے کے ان اصحاب علم و دانش کے لیے تھا جن کے علم و فضل کا لوہا دنیا تسلیم کرتی تھی۔ اور جب وہ نہ سمجھ سکے تو ہما وشما کس اعداد وشمار میں ہیں۔پس ثابت ہوگیا کہ آج لوگوں کا اس طرح حرف گیری کرنے اور چھاپ کر عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔

(١) یا تو اپنے علمی تفوق و برتری کو ثابت کرنا

 (٢) یا تو ان کی شخصیت جن کو لوگ  اپنا پیشوا وامام تسلیم کرتے ہیں۔ان لوگوں کی نگاہوں میں غیر معتبر ٹھہرانا۔

اور یہ دونوں باتیں لائق صد افسوس و قابل مذمت ہیں جب کہ اسلاف ہمارے سرمایہ ہیں۔ یہ تو اپنے سرمایۂ کو اپنے ہاتھوں سے برباد کرنا ہے۔

نام نیک رفتگاں ضائع مکن

تا بماند نام نیکت بر قرار

آپ خود سوچیں غیر اگر اس طرح کی حرف گیری کریں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ان کا پرانا کام ہے لیکن اپنے لوگوں کا نقطہ چینی کرنا انتہائی درجہ کی کم ظرفی اور بزرگوں کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کی بین دلیل ہے  اور ایمان جانے کا اندیشہ ہے۔

گر خدا خواہد پردہ کس درد

میلش اندر طعنہ پاکاں برد 


از خدا جوئیم توفیق ادب 

بے ادب محروم گشت از فضل رب


دوست ہو دوست کا دشمن تو شکایت کس کی

یار آمادۂ خوں ہو تو بچائے پھر کون؟

 حضور امام اہلسنّت مجدد دین و ملّت سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔

 بزرگوں کی حرف گیری اور ان کی تحریرات میں غلطیاں نکالنا ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی ہے اور ایمان جانے کا خطرہ۔معاذاللہ اللہ اگرچہ ہماری نگاہوں میں غلط ہوں " چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک غامض بات ہے کہ کبھی اولیائےکرام قدسنا اللہ تعالیٰ باسرار ہم قصداً لحن اختیار‘‘-’'اور اس میں ان کے لیےکچھ اسرار ہیں جن سے ہمارے انظار قاصر ہیں‘‘اور آگے فرماتے ہیں٠٠٠٠’’لہذا حضرات مشائخ وصیت فرماتے ہیں کہ جو لفظ اولیائےکرام قدست اسرارہم سے جس طرح منقول ہوا، اس میں تغیر نہ کیا جائے اگرچہ اپنی نگاہوں میں لحن نظر آئے کہ ان کے لئے اسرار ہیں اور برکت اسی میں ہے جو انکی زبان فیض ترجمان سے صادر ہوا‘‘ 

’’حضرت امام اجل عارف اکمل سیدی ومولائی محمد بن محمد حسین خلد الملۃ والدین بلخی رومی قدسرہ الشریف کی ”مثنوی“ معنوی کا مطالعہ کریں‘ اس میں جہاں جہاں عربی بندشیں ہیں خواں ابیات عدیدہ یا اشعار کاملہ یا پورے مصرع یا اجزاء کے مصاریع ان میں صدہا جگہ اس قسم کی باتیں پائیے گا جن پر بنظر قواعد عربیت وکلمات عرب حقیقتہً خواہ بطور معترض غلط وخطا کا الزام آئے گا“ ۔اور آگے فرماتے ہیں٠٠٠”ان کی تو گتنی ہی نہیں جنہیں صحیح کرکے پڑھۓ تو ایسے زحافات میں پڑے جو نظم فارسی میں ممنوع یا طبع وگوش کو سخت نا مطبوع پھر  کوئی گستاخ، بے ادب ہی ان کی وجہ سے حضرت مولوی قدس سرہ المعنوی کومعاذاللہ ناواقف یا بندش نظیف سے عاجز کہے،یا جنون کامل کی ظل حمایت میں آکر مثنوی شریف کی تصنیف لطیف حضرت مولوی ہونے سے منکر ہے “۔اور آگے فرماتے ہیں کہ٠٠٠” کسی محبوب کے بعض کلام میں کوئی لفظ بلحن صریح ہی ہو۔تاہم ان کا لحن تیرے صواب سے سے لاکھ درجے زیادہ اللہ عزوجل کو پسند ہے دیکھ کہ حضرت مولوی قدس سرہ مثنوی شریف میں کیا ارشاد فرماتے ہیں’٠٠٠


گر حدیثت کثر بود معنیت راست

 آں کثری لفظ مقبول خداست


دربود معنی کثر ولفظت نکو

آں چناں معنی نیز زویک تو


” دربیان خطاۓ محبان کہ بہتر از صواب بیگا نگاں ست“

(١) آں بلال صداق در بانگ نماز

حتی راہی خواند از روۓنماز 

(٢) تا بگفتند اے پیغمبر نیست راست 

ایں خطا اکنوں کہ آغاز بناست

( ٣)اے نبی واے رسولﷺ کردگار

 یک مؤذن کو بودا فصح بیار

(٤)عیب باشداول دین و صلاح

 لحن خواند لفظ حی علی الفلاح

(۵) خشم پیغمبر بجوشید وبگفت   

     یک دور مزے از عنایات نہفت 

(۶)کاے خسان نزدخداھیّ بلال

  بہتر ازصدحی وحی قیل وقال 

(۷) وامشورایندتا من رازتاں

      وانگویم زخسرو آغاز تاں


جس وقت کتاب مقدّس سبع سنابل شریف پر گمراہ لوگوں نے  اعتراض کیا کہ حضرت خواجہ خضر علیہ السلام نعلین کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ اس میں حضرت خضر علیہ السلام کی توہین ہے ۔ اب امام عشق محبت سیدی سرکار اعلیٰ حضرت مجدّد دین و ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کا وہ جواب سنئےجو لوح محفوظ دیکھ کر تین جواب  تحریر فرماتے ہیں۔ جس میں سے صرف ایک جواب ملاحظہ فرمائیں۔ وہم کرنے والا اصلاح قوم سے ناواقفی کے باعث کمال عظمت کو معاذاللہ موجب اہانت گمان کرتا ہے۔ اور اہل ظاہر پر انکار کلمات اہل اللہ میں اکثر بلا اسی دروازے سے آتی ہے۔ اس اصلاح کو اپنے مفہوم پر حمل کرتے اور خطا میں گرتے ہیں اور نہیں جانتے۔ اب سنیے نعلین کو کونین کہتے ہیں۔ اللّٰہ عز وجل نے اپنے بندے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا۔ فاخلع نعلیک انک بالوادالمقدس طوی" اپنے دونوں جوتے اتار ڈالو تاکہ تم پاکیزہ جنگل طوی میں ہو۔

مفسر علامہ نظام الدین حسن بن محمد قمی غرایٔب القرآن ورغاںٔب الفرقان معروف بتفسیر نیشاپوری میں اس آیہ کریمہ کے معنی بطور اہل اشارات و حقائق میں فرماتے ہیں۰۰۰ اترک الا لتفات الٰی  کونین انک وا اصل الٰی جناب القدس ۰۰ یعنی نعلین سے دونوں جہاں مراد ہیں اُنہیں اتار ڈالو یعنی ان کی طرف التفات نہ کرو کہ تم بارگاہ قدس میں پہنچ گئے۔ اقول  نعلین قطع راہ میں معین ہوتی ہے اور مقصد اولیاء وصول بحضرت کبریا ہے اور دنیا آخرت دونوں اس راہ کی قطع میں معین ۔ دنیا يوں کہ اس میں اعمال سبب وصول جنّت ہے اور آخرت یوں کہ وہیں وعدۂ دیدار ہے ،، 

لہٰذا طالبان مولا بالذات کونین کو زیر قدم رکھتے ہیں۔ اور جو زیر قدم ہو اسے نعلین کہنا مناسب ہے ، حدیث میں ہے الدنیا حرام اعلیٰ اھل الفقرة۔والاخرۃ حرام علی اھل الدنیا والدینا والاخرة حرام علی اہل اللہ ،،، دنیا حرام ہے آخرت والوں پر اور آخرت حرام ہے دنیا والوں پر دنیا و آخرت دونوں حرام ہے اللّٰہ والوں پر،، رواہ الدیلمی عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ،، نیز نعلین زوجہ کو کہتے ہیں ،، کما فی القاموس وغیرہ،،، اور دنیا و آخرت دونوں سوتیں  ہیں۔ 


فان من جو دک الدنیا وضرتھا 

ومن علومک علم اللوح والقلم

یہ اسی طرح اشارہ ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ،، من دنیا اضربآخرته ومن احب اٰخرةاضربدنيا فاثروامايلقىٰ علىٰ مايفنىٰ ،، 

جو اپنی دنیا کو پیار کریگا اس کی آخرت کو نقصان ہوگا اور جو اپنی آخرت کو پیار رکھیگا اس کی دنیا کو ضرر ہوگا۔ تو باقی کو فانی پر ترجیح دو،،

رواہ احمد والحاکم عن ابی موسیٰ الا اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسند صحیح۔ 

امام عشق و محبت مجدد دین و ملت سرکار اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمتہ واالرضوان تحریر فرماتے ہیں،


ہندیاں را صطلاغ ہند مدح

سندیاں را اصطلاح سند مدح


درحق او مدح در حق تو ذم

درحق اوشہددرحق تو سم 


در حق او ورد در حق او خار

در حق او نور در حق تو نار 


تو چہ دانی زبان مراغاں را 

کہ ندیدی گہ سلیماں را 


محمد شاہ بادشاہ دہلی کے حضور مجمع علماء تھابعض کلمات منسوبہ باولیاء پر رائے زنی ہو رہی تھی۔ہر ایک اپنی سی کہتا اور اعتراض کرتا۔ایک صاحب کہ جماعت میں سب سے اعلم تھے خاموش تھے ۔بادشاہ نے عرض کہ آپ کچھ نہیں فرماتے۔ فرمایا یہ سب صاحب میرے ایک سوال کا جواب دیں تو میں کچھ کہوں سب ان عالم کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے فرمایا: آپ حضرات بولی کتے کی سمجھتے ہیں؟ سب نے کہا نہ کہا بلی کہ ؟ کہا نہ۔ کہا سبحان اللہ تم مقر ہو کہ ارذل خلق اللہ کی بولی تو نہیں سمجھتے اولیاء اللہ افضل خلق اللہ ہیں ان کا کلام کیوں کر سمجھ لوگے۔

امام عبداللہ شعرانی فرماتے ہیں ٠٠٠" علماء مصر جمع ہوکر ایک مجذوب کی زیارت کو گئے۔ انہوں نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا۔ مرحبا بعبید عبدی مرحبا۔میرے بندے کے بندوں! سب پریشان ہو کر لوٹ آئے۔ایک صاحب جمع ظاہر وباطن سے ملے اور شکایت کی کہ انہوں نے فرمایا ٹھیک تو ہے تم سمجھتے نہیں تم خواہش نفس کے بندے ہو رہے ہو۔ انہوں نے خواہش نفس کو اپنا بندہ کرلیا ہے ان کے بندے کے بندے ہوۓ۔“

 صوفیاء کرام کی اصطلاحات ہیں،رموذ خاص ہیں۔ ہر شخص ان کے کلام سے انکی مراد نہیں سمجھ سکتا حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہوا کہ فرمایا٠٠٠“ خضضنا بحراوقف الانبیاء علی ساحله“” یعنی ہم نے ایسے سمندر میں غوطے لگاۓ کہ انبیاء علیہم السلام اسکے کنارے پر کھڑے ہیں“- بظاہر یہ جملہ کس قدر مہیب اور خوفناک معلوم ہوتا ہے اور ظاہر میں اس سے اس وہم میں پڑجاتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر اپنی فضیلت نکالتے ہیں۔مگرعرفاجوان حضرات کے انداز کلام اور رمزسخن کے ماہر ہیں انہیں ایک لمحہ بھی تردد نہیں ہوتا۔ان سے دریافت کیجیےُ تو فرماتے ہیں کہ یہ کلام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مدح وثناء میں بہترین کلام ہے جس میں قائل نے یہ بتایا ہے کہ ہم سب تو خواہشات کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ یہیں نہ رہ جائیں۔ مگر امید اس لیے بندھی ہوئی ہے کہ اپنے غلاموں کو غرق ہونے سے بچانے کے لیے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کنارے پر تشریف فرما ہیں۔

اب غور کیجئے! تو اطمینان ہوتا ہے کہ واقعی اس جملے کا یہی مطلب ہے اور جس کی طرف بظاہر ذہن سبقت کرتا ہے وہ مطلب ہرگز نہ تھا۔اور عارفین کے وہم میں بھی وہ بات گھر نہ کر سکتی تھی۔

لہذا حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشعار پر جرح و تنقید سے پہلے اصل نسخہ کی طرف رجوع کرنا چاہیۓ اور جن حضرات کو شکوک وشبہات ہوں وہ ازالۂ اوہام اور افہام کے لئے حضور خلیفۂ اعلی حضرت حضرت شیر بیشۂ اھلسنّت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسالہ مبارکہ” ردکیدالخبثاء “ جو عسکری اکیڈمی خانقاہ حشمتیہ پیلی بھیت شریف سے شائع ہوگئی ہے اس کی طرف رجوع کرنا چاہیۓ۔


خطاۓ بزرگاں گرفتن خطا است

No comments:

Post a Comment