*کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے*
از: محقق عصر مفتی فاران رضا خان صاحب قبلہ حشمتی
۶ رجب المُرجب ۱۴۴۲ کا دن گزر کر ۷ ویں شب آ لگی تھی ، ہم چند احباب اجمیر معلیٰ میں تارہ گڑھ کی راہ ہو لئے تھے ، پُر پیچ راستہ کی پرواہ کئے بغیر نہ جانے وہ کیا دھن تھی کہ ہر ایک عجیب و غریب تعجیل سے دو چار تھا
اس تعجیل کی وجہ تو معلوم نہیں مگر اس سفر کی وجہ محض یہ تھی کہ مرد مجاہد ، مسلک اعلی حضرت کے بے باک محافظ ، زینت آرائے مسند چشتیت ، بہار گلستان قادریت حضرت سید فرید الحسن صاحب قبلہ چشتی حشمتی نور المولی تعالی تربتہ و عطر المولی تعالی مرقدہ سے شرف لقا ہو جاوے
وہ جو برسوں بادشاہ ہندوستان کی بارگاہ عالی میں ہمارا وکیل رہا ، جس کی وکالت میں کتنے ہی امراض روحانی کی تشخیص اور پھر وقت رہتے اس کی ویکسین خانوادۂ حشمتیہ کے ہونہار ، کہنہ مشق اطباء کے ذریعہ تیار کی گئی
آپ کا مزار پر انوار تارہ گڑھ پہاڑی کے نصف اوّل راستہ میں واقع ہے
خیر سے وہ مقام آیا جہاں وہ آستانہ موجود تھا رات کے اس پہر میں آستانہ تو معمور تھا مگر وہاں کا با رونق سناٹا مانو کہہ ہو کہ ہمارے شیخ نے تاریخ کی اتنی اُلٹ پھیر دیکھیں کہ چُپّی سی سادھ لی ہے۔
اُڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بُلبلیں گُلزار میں
جی میں کیا آیا کہ پابند نشیمن ہو گئیں
شہزادۂ ناصر ملت مولانا مناقب الحشمت صاحب جو ہمراہ سفر تھے انہوں نے بذریعۂ فون آستانے کے خادم صاحب کو اپنی اور فقیر اور برادر گرامی وقار حضرت علامہ مفتی محمد مہران رضا خانصاحب قبلہ عمت فیوضھم کی آمد کی اطلاع دی ، خادم صاحب کا مکان آستانہ کے قریب ہی واقع ہے فوراً تشریف لے آ ئے
دروازہ کھلا تو مزید کچھ زینے عبور کر اس جا پہنچے جہاں وہ مرد مجاہد پہاڑ کا سینہ چیر کر آرام فرما ہے ۔
پہلے پہل تو لگا کہ بس ابھی مزار پاک سے آواز آئے گی “ آؤ آو! مہران میاں ، فاران میاں ، مناقب میاں یہ سب ہمارے مفتیوں کی ٹیم ہے ،، کہ پہلے انہیں جیسےالفاظ بار بار ملاقاتوں پر گوش گزار ہوتے تھے
مگر آنکھوں کے سامنے سچ تو کچھ اور ہی تھا ، زبانیں تو خاموش تھیں مگر بے زبان آنسو اپنی چیخ و پکار سے مانو آسمان سر پر اُٹھائے ہوں
آنکھ سے ٹپکا تو کھل کر رہ گئے سب دل کے راز
آج میں سمجھا کہ آنسو بے زباں ہوتا نہیں
معطر آستانہ پر عطر و گلاب پیش کئے پھر کافی دیر نعت و منقبت کا سلسلہ رہا ۔
درمیانِ محفل دل کرتا کہ چلو حضرت سے بول دیں ، بہت دن ہوئے آپ کے دست پاک سے پان کھائے ہوئے آج تو کھلا دیں
یادِ ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں
میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی
مگر اب ملاقات کے راہ و رسم بدل چکے تھے ، جگہ بدل چکی تھی ، عطر ، گلاب اور چادر پوشی کی شکل میں طور و طریقے بھی ملاقات کی ایک نئی اصطلاح رقم کر چکے تھے۔
سال گزشتہ ہی تو عرس حضور غریب نواز کے پُر بہار موقع پر ملاقات ہوئی تھی اور ایک وہی ملاقات کیا ماضی کی کتنی ہی خاک آلودہ داستانیں صفحہ با صفحہ ورق با ورق ذہن صاف کرکے سامنے پیش کر رہا تھا اور آنکھ ہر ایک داستان پر بشکل اشک مانو مہر تصدیق لگا رہی ہوں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
وہابیت دیوبندیت پر شدت تو رافضیت جو اجمیر معلی میں قدم جما چکی ہے اس سے اس بلا کی عداوت کہ “سبع سنابل ،،شریف کا وہ سنبلہ جو روافض کے رد میں ہے اپنے نام کے ساتھ شائع فرمایا ، نورُٗ علی نور کا وہ جلوہ کہ ہر مقام پر فرماتے میرے اعلی حضرت فاضل بریلوی یہ فرماتے ہیں میرے اعلی حضرت یہ لکھتے ہیں ، امام اہل سنت قدس سرہ کا رسالہ “مطلع القمرین ،، سنایا گیا تو زبان پر بس یہی الفاظ جاری تھے “سبحان اللہ سبحان اللہ،، ایک ہی رات میں پورا رسالہ سماعت کیا ، امام اہل سنت اعلی حضرت سے محبت اس درجہ تھی کہ جابجا فرماتے تھے “میاں میں نے تو یہ مشاہدہ کیا کہ جو شخص اعلی حضرت سے دور ہوا وہ دھیرے دھیرے دین سے دور ہوتا گیا،،
امام اہل سنت اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے اپنے فتاوی میں ایک مقام پر فرمایا تھا کہ :
“خصوص کا انکار نصوص کے انکار کی طرف لے جاتاہے،عبدالقادرکا انکار قادرمطلق عزجلالہ ٗ کے انکار کی طرف کیوں نہ لے جائے گا،،
(رضویہ شریف )
دونوں عبارتیں سامنے رکھ کر یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اعلی حضرت ، حضور غوث اعظم جیلانی رضی المولی تعالی عنہ کے مظھر اتم و اکمل تھے
اور اس بات کا پرچار کتنی عمدگی سے سید صاحب قبلہ اپنی حیات میں کر گئے
یہی وہ وجوہات ہیں کہ پوری عمر انہیں اپنوں کی نشتر زنی کا سامنا رہا کہ کھاتے اجمیر کا ہیں گاتے بریلی کا ہیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
سلام رخصتی کرتے کرتے ایسی کتنی ہی داستانیں ماضی کے دریچہ سے چمک کر غائب ہو رہیں تھیں اور میں ........
ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا تھا دفتر
فقیر سگ بارگاہ مشاہد
محمد فاران رضا خان حشمتی غفرلہ القوی
آستانہ عالیہ حشمتیہ حشمت نگر پیلی بھیت شریف
No comments:
Post a Comment